مکمل بولڈ کہانی
میرا نام نعیم ہے ۔۔۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا
میرے والد صاحب ریلوے میں جاب کرتےتھے۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب گرایجوایشن کے لیے مجھے لاہور جانا تھا
اکلوتا ہونے کی وجہ سے میرے گھر والے مجھے ہاسٹل میں بھیجنے کے سخت خلاف تھے۔۔ بقول اماں کے ہوسٹل کے کھانے کھا کر میری صحت کا ستیاناس ہو جاناتھا
میری صحت ماشا ء اللہ کافی بہتر تھی ۔۔ مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت چسکا تھا۔۔ کالج کی لائبریری سے لیکر آنلائن ریڈنگ تک۔۔ میں نے ہر طرح کی بکس پڑھ رکھی تھیں ۔۔ انٹر کے پیپرز کے بعد مجھے کہیں سے سیکسی رسالہ مل گیا
اس عمر میں ایسی چیزیں کسے نہیں پسند ہوتیں۔۔ لیکن میں ہر چیز کو علم کی حد تک پڑھتا تھا اور اس وقت تک کسی منفی سرگرمی میں نہیں تھا
میرے بس دو ہی شوق تھے ۔۔۔ ایکسرسائز اور بکس ریڈنگ
بکس نے میرےعلم میں بہتری لائی اور ایکسرسائز نے میرے سٹیمنا میں
ابھی لاہور کہاں رہائش رکھنی ہے اس پر بحث ہو رہی تھی کہ ایکدن میری اماں کے میکے گاوں سے انکی سہیلی کسی کام سے ہمارے گاوں آئی ۔۔ جب اسے پتہ چلا تو اس نے بتایا کہ اسکی کزن شازیہ کا لاہور میں ڈبل سٹوری گھر ہے جہاں وہ اپنے میاں بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتی ہے
اسکا میاں اور بیٹا دونؤں ٹرک ڈرائیور ہیں آور لاہورسے کراچی کوئٹہ پشاور تک لمبے پھیرے لگاتے ہیں اور ہفتوں گھر نہیں آتے ۔۔ اور وہ اکیلی خواتین اکیلے رہنے سے بھی پریشان ہیں کہ زمانہ خراب ہے اور کرایہ داروں سے بھی ڈرتی ہیں کہ جانے کون کیسا ہو۔۔۔انہوں نے اماں کو تسلی دی کہ گھبراو نہیں وہ شازیہ آنٹی سے بات کریں گی اور پھر انہیں بتائیں گی ۔۔۔ میری آزادی کی ساری خواہشیں دم توڑنے کو تھیں لیکن کیا کرتا ۔۔
چند دن بعد اماں کی سہیلی کا فون آیا کہ سب بندوبست ہو گیا ہے انکی کزن جو اماں کو بھی جانتی تھی بہت خوش ہوئیں کہ گھر کا بچہ مل گیا آسرا رہے گا
اور یوں ایک دن میں اپنے ابا کےساتھ لاہور روانہ ہو گیا میرے ساتھ ماں کی بہت سی دعائیں اوربہت سی پنجیریاں بھی ہمراہ ھیں
ابا مجھے لاہور چھوڑنے آئے ۔۔۔ شاہدرہ میں انکا گھر تھا ۔۔۔ ہم صبح گیارہ بجے پہنچے ۔۔۔ آنٹی شازیہ نے بہت خوشی سے ہمارا استقبال کیا۔۔ اور مجھے ساتھ لگا کر بولیں بہت چنگا ہویا تم یہاں آ گئے ۔۔۔ وہ جانے کیا سوچ کر مجھے ساتھ لگا رہیں تھیں مجھے اپنا پتہ ہے کہ مجھے عجیب سا احساس ہواجیسے کچھ انہونی سی
