میں اگلے دن کالج جانا چاہتا تھا لیکن بیلا کے اصرار پر ایکدن ریسٹ کیا۔۔ ناصر گھر جا چکا تھا ۔۔ عمبرین کو بتانے۔۔میں باہر لان میں
بیٹھا ہوا تھا ۔۔ جب سامنے والے مکان کی گیلری پر وہ لڑکی پھر برآمد ہوئی۔۔ بلکل فیشنی لڑکی جیسی لاہور کی فیشنی لڑکیاں ہوتیں۔۔گیلری اور اسکے پیچھے والا روم نظر کچھ کچھ نظر آ رہا تھا۔۔ اس روم میں ایک اور لڑکی نظر ا رہی تھی
گھریلو ٹراوزر شرٹ میں۔ اچانک اس گیلری والی کی نظر مجھ پر پڑی۔۔ بجاے نظر چرانے کے وہ نظر جما کر دیکھتی رہی ۔۔ پورے اعتماد سے۔۔ دو چارسیکنڈ نظر جمانے کے بعد اس نے ایک ویلکم سمائل پاس کی اور اندر چلی گئی
میں باہر بیٹھا ہوا عمبرین بارے سوچ رہاتھا جب باہر والا دروازہ تیزی سے کھلا ۔۔ اور مجھےیوں لگا جیسے بہار آ گئی ۔۔۔
کیا کہا ہے نا فیض صاحب نے جیسے صحرا میں چلے ہولے سے باد نسیم ۔۔ جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جاے۔۔ لیکن میری وجہ تھی۔۔دروازے سے تیز تیز قدموں سےآتی عمبرین۔۔ جسکا ہر قدم گویا مجھے زندہ کر رہا تھا۔۔ جیسے مرتا ہوا مریض اور قطرہ قطرہ جاتا گلوکوز جو اسے زندہ کر رہا ہو۔۔ سیاہ سکارف کے نقاب میں جھانکتی وہ بڑی سیاہ آنکھیں۔۔
وہ آنکھیں جو عجب مقناطیسی کشش رکھتی تھیں جس نے میرے اندر کی تمام اداسی کھینچ ڈالی۔۔ اسکی آنکھیں جو زندہ کر دیں۔۔ میں بےساختہ انکے استقبال کے لیے اٹھا۔۔سمجھیں جیسے دونوں طرف سے تیزی تھی وہ دروازے سے جلدی میں میری طرف بڑھیں اور میں کرسی سے اٹھا ۔۔ وہ ایسے بڑھیں جیسے گلے لگنا ہو ۔۔ دو قدم دور ٹھٹھک کر رکیں ایک عجیب عالم تھا۔۔ ان سے کچھ قدم پیچھے نائلہ اور ناصر تھے۔۔ نائلہ کے چہرے پر ہلکی حیرانگی سی تھی۔۔عمبرین کی آنکھیں ڈبڈبائیں ہوئی تھیں لیکن لب خاموش تھے کچھ دیر بعد وہ بولیں کیسے ہو ۔۔ٹھیک اس بےساختگی کے بعد وہ میرے سامنے آ کر پھر خموش سی ہو گئیں۔۔ اندر آ کر لاونج میں ہم سب بیٹھ گئے ۔۔ انکا ملیح چہرہ جس پر قدرے افسردگی طاری تھی۔۔نائلہ میں چائے بنا کر لے آوں کہتی کچن کو بڑھی اور وہیں سے ناصر کو بہانے سے بلا لیا۔۔اب ہم دونوں لاونج میں اکیلے تھے۔۔
زیادہ لگی کیا کچھ دیر بعد وہ منمنائیں۔۔بہہت زیادہ ۔۔ وہ جیسے تڑپ اٹھی۔کہاں زیادہ درر۔۔ میں نے کہا دل میں۔۔ وہ کراہیں نعیم کیوں کرتے ہو ایسی باتیں۔۔ میں انکی طرف دیکھا اور کہا آپ کیوں کرتیں ہیں ایسا۔۔کیوں برداشت کر رہیں یہ بےقدری۔۔ وہ تلخ سی مسکرائیں اور کہا ۔۔ یہی میری قدر ہے۔۔ مجھے جیسے کسی نے کاٹ ڈالا میں تڑپ کر بولا۔۔آپکی قدر ہمیں ہے ہم جویہاں موجود ہم تینوں کو۔۔وہ سرجھکائے پاوں کے انگھوٹے سے کارپٹ کو کریدتیں رہیں۔۔مجھے جانے کیا ہوا میں اٹھا اور انکے ساتھ قدرے فاصلے پر بیٹھا۔۔ وہ ویسے سر جھکائے ۔۔ میں نے کہا عمبرین ادھر دیکھیں ورنہ میں یہ سامنے والا گلدان اپنی اسی ٹانگ پر مار لوں گا۔۔انہوں نے جھٹکے سے سر اٹھایا اور بولیں نہیں تم وہ گلدان میرے سر پر مار دو ۔۔ قصہ ختم کرو۔۔ کیا چاہتے ہو تم۔۔میں کیا کروں۔دو سال بعد تم نے واپس چلے جانا۔۔ میں انہی لوگوں کے ساتھ رہنا ہے نائلہ کا اپنا گھر۔میں ادھر سکون سے رہ رہی ہوں ۔ چھوٹی موٹی لڑائیاں ہر گھر میں ہوتیں ہیں تم پتہ نہیں کیا سمجھ رہے ہو۔۔میری غلطی ہے سب وہ بےبسی سے سسکیں ہوں جیسےمیں نے ہاتھ بڑھایا اور انکا گود میں رکھا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا میں ہوں آپکے ساتھ ۔۔ ہر لمحہ ہر لحظہ ۔۔ آپ نہیں جانتی آپ میرے لیے کیا ہیں ؟ سمجھیں میں ایک سیارہ ہوں جسکا مدار ہی آپ ہیں مجھے آپکے گرد ہی گھومنا ہے جیسے ہی آپکے مدار سے نکلا میں فنا ہو جاوں گا بکھر جاوں گا۔۔نعیم ۔۔ آج مجھے بولنے دیں میں نے انکو کچھ کہنے سے پہلے روک دیا۔۔آپکو خالہ کا خیال ہے وہ انکا ویسے بھی رکھ سکتیں ہیں۔۔ لیکن یہ غلامی کا پٹہ اتار دیں۔۔ میں کچھ زیادہ ہی تلخ ہو گیا ۔۔ چپ بسسس ایک لفظ نہیں ۔۔ میرا شوہر ہے وہ اسکی تابعداری کا حکم دیا گیا ہے مجھے تمہیں کوئی حق نہیں ہمارے پرسنل معاملات میں بولنے کا وہ اونچا بولیں۔۔شکریہ بتانے کا کہ میرا حق نہیں۔۔ آپ نے عہد طالبعلمی کیا تھا اس کا حق سمجھ کر بولا۔۔ وہ میری غلطی تھی اب میں طالبعلم نہیں شادی شدہ گھریلو عورت ہوں اسلیے براہ مہربانی مجھے پھر سے پڑھنے نا ڈالو میں جتنا پڑھ بیٹھی اتنا ہی بہت ۔۔انہوں نے میرے ہاتھ سے ہاتھ چھڑا کر کر انہیں جوڑ کر کہا۔۔۔ اور اٹھ کر اوپر چلی گئیں۔۔ میں وہیں صوفےپربیٹھا انہیں جاتا دیکھتا رہا۔۔ انکی اونچی آواز سن کر نائلہ بھی آ گئی اور مجھ سے پوچھنے لگی۔۔ میں نے بیزاری سے کہا کچھ نہیں یار ۔۔ عجیب لڑکی ہے بولتی ہی نہیں جب بولتی ہےتو مایوس بولتی ہے اب آئی بھی اور حال بھی سہی سے نہیں پوچھا۔۔ لیکن تم نےایک بات نوٹ نہیں کی ۔۔کیا ؟،جیسےہی اسےپتہ چلا وہ کیسے دوڑی چلی آئی کیسے لپک کر آئی تھی تمہاری طرف جیسےپانی نشیب کو آئے ۔۔پوری شدت سے ۔۔لڑکیاں بہت گہری ہوتیں ہیں نعیم اور عمبرین تو بہت ہی گہری ہے تمہیں وقت دینا پڑے گا اسے ۔۔ ویسے مجھے تم دونوں کے دوستانے کی سمجھ نہیں آرہی ۔میں نے کہا سمجھا دوں گا کبھی ویسے آپکی بات قابل غور ہے۔۔ وہ نہیں بولیں لیکن انکا آنا بولا ہے انکا احساس بولا ہے انکا انگ انگ بولا ہے۔۔ آپ رکیں میں آتا ہوں۔۔ میں اوپر کی طرف بھاگا۔۔۔وہ اسی کمرے میں سامنے لگی تصویر کے سامنے کھڑی تھیں۔۔ میں چپ چلتا ہوا انکے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔۔ انہیں یقینا پتہ چل گیا تھا لیکن نا بولیں نا مڑیں۔۔ میں نے ہولے سے کہا۔۔ سوری عمبرین میں کچھ تلخ ہوگیا۔مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے وہ کچھ نا بولیں۔۔ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ ضبط کے دھانے پر۔۔میں نے کہا عمبرین لیکن آج مجھے کہنے دیں ۔۔ اور یہ بات میں انکل اور آنٹی کی تصویر کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں۔۔میں آپکو بہہہت شدت سے چاہتا ہوں اتنی شدت سے کہ ۔۔لیلی مجنوں سوہنی مہینوال سسی پنوں شیریں فرہاد ہیر رانجھا سب کی محبتوں کو ملا کر اکھٹا کریں اس سے بھی زیادہ۔۔میں نے گویا دھماکہ کیا۔۔ وہ جیسے کانپیں میں نے انکے شانے پر ہاتھ رکھا اور کہا۔میں بس یہ چاہتا ہوں آپ یہ خود ساختہ قید کو ختم کریں ۔۔ کھل کر جئیں ۔کسی سے نا ڈریں۔۔میں ہوں آپکے ساتھ پوری طرح ۔۔انکی آنکھوں سے آنسووں کی لڑی جاری تھیں۔۔ میں نے کہا۔۔ دیکھو انکل آنٹی بھی یہی چاہتے ہونگے نا کہ تم دل سے آباد رہو۔ انکےلیے میرے لیے ۔۔میں نے وعدہ کیا ہے انکل اور آنٹی سے کہ انکی عمبرین کو آباد کرنا ہے ۔۔ روح سے دل سے سکھ سے۔۔ کیا ہمیں شرمندہ کرو گی ؟؟؟وہ جیسے کانپیں ۔۔ بولیں میری طرف دیکھ کر بولیں۔۔ میری آواز بھاری ہو چکی تھی۔ لفظ جیسے اندر کی کیفیت بتا رہے تھے۔۔
انکی آنکھوں کی روانی بڑھ چکی تھی۔۔میرے دل کو جیسے کچھ ہوا۔۔ میں جھکا اور جھکتا جھکتا انکےپاوں جھکا اور کہا روئیں نا پلیز۔۔ آپ چپ ہو جائیں میں واپس چلا جاتا ہوں۔۔ بس ہو گئی پڑھائی بہت پڑھ لیا میں نے۔۔آپکے پاوں پکڑ کر معافی مانگتا ہوں ایسے رو کر مجھے اور خلش نا دیں۔۔وہ تڑپ کر پیچھے ہٹیں کیا کررہے ہو نعیم تم پاگل ہو۔ ہاں ہوں پاگل آپکے لیے ہوں۔ میں شائدواقعی اس وقت پاگل ہو چکا تھا۔ میری آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے۔۔ روتے روتے میں بےچارگی سے زمین پر بیٹھ گیا۔۔ مجھے واقعی دل کی لگی لگ گئی تھی۔وہ نیچے بیٹھیں۔۔ دونوں رو رہے تھے۔۔انکی چادر سرک چکی تھی۔انکی شفاف گردن ۔۔ انکی ہنسلی کی ہڈی چمک رہی تھی وہ بےمثال تھیں۔۔ لیکن مجھے انکے جسم سے زیادہ انکی روح سے طلب تھی۔۔ میں کیا کروں بولو میں کیا کروں میں کسی اندھے ابابیل کی طرح جتنی بھی کوشش کروں اندھے کنویں میں ٹکراتی پھروں گی۔ تم جو باتیں کر رہے ہو نا بہت دیر ہو چکی انکے لیے اب۔۔میں نے ہمت کر کے ہاتھ بڑھایا اور ہتھیلی سے انکے آنسو صاف کرتے ہوئے ہوئے کہا۔۔ دیر ہوئی اندھیر نہیں۔۔ ایکبار بس ایکبار مجھے کوشش کرنےدیں روکیں نہیں۔۔ دیکھیں میں زمین پر بیٹھا انکل اور آنٹی کی موجودگی میں یہ وعدہ ہے میرا مر جاوں گا پیچھے نہیں ہٹوں گا۔۔ وہ جیسے تڑپ اٹھیں اور میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیے بولی چپ ۔۔ مرنے کی بات نا کرنا ورنہ میں مر جانا ۔۔ آج دیکھا نہیں تھا کتنی پریشان تھی میں وہ روتے ہوئے بولیں۔ہم آمنے سامنے بیٹھے بے ربط بول رہے تھے۔۔میں نے کہا تو بولیں ۔۔ کرنے دیں گی کوشش۔۔بولیں سونپ دیں اپنی ذمہ داری مجھ پر میں آپکے گھر میں آپکے مرحوم والدین کےسامنے پوری نیت سے حاضر ہوں۔۔ نعیم وہ سسکیں میں نے انکا جھکا سر اوپر اٹھایا آنسو خشک کرتے ہوے بولا بسسسس۔۔۔ اب اور نہیں۔۔ جتنا رونا تھا رو لیا۔۔بسسس میں نے انکا ہاتھ پکڑ کر ہلکا سا کھینچا اور لچکیلی شاخ کی طرح میری طرف جھکیں۔۔ ہمارے ماتھے ایک دوسرے کے ساتھ ٹچ تھے۔۔آنکھیں بند۔۔ میں نے انکا چہرہ پیچھے کیا اور انکی تابندہ پیشانی پر پیار کا پہلا بوسہ دیا۔۔ بوسہ تھا کہ مرہم۔۔ وہ بوسہ جس میں اپنائیت تھی چاہ تھی۔۔ ہوس نا تھی۔۔ وہ ایسے ہی میرے ساتھ میرے شانے پر سر رکھ کر ہلکا ہلکا سسکتیں رہیں انکا قرب انکی خوشبو میرے لیے جیسے سب جہاں سے بڑھ کر تھی۔۔بلکل سامنے میرے شانےپرسررکھے وہ خاموشی سے بس آنکھیں بند کیے۔۔ جیسے انہوں نے رضا دےدی ہو۔۔ جیسےسپر ڈالی ہو۔۔ میں نے انہیں ایسے سنبھالا جیسے کل جہاں کی دولت ہو۔۔ میں نے جب انہیں ہلکے سے ایک بازو میں لیا یا سمیٹا مجھے ایسے لگا جیسےمیری تکمیل ہو گئی۔۔ جیسے وقت رک گیا جیسے جلتے صحرا پر بادلوں کا چھانا جیسے اندھیرےمیں پہلی کرن۔۔ انکا گداز وجود۔۔ انکا دلکش سراپا۔۔ پورے آن بان شان اور جوبن کےساتھ میرے بلکل ساتھ تھا لیکن میرے اندر ہوس تک نا تھی۔۔ بس میرا دل تھا وقت رک جاے اوروہ ایسے میرے ساتھ لگی رہیں۔۔ میں چاہتا تو انہیں مزید چھو سکتا تھا لیکن یہ حد عشق سے بڑھنا تھا۔۔یہ عشق نا ہوتا۔۔ اورمجھے ان سے عشق تھا روح سے دل سے۔۔ ہاں میں اس دلکش مورت کو چھونا چاہتا تھا انکے انگ انگ کو چومنا چاہتا تھا لیکن ایسے نہیں۔۔ پوری سپردگی سے پورے حق سے۔۔ وہ عمبر تھیں انکو مہکا کر محسوس کرنا تھا۔۔ وہ جام حیات تھیں انکو ضائع نہیں کرنا تھا اور میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کچھ ایسا کروں کہ انکی سرکار سے گناہگار ٹھہروں۔۔بہکنے کے لیے اور بہت۔۔ وہ آوارگی تھی یہ زندگی ہے۔۔ جانے کتنی دیر ہم ساتھ لگے رہے انکا سر میرے شانے پر ٹکا رہا۔۔ انکے جسم کی مہکار مجھے مسحور کیے رہی وہ عجیب لمحے تھے۔۔اچانک دروازےپر دستک ہوئی اور ہمیں حال میں لے آئی۔۔ جیسے ہی حال میں آئے انہیں احساس ہوا۔۔ انکی رنگت شہابی ہوئی پلکیں لرزیں اور میں انکی اس ادا پر مرمٹا تھا۔۔اس سےپہلے کہ میں کچھ کہتا یابولتاوہ شرما کر اٹھیں اور تھوڑا دورجا کرکھڑی ہو گئیں۔۔ دستک نائلہ نے دی تھی۔۔اور شائد اس نے کچھ دیکھ بھی لیا تھا لیکن مجھے قطعی مسلہ نا تھا۔۔ میں جیسے جی اٹھا تھا میرے اندر ایک جوش تھا ۔۔ جیسے زندگی کا مقصد مل گیا ہو۔۔۔ میں نے انکی طرف دیکھا۔۔ انکی رنگت ابھی تک دہک رہی تھی جیسے ابھی انہیں میرے اتنے قریب آنے کا احساس ہوا ہو۔۔ انکی لو دیتی رنگت مجھے اور پاگل کر رہی تھی۔۔ وہ اپنا جواب دے چکیں تھیں ۔۔ زندگی گلزار ہو چکی تھی۔۔ اب آگے کیاکرناتھا۔۔ یہ ابھی سوچنا تھا
کچھ دیر بعد وہ جانے لگیں تو میں انکے ساتھ چلتا ہوا دروازے تک آیا اور کہا۔۔ میں رات کو فون کا انتظار کروں گا بہت شدت سے۔۔ وہ کچھ نا بولیں بس نظر بھر کر میری طرف دیکھا۔۔ اففففف انکی وہ نظر ۔۔ انکی آنکھوں میں ٹھاٹھیں مارتی امید اور چمک ۔ وہ مسکرائیں اور پلکوں کا چلمن گرا کر اشارہ دے دیا ۔۔۔ انکے جانے کے بعد بھی پورے گھر میں انکی مہکار تھی انکی یاد تھی۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی میں کیا کروں۔۔ ناچوں یا گاوں۔۔ پوری دنیا کو بتاوں کہ ہم مالا مال ہو گئے
اس دن جب میں بیلا کے گھر گیا تو خلاف توقع بیلا کچھ خاموش خاموش تھی اپنی عادت کے برعکس لیکن چونکہ میں الگ جہان میں تھا اسلیے غور نہیں کیا۔۔ اس دن میری رننگ کمال کی تھی۔۔ جیسے میں عمبرین کو کہیں بھگا کر لیجا رہا دور بہت دور۔۔ شام تک میں نے ڈٹ کر پورے دل سے محنت کی۔۔۔ شام کو واپسی پر بیلا بولی چلو تمہیں چھوڑ آتی۔۔ مجھےپتہ تھا اسے کچھ بتانا۔۔گلبرگ کی شام ۔۔ کھلی سڑک پر وہ راستے کے پتھروں جوس کے ڈبے یا کسی شاپر کو فٹبال کی طرح پاوں سے اچھالتی ۔آخر تنگ آ کرمیں بولا بیلا ۔۔ کیا بات ہےیار پھوٹو منہ سے کیا مسلہ ہے آخرکیوں اسے چپ۔وہ بولی مسلہ میرا نہیں ۔۔ مسلہ میڈم رفعت کا ہے۔۔ ہیں انکا کیسا مسلہ ۔۔۔ یار آج جب میں کالج گئی تو نان سٹاپ شروع ہوئی ۔۔ جسکا خلاصہ تھاکہ۔۔ میڈم رفعت کوگاوں سے کوئی خبر ملی تھی۔۔ انکے بھتیجے کی کسی سے لڑائی ہوئی تھی ۔ زمیندار گھرانہ تھا۔۔ خود میڈم کےنام کافی زمین تھی ۔۔لیکن وہ بس ٹیچنگ تک محدود رہ گئیں اب کیوں رہ گئیں وہ جانتی تھیں۔۔ تو ۔ تم کیوں پریشان ہو ۔۔ گاوں میں ایسا ہوتا رہتا۔۔ میں اسلیے پریشان نہیں کہ انکے بھتیجےکی لڑائی ہوئی۔۔۔ تو ؟ میں اسلیے پریشان ہوں کہ میڈم کو لگتا وہ لوگ جوابا کوئی اوچھی حرکت کریں گے۔۔ انہیں ڈر سا۔۔یار انہیں کیا ڈر ۔ لڑکوں کی لڑائی میں میڈم کو کون کچھ کہےگا۔۔ دشمنی کے اصول ہوتے ہیں۔۔ عورتوں پر نا ہاتھ اٹھایا جاتا ہے نا ان پر نظر۔۔تم پریشان نا ہو ۔۔ کل بات کرتے ۔۔ اسے دلاسہ دیا۔۔ وہ چلتے چلتے میری والی روڈ کی نکڑ تک آئی اور بولی نعیم ایک اور بھی مسلہ ہے۔۔ اب وہ کیا۔۔ اب مجھے ڈر لگنے لگ گیا ہے اب تم مجھے واپسی چھوڑ کر آو۔۔ حد ہےیار ویسے تو بہت بہادر بنتی ہو اور تمہیں کس نے کچھ کہنا تم تو پندرہ سالہ سکول بوائے لگتی ہو میں نے تو مذاق کیا لیکن جانے مجھ سے کیا غلطی ہو گئی بیلا کا چہرہ یکدم لال ہوا۔۔ حالانکہ وہ بہت بڑےدل کی مالک تھی ۔۔ اس کی آنکھیں جیسے بھر آئیں ۔۔ اس نے انگلی اٹھائی اور بولی بسسس تم بھی۔۔ وہ پلٹی اور تیز قدموں مڑ گئی۔۔ مجھے گڑ بڑ کا اندازہ ہوا اور اسکے پیچھے بھاگا۔۔ اررےیار رکو تو سہی سوری نا ۔۔۔ میں نے کان پکڑتےہوئے کہا۔۔ کہو تو مرغا بن جاوں ۔۔ بڑی منتوں سے اسکے ساتھ چلتے اسکے گھر تک جا کر منا ہی لیا۔۔ اور میں پھر سے واپسی کو پلٹا۔۔۔ فردوس مارکیٹ سے جب میں گھر کو مڑا اسی وقت اندر سے دو لڑکیاں نکلیں اور میرے سے دو قدم پیچھے چلنے لگیں۔۔ میں نے دیکھا ان میں سے ایک لڑکی تو یقینا گیلری والی تھی لیکن دوسری شائد کمرےوالی یا شائد کوئی اور۔۔ لانگ کورٹ کے اوپر مفلر اوڑھے وہ بلکل ڈراموں کی لڑکیوں جیسی لگ رہی تھیں۔۔سنیں اچانک مجھے آواز آئی۔۔ جی میں تھوڑا جھجھکا۔۔ آپ وہی ہیں نا جو۔۔جی میں وہی ہوں میں نے اسکا جملہ مکمل کیا۔۔ دیکھا میں کہ رہی تھی نا اس نے دوسری لڑکی سے اپنے اندازے کی تصدیق چاہی۔۔آپ رینٹ پر آئےہیں ۔۔نہیں میں نے اسے بھی وہی سٹوری ڈالی جو ناصر سے پلان کی تھی۔۔ ذاتی مکان اکلوتا لڑکا والدین باہر۔۔ یہاں رہتا پڑھتا۔۔ اپنے کلاس فیلوز کو نہیں چھوڑنا چاہتا وغیرہ۔۔۔ساتھ چلتے تعارف کا مرحلہ شروع ہو چکا تھا۔۔ گیلری والی کا نام سارہ تھا وہ فورتھ ائیر میں تھی۔۔ دوسری کا نام روزینہ تھا لیکن سب اسے روزی کہتے تھے وہ کال سنٹر میں جاب کرتی تھی۔۔ دونوں رینٹ پر تھیں۔۔ انکاتعلق قصور سے تھا۔بااعتماد لڑکیاں۔۔ روزی تو کال سنٹر میں جاب کر کر کے کافی اوپن بولنے والی ہو چکی تھی ذرا نہیں لگ رہا تھا کہ پہلی بار ملے۔۔ گھر کے سامنے دو منٹ رکے اور کبھی آرام سے باتیں کرنے کا وعدہ کر کے الگ الگ ہو گئے۔ میں نے نوٹ کیا تھا کہ سارہ بولی کم تھی لیکن اس نے مجھے تاکا زیادہ تھا۔۔۔ گھر ناصر واپس موجود تھا۔ آج اس سے بھی باتیں کرنی تھیں اس کو اعتماد میں لینا تھا کیونکہ نائلہ اور ناصر کی مدد کے بنا کچھ ہونا ناممکن تھا۔۔ اور دس بجے کے بعد انتظار تھا روح و جاں کے فون کا