دوپہر کے کھانے کے بعد ابا واپس چل دیے ۔۔۔ تب تک آنٹی شازیہ سے ہی باتیں ہوتی رہیں ۔۔ انکی بہو کسی سہیلی کی شادی کی شاپنگ کے لیے اسکے ساتھ گئیں تھیں
ابا کے جانے کےبعد آنٹی نے کہا آو تمہیں تمہارا کمرہ دکھاوں ۔۔ دو منزلہ گھر تھا جسکی اوپر والی منزل پر دو کمرے ایک ہال اور کچن باتھ تھا۔۔۔ میں نے شکر کیا کہ پرائیویسی ہے ۔۔۔ میں نے کہا میں اوپر والی منزل پر رہائش رکھوں گا۔۔۔
انہوں نے کہا جیسے تمہاری مرضی ۔۔ بے شک اوپر سو جانا لیکن رہنا نیچے بھی ہم اکیلے رہ رہ بور ہوتیں ابتک
میں نے نوٹ کیا کہ ابا کے سامنے بڑی چادرمیں آنٹی شازیہ اب گھریلو دوپٹہ میں اتنی بڑی نہیں لگتی تھیں جتنا میں نے سوچا سمجھا تھا
تھوڑی سی موٹو ۔۔ چالییس سال کے آس پاس ای لگتی تھیں
انکی سب سے اہم چیز انکا بھاری سینہ تھا جو اتھل پتھل کرتا رہتا تھا
شام کے وقت میں اوپر اپنا سامان سیٹ کر رہا تھا ۔۔۔ ہال کو ایکسرسائز کےسامان سے سجایا۔۔ ایک کمرےکو سٹڈی روم اور اپنے نےاچھے برے ناولوں کو سجایا اور چھپایا
جب باہر دروازے پرکسی جے بیل دی
گھر کا اکلوتا مرد ہونے کی وجہ سے میرا فرض بنتا تھا کہ دیکھوں باہر کون ہے
میں نے منڈیرسے نیچے جھانکا
افففف جیسے ہی میں نے نیچے دیکھا ۔۔ کوئی لڑکی جھکی دروازے کے پاس سامان رکھ رہی تھی۔۔۔ دوسری لڑکی ٹیکسی میں بیٹھی اسکے دروازہ کھلنے اور اندر جانے کے لیے انتظار کر رہی تھی
لڑکی کے جھکنے سے ۔۔ اوپر سے بلکل اسکی کلیویج واضح تھی ۔۔۔ اور کلیویج کے ایک طرف لال رنگ کا تل ۔۔۔ دال چنےکے برابر تل۔۔۔
میں نے اندازہ لگایا کہ یہ ہی آنٹی کی بہو ہیں
اففففف اسکا تل۔۔۔ میری جوانی کو دھڑکا گیا
کچھ دیر کے بعد مجھے آنٹی نے نیچے سے آواز دی
اور میں ہلکا سا سر میں نیچے کو چلا گیا۔۔۔ سامنے برآمدے میں آنٹی پلنگ پر نیم دراز لیٹیں تھیں ۔۔۔ چادر بس نام کی لی ہوئی ۔۔۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے کھسک کر جگہ بنائی اور کہا ادھر آ جاو بچیا ۔۔ اور میں انکے پائنتی سائیڈپر سکڑ کر بیٹھ گیا ۔۔ سامنے کرسی پر وہ ہی لڑکی بیٹھی تھی ۔۔ شانے پہ دوپٹا اٹکا ہوا جو کوشش کے باوجود انکے بھاری ابھاروں کو چھپانے میں ناکام ہو رہا تھا
وہ لڑکی آنٹی کو شاپنگ دکھا رہی تھی ۔۔ آنٹی نے مجھے مخاطب کیا یہ عمبرین ہے میری بہو تمہاری بھابھی ۔۔ اور عمبرین یہ نعیم ہے بتایا تھا نا میں نے تمہیں