میں گھر داخل ہوا تو سمجھیے ناصر بےتابی سے میرا انتظار کر رہا تھا۔۔جیسے ہی مجھ پر اسکی نظر پڑی اسے سکون آیا۔۔
اب وہ مجھے کسی گرو کا مقام دیتا تھا۔۔میں صوفے پر بیٹھا اور وہ میری ٹانگوں کو دبانے لگا ۔۔ سکون ہی آ گیا۔۔۔
ہاں بھئی سناو ملے اپنی سہیلی سے
وہ ہلکاشرماکر بولا ہاں جی۔۔ پہلے تو بےچاری بہت پریشان تھی ۔۔جب میں نے بتایا کہ میرا کزن اور دوست آیا ہوا لندن سے شادی کے لیے آجکل گلبرگ ہے آوٹنگ کے لیے بہت تگڑی آسامی ہے اور ہمارا پلان لاہور گھومنے کا ۔۔ روز شام کو ہم شیشہ ہاوس جاتے ہیں(ان دنوں بلکل نیا نیا شیشہ آیا تھا پاکستان میں اور انتہائی برگر لوگ شیشہ پینے جایا کرتے تھے ) تو کہنے لگی بھئی موجیں تمہاری میں نے اسے بھی آفر کی ہے کہ اگر اس نے آوٹنگ کرنی ہو تو شیشہ ہاوس آ جاے ۔۔اسکا دل تو ہے اگر گھر سے اجازت مل گئی۔۔۔ میں سمجھ گیا کہ اجازت تو بس بہانہ ہے وہ آئے گی بس اس بدھو کو ڈرامہ کیا۔۔ شام کے چھ ہونے والے تھے اور اس نے ساڑھے چھ کا وقت دے رکھا تھا اسی لیے وہ دیوانہ وار میرا انتظار کر رہا تھا۔۔مجبوری تھی اور مجبوری کے ساتھ شائد مجھے لت سی لگ گئی تھی۔۔خوش تو میں تھا ہی بہت اور پرجوش بھی۔۔میں نے انگڑائی لی اور اچھے سے تیارہو کر پرفیوم سہی سے چھڑک کر باہر نکلا۔۔ لک تو میری اچھی تھی ہی دیسی خوراک اور لہور سے پہلے کی کسرت کیوجہ سے صحت بھی اچھی تھی ۔۔ ظاہرا بھولی سی شکل ۔۔ اور اندر کا بھولپن تو آنٹی نے ایسا اتارا کہ اب واپس نا آتا۔۔جب میں اسکے ساتھ شیشہ ہاوس پہنچا تو میرا سارا اعتماد ہوا ہو گیا ایکبار تو۔۔ برگر لڑکے لڑکیاں شیشہ کے مرغولے ۔۔میں اندر سے کنفیوز تھا یہ ماحول میرےلیے پہلی بار تھا ۔۔ہم ایک سائیڈ پر بیٹھ گئے۔۔۔ ناصر البتہ پہلے ایکبار آچکا تھا۔۔کچھ دیر بعد اچانک ناصر چونکا اور کہا وہ دیکھیں آ گئی۔۔ میں نے اسے مڑ کر دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔فیشنی تو وہ شادی پر بھی تھی لیکن ابھی اس فرکوٹ براون بال کھولے وہ بلکل انگریزنی لگ رہی تھی۔۔ناصر مجنوں کا بچہ دوڑا اور اسکے استقبال کو آگے بڑھا البتہ میں لاپرواہی سے بیٹھا رہا۔۔ ناصر اسکو لیے آیا اور میرا اور اسکا تعارف کروایا ۔ اسکا نام تانیہ تھا۔۔میں نے بلکل ولائتی منڈوں کی طرح ہیلو کرتے ہاتھ بڑھایا ۔۔ اس نے بلا جھجھک میرا ہاتھ تھاما اور بڑی گرمجوشی سے ہاے کیا۔۔شیشہ سرو ہو چکا تھا۔۔میں گاوں میں حقہ ہی ایک آدھ بار پیا تھا اسلیے بےجھجک ایک کشش لیا۔۔ کچھ ذہین تو تھا ہی میں نے ادھر ادھر تاک کر دیکھ لیا تھا کہ کیسے کشش لے رہے لوگ۔۔۔یہ جانے کیسا حقہ تھا۔۔ جیسے میٹھا سا دھواں ۔۔اسکا تو مسلہ ہی نہیں تھا دیسی تمباکو کا حقہ کجا یہ شیشہ کجا۔میں نے اس بار تانیہ کی طرف شیشہ بڑھایا اس نے بڑی ادا سے گہرا کشش لیا اور سرخ لپسٹک والے سیکسی ہونٹوں کو گول کر کے اوپرکودھواں پھینکا۔۔ اب ہلکی پھلکی فرینکنس ہو چکی تھی۔۔ میں نےحاتم طائی بنتے ہوئے گہری چال چلی اور ناصر کو بولا کہ بھئی تمہاری مہمان ہیں کوئی خدمت کرو ہماری ہوتیں تو ہم پوچھتے ۔۔ اسکے ہونٹ مسکرائے ۔ اسنے بات کو سمجھ لیا تھا۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ مرغا چھری کے نیچے آنے کو بےقرار۔ یہ ایک کیفے کا بیک ہال تھا ۔۔اندر مناسب حرارت تھی ۔۔ شیشہ کا خوشبو آلود دھواں ۔۔ باہر والی سردی کی بجائے یہاں کافی سکون بخش ماحول تھا۔۔ناصر اٹھ کر اگلے حصہ کیفے کچھ آرڈر کرنے گیا اب ہم دونوں آمنے سامنے تھے یہاں کافی حرارت سی نا۔۔ اس نے بڑی ادا سے فرکوٹ کے کچھ بٹن کھولتے ہوئے کہا افففف اسکا کوٹ کھلنا تھا کہ جیسے مجھے کرنٹ لگا کوٹ کے نیچے اس نے ٹائٹ ہائی نیک سی پہنی ہوئی تھی جس میں اسکا سوپر فگر نمایاں تھا۔۔ ہائی نیک میں اسکے بوبز بلکل ٹائٹ تھے کم از کم چھتیس کے ہونگے۔۔ میرے دل نے گواہی دی کہ یہ بچی ناصر کو ناسہی کسی نا کسی اور کو ضرور بوبز دبوانے والی کلاس دے چکی تھی۔۔اسکا انگ انگ چیخ رہا تھا۔۔ میں نے اپنے کردار اور اپنی شکل کے مطابق ایسے تاثرات دیے جیسے مرغا پھڑکنے کو۔۔
اس نے مجھ سے پوچھا کہ ناصر سے تمہارا کیسا یارانہ ہے میں پاگل تھا جو بتاتا کچھ۔۔ میں نے کہا بس نارمل سا۔۔ اور کوئی ہے نہیں نا جو لاہور گھما سکے میں نے شطرنج کی بساط پر اگلی چال چلی ۔۔ پتہ میں رہا باہر ضرور لیکن سخت نظروں میں۔۔ یہ کچھ دن میں جینا چاہتا ۔۔ آ جا کر ناصر ہی ہے اسی ساتھ گھومتا رہتا۔۔اور ناصر تو بس گزارا ای ۔۔ ہاں یار اس نے میری توقع کے عین مطابق بولی۔۔اب کل سے اسکی اماں کا فون آ رہا کہ واپس آو مجھے بھی بلا رہی۔۔ لیکن یاار میں نے بے تکلفی سے کہا مجھے نہیں جانا شاہدرہ میری جان جاتی میں تھوڑا اوپن مائنڈڈ بندہ سا۔۔میرا تو ایک سوپر پروگرام تھا سارا ستیاناس ہوگیا۔۔کیسا پروگرام اس نے اشتیاق سے پوچھا۔۔ ایک تو لانگ ڈرائیو دوسرا شاپنگ اور اسکے بعد ایک ویک اینڈ کا بھی ہے جسسکا کل پتہ چلے گا۔۔ کل کیوں آج کیوں نہیں۔۔ بسسس یار کچھ کنفرمیشن رہتی میں نے اسے ادھورا چھوڑا ساتھ اگلی پلاننگ کے لیے کل تک کا وقت لیا۔کچھ دیر بعد ناصر کچھ اسنیکس وغیرہ لے آیا اور اسکے بعد ہم واپس اٹھ آئے۔۔ناصر میری ہدایت کے مطابق مجھے مکمل وقت دے رہا تھا۔۔تانیہ مجھ سے لندن کی باتیں پوچھتی رہی اور میں ادھر ادھر کی سنی پھینکتا رہا۔۔ اب ہم روڈ پر شانہ بشانہ چل رہے تھے ہمارے شانے آپس میں ٹکراتے اور وہ کوئی اعتراض یا فاصلہ کیے بنا ایسے ہی ٹکراتی رہی۔۔اسکا گھر روڈ کی دوسری طرف تھا۔۔اپنے گھر والی گلی کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے اسے باہر سے اپنا گھر دکھایا۔۔ اندر لیجانے کے لیے کچھ چیزیں ضروری تھیں ۔۔ گلی کے موڑ کےقریب ناصر واش روم کا نعرہ مارتے گھر کو بھاگا اور میں اسکے ساتھ رکا اور کہا۔۔آپسے ملکر بہت اچھا لگا ورنہ ناصر تو بس بور ہی کرتا ہے۔۔ ہاہاہا واقعی وہ نرا گھگھو گھوڑا ہے جب اس نے ایسا کہا میرے اندر تک جل گئی کہ یہ وقعت اسکے پیار اسکے خلوص کی۔۔ ساتھ ہی اس نے بے تکلفی سے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔۔ ہاتھ مارنے کے بعد میں نے ہولے سے اسکا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔ تعجب اس نے چھڑوایا بھی نہیں۔۔میں نے ہاتھ پکڑے بلکل معصومانہ انداز میں کہا۔۔ اگر آپکو برا نا لگے تو کل تھوڑا وقت نکالیں ۔۔میں کچھ آوٹنگ کرنا چاہتا لیکن سمجھ نہیں آتا کیا کروں تھوڑا مشورہ دے دیں گی پلیز میں نے التجا سی کی۔۔ہممم چلیں کوشش کروں گی اس نے ہونٹ دبا کر گویا اپنی طرف سے مجھے مار ہی ڈالا۔۔۔اسے گھر چھوڑ کر میں نے ناصر سے اگلا پلان کیا۔۔ہم یہ باتیں کرتے اپنی گلی کی نکڑ تک پہنچے تو شیشہ کیفے سائیڈ سے سارہ اور روزی برآمد ہوئیں ۔۔ آپسی ہیلو ہاے ہوئی ۔۔ میں نے کہا کدھر سے آرہیں آپ۔۔ وہیں سے جہاں آپ تھے کچھ دیر پہلے سارہ نے شوخی سےکہا ۔۔اوہ شیشہ سنٹر۔۔ دیکھا نہیں آپکو۔۔ جی جی کیسے دیکھتے وہ پھر بولی آپکے ساتھ تھی نا دیکھنے والی اس نے عجیب سے انداز سے کہا۔۔ نہیں وہ میرے ساتھ نہیں اسکے ساتھ تھی میں نے گولی دی ناصر میری طرف حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ استاد دو دو۔۔ میں نے نوٹ کیا تھا سارہ نے جیسے سنا وہ میرے نہیں ناصر کے ساتھ تھی اس کو تھوڑا اچھا سا لگا۔۔چلتے چلتے گھر کے سامنے آے ناصر دروازہ کھولنے لگا تو روزی میرے پاس آ کر ہلکے سے بولی تم رکنا ایک منٹ۔۔ اور خود سارہ سے کوئی بات کرنے لگی۔۔ میں نے ناصر کو اندر جانے کا کہا اور خود رک گیا۔۔ روزی کال سنٹر کےانداز میں صاف صاف بولی شائد تمہیں برا لگے لیکن اسلیے بتا رہی کہ تم شکل سے بھولے لگتے اور یہ تمہارے ساتھ والا لڑکا تو بچونگڑا ۔۔اس لڑکی سے بچ کر رہو یہ تمہارے ٹائپ کی نہیں ہے۔۔ کیا مطلب۔۔ اب مطلب بھی میں سمجھاوں اس نے تنک کر کہا۔۔اور واشگاف بولی۔۔ وہ سیمی کرپٹ ہے ۔۔ ایک حد تک کلوز ہوتی اور سنبھال بھی رکھا۔۔ بڑے بدھو لوٹے اس نے۔۔ اسکی باتوں نے میرے اندازے پر مہر لگائی۔۔ باقی تمہاری مرضی ہے۔۔ میں آزادی کی قائل ہوں۔۔ اور بیسٹ وشز کہتے اندر چلی گئی
جب میں واپس لاونج پہنچا تو نو بجنےوالے تھے۔۔ کچھ دیر ناصر سے اگلا پلان کیا کچھ عمبرین کی باتیں کچھ اسکی دس بجنے کے قریب میں اٹھااور اسے کہا وہ لاونج میں بستر وغیرہ سیٹ کرے میں آتا۔۔ اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ اوپر آ گیا۔۔ کمرہ کھولا ۔۔ وہی کمرہ جہاں آج میں مالا مال ہوا تھا۔۔ ابھی تک کمرے میں گویا انکی مہک تھی۔۔سوا دس کے قریب بیل بجی۔۔ بیل بجی شادیانے بجے میں نے بے تابی سے ہیلو کیا۔۔ کیسے ہو انکی سرگوشی گونجی ۔۔آج انکی سرگوشی میں ہلکی سی شرماہٹ غالب تھی۔۔کچھ دیربعد وہ ہی رضائی نیم اندھیرا۔۔ وہ دائیں کروٹ میں بائیں کروٹ۔۔میں نے لہر میں بہتے ہوے کہا رانی سرکار۔۔ پتہ آپ کمال ہیں کمال ۔۔ آپکی خوشبو آپکا سحر مجھے ۔۔ وہ شرما کر بولیں ایویں ای ۔۔ انکی اس ایویں ای نے مجھے اور دیوانہ کیا اور میں بولا سرکار آج جب آپ میرےشانےپر سررکھے بیٹھیں تھی نا میرا دل کیا کہ آپکو بازووں میں بھر لوں۔۔ ہاے اللہ توبہ کر نعیم انہوں نے گھبرا کر کہا۔۔ لو آپ میری سرکار ہیں رانی ہیں ہم آپکے چاکر۔۔ نااا تم چاکر نہیں تم شہزادے ہو پتہ کیسے۔۔ انہوں نے میرے ہی انداز میں کہا۔۔ کیسے ۔۔ وہ شہزادہ جو سوئے ہوئے محل کی شہزادی کو جگا دے۔۔ تم تو شہزادے ہو ۔۔وہ شہزادے جسکے ہاتھوں میں امید کا پھول۔ آج میرے والدین کےسامنے جب تم بات کر رہے تھے نا تمہارا لہجہ انداز آنسو سب مجھے جیسے نرم کر گئے ۔۔ تم چاکر نہیں ہو۔۔۔ اففف میں شوخی سے بولا اتنی پیاری بات کی آپ نےکہ ۔۔ کہ وہ بولیں۔۔ کہ آپکے ہونٹ چوم لوں میں نے وارفتگی سے کہا۔ ہاے اللہ انکی قاتل آواز نکلی ۔۔ ایسے نا کہا کرو شہزادے۔۔ میں اس قابل نہیں میں مسلی برتی ہوئی انکی آواز گویا سسکیں۔۔۔نااااا۔۔۔ آپ شہزادے کی ملکہ ۔ملکہ جو شادی شدہ ہو کر بھی ملکہ ہے جسکی آن ہے شان ہے ہممم انہوں نے ہنکارا بھرا۔۔ اچھا تو پھر چوم لوں ۔۔ میں کون سا بات بھولا تھا۔۔ افففف تم بھی نا بلکل بھی نہیں۔۔ ملکہ ایسے تھوڑی نوازتی انہوں نےجوابی شوخی اپنائی ۔۔تو کیسے نوازتی ۔۔ ملکہ جب اسکا دل ہوتا تب نوازتی انہوں نےمجھے انتظار کی سولی پر چڑھا دیا۔کافی دیر ہم سرگوشیاں کرتے بے نام اظہار کرتے رہے۔اگلی صبح کالج جاکر پیریڈز لیے۔۔ساری کلاس کا میں ہیرو بن چکا تھا یہ بیلا کا کارنامہ تھا بقول اسکے میں کالج کے علاوہ اسپیشلی ہماری کلاس کےنمائندہ ہو۔۔ آف ٹائم کےبعد میں آدھی کلاس کے گھیرے میں گراونڈ پہنچا ۔۔اور سب کے اصرار پر راونڈ لگایا پورے میدان کا۔۔ بیلا تو تھی ہی اعتراض کی بچی لیکن باقی لوگوں نے کافی سراہا۔۔اسکے بعد بیلا اور میں ایڈمن آفس چلے گئے ۔۔ میڈم کا چہرہ واقعی کافی سنجیدہ تھا وہ اسوقت آفس کے فون پر کسی سے بات کر رہی تھیں اور انکے چہرے پر کبھی کبھی تشویش دوڑ جاتی۔۔ فون رکھنے کے بعد وہ چپ ماتھے کو ہلکا سا مسلیں ۔۔ بیلا انکی سہیلی کی طرح انکے پاس گئی اور بہت خلوص سے انکے سر کو سہلانے لگیں۔۔ انہیں بھی شائد بیلا کیصورت میں ایک سہارا سا مل گیا تھا ایسا سہارا جو ہم جنس بھی ہو اسکے گھرانے سے سابقہ شناسائی بھی ہو اور اخلاص بھی ۔۔ اور میں تو تھا ہی غنہ ساتھ ساتھ۔۔انکی باتوں سے پتہ چلا کہ انکے بھتیجےکا دوسری برادری کی لڑکی سے کچھ افئیرتھا ۔۔ جانے کیسےچلا پتہ نہیں۔۔ بس اچانک ایکدن یہ جہلم کسی جگہ اکھٹے دیکھ لیے گئے۔۔ جہلم چکوال کےساتھ دوسرا ضلع ہے انہوں نے بتایا۔۔وہ لوگ بہت غصے میں ہیں۔۔ ویسے بھی بہت ہی اوچھے بندے ہیں اس نے گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال لیا۔۔ انہیں ڈر تھا کہ جوابی اب انکے گھر کی کسی عورت کو نا ہاتھ ڈالیں جس میں وہ خود بھی تھیں۔۔ اکیلی باہر ۔۔وہ کچھد دن کےلیے واپس جانا چاہتیں تھیں اور ادھر والے چاہتے تھے کہ ان حالات میں وہ نا آئے۔۔۔وہ کافی ڈپریسڈ تھیں۔۔ سردبا دوں آپکا بیلا نے پوچھا۔۔ درد تو بہت کر رہا لیکن آفس ہے گڑیا انہوں نے پیارسے بیلا کو پچکارا۔۔تو چلیں اٹھیں آپ ۔۔ ویسے بھی جمعہ ہے سب جا ہی چکے ۔۔ گھر جا کر آپکو چائے بنا کر دیتی اور سر بھی سہلا دیتی ۔۔ اور بیلا منا تو لیتی ہی تھی۔۔ میڈم نے پرس اٹھایا اور دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔ بیلا نے مجھے آنکھ ماری اور فالو کا کہا۔۔وہ دونوں مگن آگے آگے۔۔ میں انہیں پرائیویسی دیتے تھوڑا فاصلہ رکھا۔۔جب میں انکے تعاقب میں اندر گیا تب میڈم کمرے میں جا چکی تھیں اور بیلا ان سے کہ رہی تھی آپ لیٹیں میں آتی چائے لیکر۔۔ اورمجھے چپ رہنے کا اشارہ کرتے کچن کو بلایا۔۔ چائے بناتے بولی یار میڈم بہت پریشان اور ڈپریسڈ شائد تمہارے سامنے نا کھلیں تم ذرا سائیڈےرہنا۔۔ مجھے ویسے بھی ضرورت نہیں تھی الٹا میں نے اس سے اجازت چاہی کہ میں چلا جاوں لیکن کہاں ملنی تھی۔۔ وہ چائے کا کپ مجھے دیے دو کپ لیکر اندر چلی گئی۔۔ اور میں ادھر ادھر کی باتیں سوچتا چائے پیتا رہا۔۔ان دونوں کی ہلکی ہلکی آوازیں آتیں تھیں لیکن غیر مبہم۔۔کافی دیرگزر گئی ۔۔ میں بور ہونےلگا اور اٹھ کر سامنے شیلف میں پڑی کتابیں دیکھنے لگا کمال کولیکشن تھی انکی بھی۔۔یونہی چلتا ہوا میں میڈم کےکمرے کے قریب سے گزرتا ہوا دوسری طرف بیک لان کو چلا گیا۔۔یہ میڈم کے کمرے کی پچھلی طرف بن گئی۔۔پچھلی سائیڈ والی کھڑکی کھلی تھی ۔۔ کھڑکی کے اندر جالی لگی ہوئی تھے اور پردے کسی حد تک گرے ہوئے تھے۔۔میری بدقسمتی یا خوش قسمتی میری نظر ہلکے سرکے پردے میں کمرے کا منظر نظر آیا۔۔ میڈم الٹی لیٹیں ہوئی تھیں۔۔ انکا چہرہ میری طرف ہی تھا لیکن آنکھیں بند تھیں۔۔ انکے ایک طرف میری بیلا پروفیشنل طریقے سےانکے سر سے کمر تک اور پھر ٹانگوں کو دبا رہی تھیں اور ساتھ انکا چہرہ ریلیکس تھا۔۔بیلا کے ہاتھ انکے شولڈر پر تھے اور وہ سافٹ مساج کر رہی تھی انکے شانوں کو کمر کو دباتےہوئے۔۔ میری نظر میڈم کے چہرےپر تھی ۔۔ انکے چہرےپرکچھ عجیب سے تاثر تھے ۔ کیسے تاثر مجھے اسوقت سمجھ نا آئے لیکن ان میں ایک پراسراریت سی تھی۔۔ میں وہاں سے ہٹا اور واپس اسی بارے سوچتا رہا بیلا بلکل عام سے انداز میں تھی لیکن کچھ تھا جو میڈم میں الگ تھا۔۔ خدا خدا کر کے بیلا نکلی اور بولی میڈم سو گئیں ۔۔ بہت سٹریس تھیں۔۔چلو نکلو اب۔۔۔