بھابھی نے میری طرف دیکھا اور سمائل دی ساتھ ہی ہاتھ آگے بڑھایا
میں تھوڑا سا جھجھکا اور پھر ہاتھ بڑھا دیا۔۔۔ افففف جیسے ہی انکا ہاتھ تھاما جیسے ننگے تار کو چھو لیا ہو پورے بدن میں جیسے کرنٹ سا دوڑا
پھر میرے اندرمیرا فطری اعتماد جاگا اور میں نے ہاتھ کھینچتے ہوئے انگلی سے ہلکا سا ہتھیلی کو مس کیا
انکے چہرے پر ایک رنگ سا گزرا
کچھ دیر بعد وہ کھانا بنانے میں مگن ہو گئیں ۔۔۔ اور خالہ مجھے اپنے گاوں کی اور میرے اماں کی کہانیاں سناتی رہیں
ایسے میں انکا جسم تھرتھراتا اور بھاری مومے اور چوتڑ ہلتے
شام کے کھانے کےبعد ۔۔۔ میں اٹھنے لگا تھا کہ آنٹی نے کہالو تم جا رے ہو ۔۔۔ اتنی رونق لگی تھی ۔۔ آو اندر بیٹھتے باہر ہلکی ٹھنڈ ہو رہی تھی ۔۔۔ وہ مجھے لیے عمبرین کے کمرے میں آ گئیں
سامنے بیڈ سجا پڑا تھا۔۔۔ کارنر پربھابھی اور انکے بندے کی فوٹو لگی پڑی تھی ۔۔ بہت ہی عام سا بندہ تھا بھابھی سرخ لہنگے میں قیامت ڈھا رہی تھیں ۔۔ دلہن فوٹوز کے ٹیبل فریم پہ سجی انکی تصویر جس میں سرخ تل ہلکی سی چھب دکھا رہا تھا
تھوڑی دیر بعد بھابھی بھی آ گئیں ۔۔ بات کرتے جب بھی میری نظر ان سے ٹکراتی وہ نگاہ پھیر لیتیں
تھوڑی دیر بعد بھابھی بولیں ۔۔۔ اماں آپ دوائی کھا لیں آپکی طبیعت نہیں ٹھیک اور انکے قریب آکر انہیں دوائی کھلانے لگیں ۔۔۔ ہلکاجھکنے سے انکا کلیویج اور دمکتے بوبز۔۔۔
میری نظر رک گئی ۔۔ شائد انہیں اندازہ ہو گیا تھا وہ جلدی سے سیدھی ہوئیں
اور ہلکا سا گھورا ۔۔۔ کچھ دیر بعد خالہ بولیں ارے عمبرین چائے بنا لا ۔۔ سر پھٹا جا رہا ۔۔ آنٹی نےدونوں ہاتھوں سے سر دبایا
بھابھی چائے بنانے چلی گئیں ۔۔ تو میں نے کہا شکرہے آپ چائے بولی ۔۔۔ میری بہت عادت۔۔ تب وہ ہنسی اور بولیں تو بتا دیتے نا نعیم ۔۔ تم اس گھر کو اپنا گھر سمجھو جو دل کرو۔۔ میں نے کہا واہ جی
اور تھوڑی ہمت کر کے کہا ۔۔ آپ کس چیز کی دوائی کھاتی ہیں۔۔ کہتیں بلڈ پریشر کی۔۔ میں نے کہا اوہ۔۔ اتنی کم عمری میں بلڈ پریشر شوٹ کرجاتا۔۔ میں نے مکھن لگایا۔۔۔لو بڈھی ہو گئی اب تو میں انہوں نے مایوسانہ جواب دیا
ارے نہیں کب۔۔۔ آپ تو لگتی نہیں بھابھی کی ساس۔۔ بڑی بہن لگتیں بس۔۔۔ ایسا کہنے سے وہ اچانک کھل اٹھیں ۔۔ میں نے اگلا تیر چلایا اور کہا سچی آپ بہت گریس فل ہیں سچی
افففف وہ جیسے شرما سی گئیں اور کہا چل جھوٹے
میں نے کہا سچی ۔۔ آپ تو ابھی جوان ہیں ایسا کہتے میری نظر انکے بھاری سینے پر تھی