گھر آ کر کھانے کے بعد ہم دونوں کچھ دیر سستانے بیٹھے اسی بیسمنٹ میں انہی کرسیوں پر۔۔ وہ مجھے اپنی فیملی پکچر دکھانےلگی۔۔ اور کہنے لگی پتہ نہیں میں کس پر چلی گئی میں نے کہا کیا مطلب کہتی دیکھو میری بہن کیسے لڑکیوں والی پرسنیلٹی۔۔ پہلے مجھے فیل نہیں ہوتا تھا اب ہوتا ہے۔۔ میں نے مسکرا کر کہا یار تم میرےلیےسب سے سوپر ہو بس اب اداس نا ہونا پلیز۔۔پانچ کے بعد میں گھر پہنچا تو ناصر میرا ہی منتظر تھا کہتا پائی دو خبریں ہیں ایک اچھی دوسری بری کونسی پہلے سناوں۔۔ میں نےکہا بری پہلے سنا دو۔۔وہ بولا بری یہ کہ انکل کا شوگر لیول ہائی ہو گیا ہے وہ ہاسپٹل ہیں ۔۔ اوہ اور اچھی۔۔ اچھی یہ کہ آپ اپنےپلان میں بلکل فٹ جا رہے۔۔ تانیہ آج ملی تو آپکا پوچھتی رہی۔۔۔اب کیا کرنا۔۔ میرا دل کیا اسکا سر توڑ دوں۔۔ میں نے کہا اب اسپتال مرنا ہے اور کیا کرنا ہے چلو۔۔انکل کی عیادت کے ساتھ عین ممکن عمبرین کا دیدار بھی ہو جائے۔۔بس یہ بات دلکش تھی۔۔۔ہم وہاں سے سیدھا اسپتال آئے۔۔انکل کے پاس صرف آنٹی اور عمبرین ہی تھیں ناصر انکو چھوڑکر مجھے بتانےآیا تھا۔۔ آنٹی تو مجھے دیکھ کر جیسے کھل اٹھیں اور لپک کر میرےساتھ لگتے ہوئے بولی دیکھو نا کیسی پریشانی آ گئی۔۔عمبرین نےایک ادا سے مجھے دیکھا اور قاتل نگاہوں سے مجھےسلام کیا اور ظاہرا سنجیدگی سے بولیں کیسےہونعیم ۔۔میں نے بھی بلکل ویسے ہی جواب دیا۔۔کچھ دیر بعد ناصر کے ابا اور اماں بھی آ گئیں۔۔میں نے محسوس کیا جب سے میں آیا تھا آنٹی کچھ دیر سوچتی رہیں اور پھر کچھ بعد ناصرسے بولیں وے پترا جا میرے لیے کچھ پینے کو لے آ ۔۔ دل گھبرا رہا میرا اوئے ہوئے اسپتال میں دم گھٹتا میرا۔۔ ناصر کی اماں کی ہویا آپا کہتیں انکےپاس گئیں ۔۔۔کچھ دیربعد وہ نکلنے لگے تو آنٹی نےکہا عمبرین پترتم انکے ساتھ چلی جاو جوان لڑکی راتیں اسپتال نہیں رکتیں ہم تینوں ہیں نا ۔۔کوئی ایک رک جاے گا میں نے بے بسی سے عمبرین کی طرف دیکھا تو انہوں نے چپکے سے میرا شرارتی مسکراہٹ پھینکی۔۔پرائیویٹ کمرہ سامنے بسترپر انکل انسولین لگوائے بےسدھ تھے اور ہم تین۔۔اچانک آنٹی بولیں مجھے تو بھوک لگی جا ناصر کچھ لیکر آ ۔۔ آنٹی نے اسے پیسے پکڑائے۔۔ جیسے ہی ناصر نکلا آنٹی اٹھ کر انکل کے قریب گئیں اور انہیں دیکھ کر میری طرف پلٹیں اور بولیں اب جو میں نے کہا وہ ہی کرنا ہے میرا دل مچلا ۔کچھ ہونے کو تھا۔تمہاری استانی کا حکم ہے یہ جیسے ہی انہوں نے استانی کہا انکے اصلی شاگرد یعنی میرےلن میں بیداری پیدا ہوئی۔اور وہ مجھےاپنا منصوبہ سمجھانےلگیں۔۔۔ نو بجے کے آس پاس انکے پلان کے مطابق وہ اپنی گھبراہٹ سے ناصر کو قائل کر چکیں تھیں کہ وہ قربانی کا بکرا از خود تیارہوا۔۔کہ خالہ آپ جاو پائی نے بھی صبح کالج جانا ۔۔ میں رکتا ۔اور آنٹی اپنے شاگرد کو کان بلکہ لن سے پکڑ کر اپنے گھر لے آئیں ۔۔ جانے گھر تک کیسے انہوں نے صبر کیا جیسے ہی دروازہ بند ہوا وہ بھوکی بلی کی طرح جھپٹیں کمینے شاگرد ۔۔ پلٹ کر پوچھا بھی نہیں۔۔انکے ارادوں کاتو مجھے وہیں استانی کے حکم سےہوگیا تھا۔۔ اور تب سے میرے اندر ترنگ جاگ چکی تھی۔۔ میں انہیں جوابی جھپٹا اور کہا واہ مری کلاسیں انکل کو دیتیں رہیں اور مجھے شکوہ وہ ہنسیں اور کہا کیسی کلاسیں ۔۔مجھے بھی ترسا ترسا مار دیا خود بھی شوگر بڑھا بیٹھے۔۔ بتایا نا پنگا بھی لیتے اور ادھورا بھی چھوڑتے وہ کھینچے کھینچےکمرے میں لے آئیں ۔۔اور بیڈ پر میرے ساتھ گرتے ہوئے بولیں بہہت اداسی بہت پیاس ۔۔ جب سے تم ملے نا اب برداشت نہیں ہوتی۔۔ پہلے صبر کرلیاتھا۔۔ ساتھ وہ ہاتھ سے میرےلن کو رگڑنے لگیں۔۔ اففف انکی ہتھیلی کی رگڑ نے لن کی تباہی بولا دی۔۔ وہ ایک لگن سے ہتھیلی پھیر رہیں تھیں۔۔ لن استانی کےاحترام میں راڈ ہو چکا تھا۔۔میں نےایک ٹانگ ان پر چڑھائی اور دوسرےہاتھ سے انکی چادر کو ہٹاتےہوئے انکے سینے اور بڑے بڑے بوبز کو چوسنے لگا وہ مستیں سے کراہیں بھرنےلگیں اور میری ٹانگ کے نیچے سے ہی اپنی پھدی کو لن سے رگڑنے لگیں ۔۔ افففف انکی پھدی گویا تندور۔۔ وہ واقعی جوبن پر تھیں۔لن کی رگڑ سے انکی شلوار کچھ دیر میں کافی گیلی ہو گئی۔۔ وہ مجھےاوپر کھینچ رہیں تھیں ۔۔ انکی آنکھیں بند تھیں اور چہرے ر عجیب سی چمک تھیں عجیب سی پیاس۔۔ یکدم میرے ذہن میں چمک پیدا ہوئی بلکل ایسے تاثرات تھے میڈم کے ۔ اور یہ تاثرات میں رابعہ کے چہرے پر دیکھے تھے یعنی وہ دوسری رابعہ تھیں ۔۔ بنگالی ساحرہ کا یہ رنگ مجھے چونکا گیا۔۔ میں جھکا اور انکے تپتے گالوں کو چاٹا ۔۔ اففف وہ کانپیں میں نے سرگوشی کی۔۔ آج آپکا چہرہ بہت تپا ہوا اور عجیب سا چمک رہا ۔۔ استانی جی یہ کیسے رنگ۔۔ وہ سسک کر بولیں لن کی پیاس کا رنگ۔ جب انتہائی گرم دنوں میں عورت کو چھوا جاے تو یہ چمک ہوتی بدھو۔۔ ساری گھتیاں سلجھ چکی تھیں باقی سلجھانے کےلیے کل کا دن کافی تھا۔۔ میں نے وحشت سے انکی گردن کو چاٹااور کہا اگر ان دنوں میں کسی عورت کو چھوا جاےتو۔۔ تو جسے بھس میں آگ ۔۔ سمجھو بس چھونے کی دیر اور عورت کسی تھان کی طرح کھل جائے۔۔۔ اففففف میرے اندر کی وحشت کو اور شکار ملا۔۔ بنگالی ساحرہ کا سحر آنٹی نے مجھے نیچےلٹایامیری ٹانگوں پر بیٹھیں اور میری شرٹ کو کھول کر میرےسینے کو بے تابانہ چاٹنےلگیں اور لن کو ہاتھ میں لیکر دبانے لگیں اور نالہ کھول کر لن کو باہر نکالا ۔۔ انکی آنکھوں میں انوکھی چمک تھی ۔۔ لن فل جوبن پر ۔ رہی سہی کسر انکے ہاتھوں کے لمس نے کر دی۔۔انہوں نے اپنی قمیض اتاری اور برا بھی کھول دی۔۔ افففف انکے چالیس نمبر بڑے بڑے دودھ لٹک رہے تھے موٹے نپلز اکڑ کے میرےسینے سے ٹکرا رہے تھے وہ بوبز کو میرے جسم پر پھیرتیں لن تک لائیں اور لن کو بوبز میں دباکر لن کا مساج کرنے لگیں۔۔ میں جیسے تڑپ اٹھا یہ انداز نیا تھا۔۔ لن ان کے بوبز میں دبا اففف انکا گداز اور نرمگیں۔۔میرا لن پاگل ہو چکا تھا۔۔ میں انکو نیچےلایا۔۔اور بےتابی سےہونٹ چوستا انکی شلوار کو اتار دیا۔ انکی موٹی رانیں مجھے اکسا رہی تھیں۔۔ میں انکے درمیاں گیا اور انہون نے قینچی مار لی۔۔ اور کہا ۔۔سیٹ کر کے اکو دھکا مار ۔۔ یکدم ہااااے
میں نےایسےہی کیا انہوں نے قینچی کو جکڑا جیسے میں نے لن کو پھدی پر سیٹ کیا۔ انہوں نے پاوں سے میری کمر کو سہلایا گویا گھوڑے کو ایڑ لگائی ۔۔ ٹوپہ لبوں کو کھولتا اندر دھنسا۔۔ پھدی پانی پانی تھی۔۔ گھوڑا پھسلا اور پورے زور سے تباہی مچاتا اندر تک گھس گیا۔۔ شکر ہے گھر مکمل خالی تھا انکی ایک تیز کراہ نکلی ہاے مر گئی ۔۔اففففف میں نے ہلکا باہر نکالا اورپھر دھکا مارا۔۔ اب رحم کی گنجائش نہیں تھی۔۔ وہ جتنا چیختیں اتنی زور سے قینچی کو سخت کرتی اور پاوں سے کمر کو رگڑتیں۔۔ اور ہاااے کرتیں میں کھینچتا اور مارتا۔وہ اچھلتیں ۔۔ ہاااے ایسے ہی ہاااے مزہ آ گیا۔۔ پورا کڈھ کے پا۔۔ اور میں ایسےہی کرتا۔۔ دونوں شدید شدت میں تھے منزل قریب تھی ۔ انکی اسی ہلاشیری میں انکی پھدی سکڑنا شروع ہوئ انہوں نے اور کسا۔۔ میں نے لن کو ہلکا گھمانا شروع کیا وہ سسکیں اور بلند کراہوں سے چھوٹنے لگیں میں نے اور سپیڈ کی میں بھی بس نڈھال تھا ۔ دو چار طوفانی جھٹکوں کے ساتھ میں بھی چھوٹنا شروع ہو گیا۔۔
طوفان تھم چکا تھا۔۔ ہمارا حال کسی ایسے تھا جیسے سمندری طوفان سے سے ساحل پر آ گریں۔۔ایک مستی والی تھکن۔۔ دونوں ہانپ چکے تھے۔۔ آہستہ آہستہ انہوں نے میرے گرد قینچی نرم کی اور انکی نرم ٹانگیں جسم سے رگڑ کھاتیں سیدھی ہو گئیں۔۔ گھوڑا منزل تک پہنچ کر اب آرام میں تھا۔۔ اسکی اکڑاہٹ ختم ہو چکی تھی ۔۔وہ سواری کی گرفت کمزور پڑتے ہی باہر نکلا اور میں انکے اوپر سے ڈھلکتا ہوا انکے ساتھ لیٹ گیا۔۔ انکی تیز سانسیں ۔ آنکھیں بند اور ہلکا ہلکا لرزتا جسم ۔۔میں انکے ساتھ لگا۔۔وہ سرمستی سے میری کمر کو آہستگی سے سہلانے لگیں ۔۔ جیسےپیار سے پچکارتے گھوڑےکو۔۔۔ انکے اس سہلانے میں پیار تھا داد تھی کہ تم بہت مزے سے منزل تک لائے۔۔ میں اٹھا۔۔شلوار پہنی وہ ویسے ہی مست پڑی رہیں آج پہلی بار وہ فورا نا اٹھیں۔۔
آنٹی کاجسم اب بھی کمال تھا بے شک قدرے گولومولو تھا۔۔۔ انکی جوانی کا سوچ کر مجھے پسینہ آ گیا سچی انکل کی بینڈ بجی۔۔میں آرام سے دروازہ کھول کر باہر نکلا واش روم جا کر لن کو دھویا اور بالوں اور چہرے پر گیلا ہاتھ پھیر کر کچن گیا پانی لیا اور واپس کمرے میں۔۔ وہ اب رضائی اوپر کھینچ کر قدرے آرام سے لیٹیں تھیں۔۔میں انکےپاس بیٹھا آرام سے کہا پانی کا گھونٹ بھر لیں استانی جی۔۔ وہ میرے ساتھ لگ کر بیٹھیں اور بےتابی سے دو چار گھونٹ بھرے۔پانی کے کچھ قطرے انکی ٹھوڑی سے گردن تک پھسلے ۔۔ میں انہیں آج کسی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔لبوں نے اس قطرے کا تعاقب کیا اور گردن ہول کے پاس جا کر چوس لیا۔۔ اففف وہ سسک اٹھیں اور مستی سے بولیں تم بہت سخت ہو گئے ہو ۔۔اصلی کے مرد بن گئے تم اب۔۔ مرے ہونہار شاگرد۔۔ ایسا شاگرد جیسے کسی میٹرک کی کلاس کے ٹیچر کا محنتی سٹوڈنٹ ایم اے کر کے استاد سے کچھ زیادہ ہو جاے۔۔ جیسے کسی پرانے پہلوان کا نیا نیا پٹھا جو مزید داو خود سے بنائے۔۔۔عمبرین والے معاملےمیں مجھے انکی بھی ضرورت تھی اسلیے ان سے زیادہ قربت ضروری تھی ۔۔ انکی کمزوری بن جاو۔۔وہ اٹھیں اور بیڈ سے اتریں۔۔ اففف انکی موٹی تھرکتی گانڈ اور موٹی رانیں تھرا رہیں تھیں۔۔ وہ باہر نکلیں اور میں نے شلوار کو پھر سے اتار کر رضائی کندھوں تک اوڑھ لی۔۔واپسی پر انکےہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا۔۔
میں نے مصنوعی سہم کر کہا نا میں یہ دودھ نہیں پینا پھر کچھ ملا دیا ہونا آپ نے وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بولیں میری توبہ بھئی بنا دوائی ہی بینڈ بجا دی ۔۔۔ میں ہنس پڑا اور کہا آج میرا دل ہے لمبے میچ کا تو آپ بھاگ رہی
پہلے ٹی ٹونٹی تھا اب ٹسٹ میچ ۔۔ میری شوخی پر وہ صدقے واری ہوئیں اور لاڈ سے بولیں ہاے ہاے جو کرنا کر میں تجھے آج استانی والا تھاپڑا مار دیا۔۔ تم پاس ہو ۔۔ بس تمہاری کلاس ختم سمجھو بس اب کچھ لاڈ کرنے تھوڑے سے۔۔ ہیں میں نے مصنوعی حیرت سے کہا کلاس ختم مطلب اب کچھ نہیں کرنا کیا۔۔وہ ہنسیں اور کہا کرنا کیوں نہیں ۔۔ تم سے ہی تو کرنا اب بس۔۔ استانی کا سبق ختم بس اب تم میرے سویٹ سہیلے ہو ہم دونوں کھکھلا کر ہنسے۔۔اور بولیں اب بس تمہیں اپنی خوشی سے اپنے من سے تھوڑا مزیدار پیار کرنا۔۔ وہ دودھ کا خالی گلاس پکڑ کر میز پر رکھتے ہوئے بولیں۔۔اور میرےساتھ لیٹ کر اپنی نرم ٹانگ میری ٹانگ پر رکھ کر بوبز کو سینے سے لگا کر مجھے لاڈ سے دیکھنے لگیں۔۔ ہاااے نعیم بڑا سیکسی منڈا ہو گیا تو۔۔ جس کےساتھ تیری شادی ہو گی نا اسکا شروع میں حشر ہوجانا وہ کمینی ہنسی ہنسیں۔۔ میں نےکہا کیوں۔۔ بولیں اتنا وڈا لن ہوگیا تیرا اور اب تو تیرے دھکے تیرا انداز اندر تک جاکر لگتا۔۔ سواد آ جاتا۔۔۔
کچھ دیر بعد انکےبدن کالمس پھر سے مجھے مست کرنے لگا۔میں انکے ساتھ ہلکاہلکا جسم رگڑنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد آنٹی دوبارہ گرم ہوچکی تھیں۔۔میرےہاتھ انکی موٹی گانڈ کو دبا رہے تھے اور لن تقریبا اٹھ کر انکی ٹانگوں میں پھنسا ہوا تھا۔۔ میں ایسے ہی آگے پیچھے ہلتا رہا۔۔ انکی رانوں کے دباو سے لن اکڑ چکا تھا۔میں اٹھا اور اسبار انکی نقل کرتےہوئے لن کی ٹوپی کو انکے جسم پر گھمانے لگا۔۔ افففف جیسے جیسے ٹوپی پھرتی وہ اور گرم ہوتیں۔۔ فل گرم کر کے میں اٹھا اور انکا ہاتھ پکڑ کر انہیں لیتا ہوا صوفے تک لایا۔۔اور صوفے کی ہتھی پر انکے ہاتھ رکھوا کر انہیں گھوڑی بنایا۔۔ ٹانگوں کو تھوڑا سا کھلوا کر ۔۔ انکی گانڈ بلکل اوپر کو ابھری تھی میں پیار سے انکے چوتڑوں کو ہاتھ سے دباتا اور مسلتا اور وہ مممم ممم کرتی گانڈ کو مٹکاتیں۔۔ اسبار میرا ارادہ گھوڑی پر سواری کا تھا۔۔ میں نے ایک ہاتھ سے انکے شانے کو پکڑا ۔ لن کو پھدی پر جمایا اور دوسرے ہاتھ سے انکے چوتڑ پر نرم سا طمانچہ مارا۔۔ ہااااے سسسسی ظالما وہ سسکیں ۔۔انکی پھدی پھر سے گیلی ہو چکی تھی ۔۔میں نے شانے اور کمر کوپکڑ کر ہلکا سا دباو ڈالا۔ ٹوپہ جانے پہچانے راستے پر پھسلتا اندر گھسا۔۔افففف ہاااے انہوں نے گردن موڑ کر مجھے دیکھا اور کہا تیرے لن کا سب سے اہم کمال یہ پھولا ٹوپا ہے افففف کھولتا جاتا سب کچھ۔۔میں نے ہلکا سا پریشر بڑھایا۔۔ اور لن آدھے سے کچھ پیچھے تک گھسا۔۔ میں رکا اور انکی کمر کو پکڑ کر ہلکا ہلکا ہلنا شروع کیا جیسے ڈرلنگ ہو۔۔ انکی مست آہیں کراہیں کمرے کو سیکسی بنا رہیں تھیں۔۔ ہلکا ہلکا آگے پیچھے کرتا میں نے اچانک گھوڑی کو ایڑ لگائی اور ٹوپہ سب کھولتا اندر تک۔۔۔ میں پورے وزن سے انکے ساتھ لگا۔۔ وہ ہااااے مر گئی اج کہتی صوفہ پر گریں میں نے ویسے ہی لن کو کھینچا اور پھر اندر کیا۔ وہ اٹھیں پھر گریں۔۔ اندر تک جا کر لن ہلکا سا پھر گھمایا۔۔ موٹے ٹوپے نے وحشت سے پھدی کی دیواروں کو رگڑا۔۔ ہااااے افففففف ۔۔۔ اففف کرتی وہ سسکیاں بھر رہیں تھیں۔۔میں نے انہیں ایسا چودا ایسا چودا کہ انکا انجر پنجر ڈھیلا کر دیا ۔۔وہ میرےدھکے سے لپک کر آگے جاتیں اور پھر واپسی میرے کھینچنے سے میرےساتھ لگتیں۔۔ انکی ہاےواے انکی سسکیاں۔۔ انکی کراہیں اور میری دھکے ۔۔۔ وہ جانے کتنی بار چھوٹیں مجھے کچھ علم نہیں میں تو بس جنگلی گھوڑا بنا ہوا تھا انکی ٹانگیں کانپ رہیں تھیں میں انہیں وہیں سیدھا کیا صوفہ سیٹا پر اور انکی ٹانگوں کو کندھوں پر رکھ لیا انکی پھدی بلکل نیچے تھی اور اوپر سے میری پمپنگ نے انکے سارے کس بل نکال دیے تھے۔۔وہ کچھ بول رہیں تھیں کچھ رکنے کا یا وقفے کالیکن میرا اینڈ یونے کو تھامیں نے تب تک دھکے جاری رکھے جب تک میرا گھوڑا انکی پھدی میں ڈسچارج نا ہوا۔۔ آج کی چدائی نے انکی ساری مستی نکال دی تھے۔۔ کچھ دیر وہ روہانسی اٹھیں اور پھدی کو ہاتھ سے دباتے باہر کو بھاگیں۔۔ میں فاتحانہ انداز اورکمینی خوشی سے بیڈ پر گرا اور جاے کب سو گیا
اگلی صبح انہوں نے مجھے جگایا اورکہا اٹھ جاو سوہنیا عمبرین آنے والی ہو گی۔۔ ناشتے کے بعد میں انکے ساتھ اسپتال گیا اور وہاں سے کالج ۔۔ امید تھی آج انکل اسپتال سے گھر شفٹ ہوجاتے۔۔میں نے جاتے ہوئے شرارتی انداز میں آنٹی سےکہا۔۔ آج ویک اینڈ ہے توکلاس دینی پھر۔۔ انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہا جی نہیں میری ابھی تک درد کر رہی کمینہ منڈا انکے غصے میں بھی لاڈ تھا۔۔کالج سے واپسی کے بعد میں اور بیلا میڈم سے ملنےگئےمیڈم قدرے ریلیکس تھیں۔۔ بیلا نے میڈم کو ویک اینڈ گزارنے کےلیے اپنےگھر آنے کی دعوت دی میڈم نے بہتیرا انکار کیا لیکن بیلا نے انہیں رام کر ہی لیا اور طئےپایا کہ وہ شام کوآ جائیں گی۔۔وہاں سے واپسی پر ہم جا رہے تھے جب اچانک بیلا چونکی ۔۔۔اس نےویسپا روکا اور اور سڑک کے دوسرےکنارے چلتے لڑکا اور لڑکی کو دیکھا۔۔ لڑکا کافی لمبا چوڑا تھا ورزشی مضبوط جسم اسکےساتھ لڑکی اسکا بازو تھامے چل رہی تھی۔۔ لڑکی کا چہرہ بازو کے عقب میں تھا۔۔ میں نے کہاکیا ہوا کہتی وہ دیکھو وہ کاشف ہے ۔۔ کاشف چیتا۔۔۔ اور اسکے ساتھ۔۔ میں نے پوچھا۔۔ پتہ نہیں ہوگی کوئی گرل فرینڈ اسکی ۔۔ ایسا ہی ہے لچا سا۔۔ کہتے اس نے ویسپا آگے بڑھا دیا۔۔بیلا کی توجہ اب سڑک پر تھی اور۔میری ان دونوں پر ۔۔ عین اسی لمحے لڑکی نے کاشف کو سامنے شوکیس میں سجی کسی چیز کی طرف اشارہ کیا اسکا چہرہ ذرا دیر کو واضح ہوا ۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔ وہ روزی تھی۔۔ بیلا کا ویسا سگنل پر تھا اسکی نظر سگنل پر اور میری نظر ان پر تھی
وہ کسی بات پر اس سے بحث کررہی تھی اور نظر آ رہا تھا کہ کاشف اسکی بات سے انکاری آگے بڑھتا جا رہا تھا اسکے منہ پر دور سے مایوسی نمایاں تھی۔۔میں نے روزی والی بات دل میں ہی رکھی میں بہانے سے فردوس مارکیٹ اترا اور اسے کہا تم چلو میں تھوڑی دیر تک آتا اور تیز قدموں سے اپنے گھر کو چلا۔۔ گھر کے سامنے رک کر میں نے ایک لمحہ سوچا اور سامنے والے گھر کی اوپری منزل کی بیل بجا دی۔۔ کچھ دیر بعد اوپرسے سارہ نے جھانکا
میں نے ہیلو ہاے کے بعد روزی کاپوچھا وہ چمک کر بولی ہمیں بتا لیں جی۔۔ میں نے اسی ٹون میں کہا کہ جناب آپ دونوں کو ہی بتانا ہے وہ رکنے کا اشارہ کر کے نیچے آئی اور بولی جی جناب۔۔ میں نے کہا کل روزی جی نے اچھا مشورہ دیا تھا انکا تھینکس بولنے کے لیے آیا تھا اور آپ دونوں کو اگر برا نا لگے تو کسی دن ملکر چلتے شیشہ ہاوس ۔۔وہ بولی ڈن ہو گیا روزی تو شائد نا آئے اتنی جلدی اسکا بوائے فرینڈ آیا ہوا ہے سارہ نے ہلکی سرگوشی کی ۔۔ اوہ واہ جی۔۔ چلیں آئی تو دونوں سو کر بتانا مجھے ۔۔ میں مڑنےلگا تو وہ بولی ویسے یہ دعوت ہم دونوں کو ہے یا اکیلے بھی جا سکتے ہم ۔۔ مجھےتھوڑا جھٹکا لگا لیکن سنبھل کر بولا میں تو کہنے لگا تھا لیکن لگا آپ مائنڈ نا کر جاو میں نے بھولے منہ سےکہا۔۔ وہ ہنس کر بولی لو ہم ہمسائے ہیں اور دوست بھی تو مائنڈ کیسا۔۔ اچھا جی میں قدرے شوخی سے بولا اور کہا فرینڈز اور ہاتھ آگے بڑھایا۔۔ اففف اسکا ہاتھ کسقدر نازک تھا ۔۔۔ خالص برگر بچی۔۔ کچھد دیر ہیلو ہاے کے بعد ہم اپنے اپنے گھر چلے گئے ۔ اندر جاتے ہوئے وہ مڑی اور ایک سویٹ سمائل دیکر بھاگتی اوپر چلی گئی۔۔میں اندر پہنچا تو حیران رہ گیا ناصر میری امیدوں سے بھی بہتر کارکردگی دکھا رہا تھا۔۔ لاونج صاف ستھرا چمک رہا تھا۔۔ سامنے اس زمانے میں امارت کی نشانی سونی کی ایل سی ڈی جو وہ اپنے کسی دوست سے ادھار مانگ کر لایا تھا ۔۔۔میں نےاسے گڈ کا اشارہ کیا تو وہ بولا ۔گرو جی نئےماڈل کی ہیوی بائیک کا اس نے بتایا شام تک آ جاےگی۔۔ یہ سب جال تھا ۔۔ فراڈن یعنی تانیہ کے لیے۔۔گرو جی وہ آئے گی تو نا۔۔۔ اسکے اندر مجھ سے زیادہ جلدی تھی۔۔۔امید تو ہے ۔۔ ابتک اسے ایکبار کنفرم کرنے آنا چاہیےتھا۔۔جو سسپنس اسکے اندر میں جگا چکا تھا اسےآنا تھا۔۔۔ میں اسے شاباشی دیتا چینج کرنے روم میں چلا گیا۔۔۔ٹراوزر شرٹ پہن کر میں باہر آیا۔۔ اور اسے ایکسرسائز کا بتا کر بیلا کے گھر کو روانہ ہوا۔۔ میرا ذہن پلان بنا رہا تھا ۔۔۔ابھی میں گلی کی نکڑ پر پہنچا تھا کہ سامنے سے تانیہ آتی دکھائی دی۔۔میں نے گھائل مجنوں کی طرح اسکو ہیلو کی اور کہا جناب کدھر کو سیریں۔۔ میں انتظار کر کر کےکہ آپ کب آو گی یا نہیں آو گی اور میرا ویک اینڈ جانےکیسا ہوگا۔۔ وہ سسپنس چھپاتے ہوئے بولی تم کہاتھا کل بتاوںگا ۔۔ تو مجھےکیاپتہ کیا پروگرام۔۔۔ میں نے کہا ہمارا کیا پروگرام ہونا ہے۔۔۔جس بات کے لیے میں ویٹ کا کہا وہ ہو گیا۔۔ ہیوی بائیک لی ہے میں نے ۔۔ اس پر لاہور گھومنا۔۔ سچی اس نے بے یقینی سےکہا ۔۔ چند دن کے لیے بائیک لے لی۔۔ ہاں تو کیا ہوا جاتے ہوئے ناصر کو دیتا جاوں گا میں نے سخاوت کے ریکارڈ برابر کیے۔۔ واہ بھئی اور کیا پلان۔۔ اور تو سب آپ پر ہےنا۔۔ آپ بتاو کدھر جانا کدھر گھومنا۔۔ کچھ شاپنگ کرنی (اسکے پیسے بھی ناصر سے لیےتھے ظاہرہے اسکا کام تھا ) اور گھر میں باربی کیو اب آپ بتاو۔۔۔وہ مصنوعی کچھ سوچا اور میں اس کی مصنوعی سوچ کےدرمیان معصوم بچوں کی طرح پلیز پلیز کرتا رہا۔۔ کہتی ناصر کب جانا شاہدرہ۔۔میں نے کہا شام سات بجے۔۔ اوہ کافی لیٹ ہو جانی نا۔۔ ماما ناراض ہونگی اسکی اداکاری جاری تھی اورمیری پلیز بھی۔۔جیسےوہ دنیا کی واحد لڑکی ہو اور میں بلکل سادہ۔۔۔آخر وہ بولی میں شام کو بتاتی۔۔ میں نےکہاپتہ آج میری برتھ ڈےہے پلیزسوپر باربی کیو کرتے نا۔۔واو ہیپی برتھ ڈے یارا۔۔۔ چلو میں بتاتی شام کو۔۔ اس نے مجھے جان کر اور جلایا
بیلا کے گھر روٹین کی ایکسرسائز کی میری رننگ کافی اچھی ہو چکی تھی ۔۔ دو دن بعد ٹرائل ریس تھی ۔۔ ٹرائل ریس کا آئیڈیا بیلا کاتھا اور اسی نے اس طریقے سے اس ریس کا پروپیگنڈا کیا کہ مذاق مذاق میں دو تین کالجز سے ریسر لڑکے ریس سے پہلے ایکدوسرے کا لیول دیکھنے کے لیے شامل ہونے لگے ۔۔ دو دن بعد کالج گراونڈ میں ہی ریس تھی رننگ کے بعد ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ میڈم بھی آ گئیں۔۔اپنے لمبے بالوں کو ہلکے کھلے انداز میں باندھے بنگالی ساحرہ کے انداز میں داخل ہوئیں ہیلو ہاے کے بعد وہ اور بیلا ادھر ادھر کی ہانکنے لگیں۔۔۔ میں چونکہ اب میڈم کو نوٹ کر رہا تھا مجھے لگا میڈم جیسے آج زیادہ لاڈ کر رہیں بیلا کے ۔۔
انہوں نے مجھے بہت روکا لیکن میں انکل کی طبیعت کا بہانہ بنا کر نکل آیا۔۔ کل لازمی انکل کی طرف بھی جانا تھا یہی سوچتے میں گھر پہنچ گیا۔۔شام کے ساڑھے پانچ بجنے والے تھے میں گھر پہنچا تو ناصر پھر دیوانہ وار میرا ہی انتظار کر رہا تھا۔۔ یار گرو آج پھر ایک اچھی اور ایک بری خبر ہے بولو۔۔میں نے کہا جگر پہلے بری وہ بولا انکل کی طبیعت کا سن کر دلاور واپس آگیا ہے اسکا چہرہ بڑا عجیب سا ہو رہا تھا۔اوہ ۔۔ رقیب کیا ہوتا ہے یہ عاشق سے پوچھے وہ پہلے دور تھا اب اسی گھر جہاں اسکی بیوی اور میرا عشق میری رانی سرکار۔میری سوچیں ادھر ادھر بھٹکنے لگیں بے فضول کی باتیں اسکا خاوندانہ حق عمبرین کی خدمت اسکا غصہ عمبرین کا سہم اور اسکے کھردرے اور انکا مرمریں بدن ۔ یکایک میرے اندر جیسے اندھیرا پھیلنے لگا ۔۔ ناصر سے سنی باتیں دلاور کا ان سے رویہ جانے کیسے بیتیں گے ان پر یہ لمحے ۔۔ میں سناٹے میں تھا جب ناصر نے مجھے کہا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ کچھ دیر پہلے تانیہ آئی تھی پہلے تو مجھے دیکھ کر تھوڑا حیران ہوئی حالانکہ اسے خوش ہونا چاہیے تھا نا اور میں نے موقع اور کمرہ دیکھ کر اسے کہا تھوڑا بیٹھو تو جیسے نولفٹ تھی گرو اسکے لہجے میں مایوسی اور حیرانی تھی کہ میرا اندازہ کتنا پرفیکٹ۔۔ تو کیا بولی مجھے ایسے لگا جیسے میری آواز کہیں دور سے آرہی میرا بی پی اچانک سے جیسے سلو ہوگیا۔۔مجھ سے پوچھا تو میں کہنےلگا میں بس نکل رہا جیسے نعیم آتا۔۔ آپکی ہیوی بائیک اس نے سامنے پورچ میں کھڑی لششش پشش کرتی بائیک کی طرف اشارہ کیا۔۔ بڑے شوق سے بائک کو دیکھا اس نے اوور کہہ رہی تھی اچھا نعیم آئے تو اسے کہنا اسکا کام شام سات بجے ہو جائے گا ۔۔ میں نے جان کر پوچھا تو بولی کچھ نوٹس مانگے آپ نے ۔۔اور وہ رہا آپکا برتھ ڈے کیک اس نے فریج کی طرف اشارہ کیا۔۔ اور گفٹ اس کمرے میں اس نے لاونج کے ساتھ اٹیچڈ چھوٹے کمرے کی طرف اشارہ کیا جو آپریشن روم تھا۔۔ جیسا بھی تھا اب میں اس فراڈن کو عمبرین کے کمرے یا اسکے والدین کے کمرے میں تو نہیں بٹھا سکتا تھا وہ بس باہر کی حد تک کے قابل تھی ۔۔ لیکن میرا دل جیسے اچانک سے اچاٹ ہو چکا تھا۔۔جیسے چلتے کھلونے کی چابی رک جائے ایسے ۔۔ میرے اندر کی خوشی اندر کا سکون بس انہی کے ہونے سے تھا۔۔ آج رات تو بات نہیں ہو سکتی تھی اس سوچ نے مجھے سن کر دیا۔۔ ناصر بولاکیا بات ہے بھئی میں نے کہا کچھ نہیں یار میں نہیں چاہتا تھا کہ اس سے ذکر کروں اور وہ پھر سے دلاور نامہ شروع کرے اور مزید سلگائے۔۔ اب میں کیا کروں۔۔ناصر نے مجھ سے پوچھا۔۔ میں نے کہا تم گھر چلے جاو اب میں ٹھیک ہوں۔۔دو دن ہو گئے ۔ میرا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو چکا تھا بسس چاہتا تھا کہ کوئی نا بولے اور وہ تانیہ اس نے جھجھک کر پوچھا۔۔اس میں کچھ دن لگیں گے یار میں نے جام چھڑائی مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ اس سے کیا کہنا بسس مجھے وہ کمرہ ۔۔ عمبرین کا صوفہ پر سونا اسکا بیڈ پر ۔۔ عمبرین کے پاوں دبانا ۔۔۔۔۔۔ ایک ایک حرکت مجھے ستا رہی تھی ۔۔کب ناصر گیا کب اندھیرا ہوا مجھےعلم نہیں۔۔ لاونج میں ہلکا اندھیرا تھا اور میں چپ صوفے پر لیٹا ہوا جب ایسے لگا جیسے باہر کھٹکا ہوا۔۔میں نے دیکھا تو باہر لاونج کے دروازے کے پاس کوئی سایہ تھا میں چونکا جب آوازآئی نعیم ۔۔۔ میں کچھ دیر جیسے سن سناٹا رہا پھر آواز آئی کوئی ہے نعیم یہ تانیہ تھی ۔۔ کیا مصیبت ہے یار اسکا اس مزاج میں آنا ۔۔ یہ پلان اب مجھے سخت کوفت زدہ کر رہا تھا میرا جسم جیسے عجیب سا۔مجبورا میں نے کہا آو نا تانیہ میں ادھر بیٹھا ہوں ۔۔ دروازے کےساتھ بورڈ ہے لائٹ جلالو۔۔وہ آگے بڑھی اور لائٹ آن کر کے بولی ۔۔ لو مجھے دعوت پر بلا کر خود لائٹیں آف کر کے چھپے بیٹھے ۔۔۔ ناصر کہاں۔۔ بسس یار طبیعت عجیب سی تھی تو لیٹ گیا سستی نے اٹھکر لائٹ نہیں جلانے دی ۔۔ اور ناصر تو چلا گیا ہوا۔۔ اوہ کیا ہوا وہ میرے سامنے آ کر بیٹھی۔۔تمہارا رنگ بھی عجیب سا ہو رہا۔۔ کچھ نہیں بس سر درد سا۔۔ سر دبا دوں اس نے دوست کا اس نے لاڈ کیا۔۔نہیں یار میں نے اکتاہٹ سے کہا۔۔ ارے تکلف نا کرو اس نے اوپر پہنی بڑی شال کو اتار کر صوفے پر رکھا اور کرسی کو گھسیٹ کر میرے سر کی طرف آئی۔۔افففف جیسے ہی اس نے شال اتاری لگا جیسے اسکا شباب امڈ آیا۔۔ سپر فٹنگ والی شرٹ اور پاجامہ کے ساتھ وہ غضب ڈھا رہی تھی بلاشبہ وہ ماڈرن خوبصورت اور سیکسی تھی۔۔جیسے ہی وہ کرسی کھینچ کر میرے پاس آئی اور میرے ماتھے کو سہلایا ۔۔ہلکا سا آگے کو جھک کر۔۔مناسب کھلے گلے میں اسکا شانہ اور گردن چمکی اسکے ہاتھ کالمس ماتھے سے لگا اسکا چنگھاڑتا جسم اور خوشبو ۔۔میں جو عجیب کیفیت میں تھا ۔۔ اب وہ اداسی وہ چڑچڑاپن آہستہ سے وحشت میں ڈھلنے لگا۔۔ مجھے شدت سے اسکی چڑ لگی کہ کیسے صرف عیاشی کے لیے ٹریپ کر رہی ناصر کو اور کیسے میرے اتنے قریب آ گئی۔۔اسکے ہاتھوں کا لمس آہستہ آہستہ سرور دینے لگامیری وحشت کو گھٹن کو راستہ نظر آ گیا۔۔ دنیا کو آگ لگاتا یا نا ۔۔ اس کی لازمی بجانا لازمی تھی ۔۔ اور وہ بھی اس وحشت میں۔۔میں نے ہاتھ بڑھایا اور اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا پتہ میں کیوں اداس تھا۔۔ کیوں اس نے پوچھا۔۔ آج میری برتھ ڈے ۔۔ سوچا تھا کھل کر انجوائے کروں گا تم بھی نہیں آ رہی تھی میں بہت اداس تھا میں نے ڈرامہ شروع کیا۔۔ اوہو سویٹو اس نے بھی مصنوعی لاڈ سے کہا ۔۔ چلو اٹھو ۔۔ میں نے ہاتھ سے بازو تک ہاتھ کو گھماتے ہوے کہا کدھر۔۔ اس نے بڑی ناز سے میرے رینگتے ہاتھ کو تھام کر طریقے سے پیشقدمی روکی جیسے کہہ رہی ہو نا جی بس اتنا ہی بہت ۔۔اس نے کہا تمہیں گھمانے تم باہر بائیک لیکر آو مجھے نکڑ سے لے لینا ایسے آس پاس سو بندہ ہوتا اس نے دوبارہ شال لیتے ہوئے کہا۔ اب چور بلی کا کھیل شروع ہو چکا تھا۔۔ میں اٹھا اور تھوڑا فریش ہو کر نکلا۔۔ بائیک نکالی اور نکڑ سے اسے اٹھایا۔۔وہ میرے ساتھ جڑ کر بیٹھی اور بولی اب موڈ فریش کرو دیکھو تمہارے لیے سہیلی کی برتھ ڈے کا بہانہ بنا کر رکی۔۔اب مجھے سہیلی کے گھر چھوڑ دینا بعد میں۔ میں نے کہا جو حکم اب کدھر چلیں کسی اچھی سی جگہ جہاں سکون سے کچھ کھا سکیں کچھخرید سکیں۔۔ وہ مجھے ساتھ لیے ایک سپر مال لے آئی ۔۔ ایسا مال میں تو بس ڈراموں میں ہی دیکھا تھا۔۔ ادھر ادھر گھومتے وہ ایک جگہ رکی سامنے برانڈڈ بوتیک کا ڈسپلے تھا۔۔ میں نے نوٹ کیا اسکی نظر ایک فینسی شرٹ پر جمی ہوئی ایک سکن ٹائٹ تقریبا سلیولیس شرٹ اور ساتھ پاجامہ ۔۔ اسکی قیمت سات ہزار نمایاں تھی۔۔ میں نے کہا کیا ہوا پسند آگیا کچھ۔۔وہ ناز سے بولی ہاں بہت زیادہ لیکن مہنگا بہت ہے اس نے چال چلی۔۔ اور میں نے وہی کیا جو بنتا تھا۔۔ ارے یار پلیز جو پسند ہو لے لو جیسے بھی ۔۔ میں نےکہا۔۔ تم کہہ سکتے ہو بھئی ہم غریب بندے اس نے چال کولمبا کیا۔۔ پلیز ایسا نا کہیں ۔۔ میرے ساتھ ہیں مری سالگرہ پر تو میری مرضی چلنی جو پسند وہ لینا چلیں لیتے۔۔ ارے نہیں نعیم بہت مہنگا ہے۔۔ میں نے ڈرامہ جاری رکھا اور اسکی اوپری اوپری نا کے باوجود وہ سوٹ پیک کروایا۔۔سوٹ کے بعد تو جیسے اسے یقین ہوگیا کہ میں ناصر سے کہیں اوپر کی چیز ۔۔پہلی ملاقات میں ایسا گفٹ۔۔وہاں سے ہم ادھر ادھر گھومتے جوس پیتے ایک شرٹ اپنے لیے لیتے واپسی کو لوٹے باہر دھند پڑ چکی تھی اففف کتنی سردی ہو گئی بس اب یہاں سے سہیلی گھر چلتے ۔۔ میں نے ان سنی کر دی اور کک ماری ۔۔ سوٹ کے بعد وہ بہت لاڈ کر رہی تھیں ۔۔ افففف سردی کہتے وہ اسبار بلکل میرے ساتھ لگ گئیں۔۔اتنی موٹی شال کےہوتے سردی میں بے چارہ صرف جرسی میں بائیک چلا رہا وہ ہنسیں اور بولیں تو میں چلاوں کیا اب۔۔ ساتھ لگنے سے وہ میرے ساتھ جڑی تھیں۔۔
اسکا چنگھاڑتا شباب میری کمر سے ٹکرا رہا تھا اور میری وحشت عروج پرتھی۔۔وہ ہلکاسا میری کے ساتھ رگڑ کھاتی تھوڑا ادا سے پیچھے ہٹتی اور پھر ساتھ جڑ جاتی وہ جانتی تھی میں ناصر سے بڑا ہوں مجھے بڑی کلاس پڑھانی ۔۔کہاں بازو چھڑا لیا کہاں سینہ رگڑ رہی اسکی حرکتوں سے غصہ اور وحشت دونوں عروج پر تھے۔۔ جب میں واپس اپنے گھر کی گلی کو مڑا تو اس نے کہا ارے مجھے چھوڑنا ہے ۔۔ میں نے کہا جی یاد ہے ایک گفٹ ہے جو لیا میں نے آپ کے لیے۔۔ میرے لیے وہ خوشی سے ہلکا چیخیں۔ ہاں آپکے لیے ۔۔ بہت پہلے لیا تھا کہ اسکو دوں گا جو میرا برتھ ڈے اسپیشل کرے گی اور وہ آپ ہو ۔۔ اور برتھ ڈے سے یاد آیا کیک بھی تو کاٹنا نا۔۔ میں اسے لالچ دیا۔۔ اوہ کیک یسسس کیک تو کاٹنا نا۔۔انہیں گفٹ کا لالچ متجسس کیا جو بندہ عام انداز میں سات ہزار کا سوٹ لے دے اسکا اسپیشل گفٹ کیا ہو گا یہ کم تجسس نا تھا۔۔اور اس نے جال میں قدم رکھ دیا۔۔ اندر لاونج میں اسے بٹھایا۔۔ہیٹر جلایا ۔۔ اور فریج سے کیک نکال کر لایا۔۔ کیک کاٹ کر وشز کے بعد میں نے کہاآپ رکو ایک منٹ اور اندر کمرےسے پہلے سے تیار شدہ ایک ڈبہ اٹھا لایا اور اسکے سامنےجا کر کھول دیا۔ بہترین جیولری باکس میں سجا ایک خوبصورت سا نیکلس جگمگا رہا تھا یہ اور بات کہ آرٹیفیشل نیکلس ہم نے ناصر کے کسی دوست سے ڈبے سمیت ادھارا مانگا تھا۔۔ اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔ میں اسکی توقع سے زیادہ بدھو تھا۔۔ یہ میرےلیےہے ۔۔ ہاں اصل موتیوں کا ہے یہ میں نے لے رکھا تھا ۔۔ پچاس ہزار کا دکان کا سب سے قیمتی سیٹ۔۔اس کے لیے جس نے زندگی کے نئے سال کا آغاز دلکش کر دیا۔۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے چھوا اور پھر فورا للچاہٹ سے بیگ میں رکھنے لگیں تو میں بولا یہ زیادتی ہے ۔۔ وہ بولیں کیا ہوا۔۔ اب وہ میری سخاوت کے سحرمیں تھیں ایسا کاٹھ کا الو بھلا کہاں ملنا تھا۔میں نےکہا یہ دونوں گفٹ مجھے پہن کر دکھائیں نا۔۔مجھے بس دو لمحے خوش ہو لینے دیں پلیز میں نے فدیہ ہوتے التجا کی۔۔ میں تو اتنا خوش ہوں کاش کاش آپ کا مسلہ نا ہوتا تو ناردرن کو نکل جاتے برفباری دیکھنے میں نے جال کو لپیٹتے ہوئے کہا۔۔ افففف سچی وہ جیسے چمک اٹھیں ہاں مچی اب جائیں اور چینج کر آئیں۔۔ ہیٹر کی وجہ سے لاونج کا موسم بہتر ہو چکا تھا۔ آپ چینج کر آئیں نیکلس ہم خود ایڈجسٹ کریں گے ۔۔ پلیز پانچ منٹ بسس۔۔ اللہ تم بھی نا وہ مسکراتیں اٹھی اور سامنے کمرے میں چلی گئیں ۔۔ اور جب وہ لوٹیں ایسا لگا جیسے بجلی چمکی ۔۔ تقریبا سلیولیس سکن ٹائٹ شرٹ میں انکا سراپا قیامت ڈھا رہاتھا یہ شرٹ شائد مارچ کے حساب سے بنائی گئی تھی ۔۔ ہلکی سی باریک شرٹ جس میں انکا سیاہ برا اور انکا شباب چھلک رہا تھا۔۔ وہ ایک ادا سے چلتی میرے پاس آئیں۔۔ کھیل سنسنی ہو چکا تھا۔۔۔
0 Comments