انہیں بھی احساس سا تھا۔۔ ایک چمک انکی آنکھوں میں لہرائی جیسے شکاری کی آنکھوں میں شکار دیکھ کر
اور کہا اچھا جی۔۔۔ کیا کیا گریس ہے انہوں نے ہلکا جھک کر پوچھا
ابھی میں بتانے لگا تھا کہ بھابھی کے قدموں کی آہٹ سے وہ سیدھی ہوئیں اور ذرا الگ ہو کر بیٹھ گئیں
میرےکتابی علم نے بتایا کہ کچھ دال میں کالاہے
چائے پیتے سمے وہ عام باتیں کرتی آئیں ۔۔ پھر میں نے کہا چلیں آپ ریسٹ کریں میں بھی چلتا ہوں
تب وہ بھی اٹھیں اور کہنے لگیں۔۔ میں بھی چلتی ہوں اپنے کمرے میں ۔۔ یہ تو عمبر کا کمرہ ہے ۔۔ اور میرے ساتھ ہی چل دیں۔۔ بھابھی الماری کھولے ساری شاپنگ اندر رکھنے میں بزی ہو گئیں
باہر نکل کر میں زینوں کی طرف جانے لگا تو انکی آواز آئی
بہت بے مروت ہو بھئی۔۔ یہ بھی نہیں کہا آنٹی آپکوکمرے تک چھوڑ آوں طبیعت خراب میری۔۔
میں شرمندہ ہوا اور کہا چلیے نا۔۔۔ برآمدے کے اینڈ پر انکا کمرہ تھا۔۔۔ آو تمہیں اپنا کمرہ دکھاوں ۔۔وہ مجھے دعوت دیتی اندر گئیں ۔ انکے کمرے میں بھی انکی تصویر ٹنگی تھی ۔۔ کچھ سال پہلے کی ۔۔میں نے کہا واہ کیا کمال تصویر ہے
تب وہ مڑیں اور کہا یاد آیا ۔۔ اب بتاو کیا گریس نظر آئی
میں تھوڑا سا جھجکا۔۔۔اور کہا آپ مکمل گریس فل ہیں
لو یہ کیا بات انہوں نے ہلکا سا ابرو خم کیا ۔۔ شرماو نہیں
توبہ تم کتنے شائی ہو انہوں نے میرے رخسار کو چھوا افففف انکا رخسار چھونا تھا کہ مجھے جھرجھری سی آ گئی ۔۔۔انکا لمس آتشین تھا ۔۔۔ میں نے تھوک نگلا اور کہا ۔۔ تو بتا دوں ۔۔۔
مرے اندر پھر ہمت جاگی ۔۔ میرا کتابی علم مجھےالارم دے رہا تھا
آپ غصہ کر گئی تو
لو اپنی تعریف پر کون غصہ کرتا۔۔انہوں نے مجھے بڑھاوا دیا
میں نے ہمت کر کے کہا ۔۔۔ آپکا فگر بہت کمال کا ہے ہیوی فگر ۔۔ لوونگ
وہ ایک لمحے کو چپ سی ہوئیں جیسے اتنی تیزی کی انہیں امید نا ہو
امید مجھے بھی کہاں تھی۔۔بس بول دیا تو بول دیا
اگلے لمحے انکے گال گلابی ہوے سفید گولو چہرہ سرخ انار سا
اور انکی آنکھوں میں پھر وہ ہی چمک لہرائی
وہ بولیں بد تمیز
میں نے جان بوجھ کر منہ بنایا اور کہا دیکھا ڈانٹ دیا نا
ارےکب ۔۔۔ وہ میرے پاس آئیں اور کہا یہ لاڈ سے کہا
میں نے ہمت پکڑی اورکہا ۔۔۔ تو لاڈ سے ایک بات میں بھی پوچھ لوں
انہیں شائد اندازہ ہو گیا تھا کککک کیا بات ۔۔ انکی آواز لرزی
میں نے کہا۔۔۔ اس گریس فل چیز کا سائز کیا ہے
میں نے آخری حد تک ہمت جمع کر کے آر یا پار سوال پوچھ لیا
وہ چپ ۔۔۔۔مجھے لگا کچھ غلط ہو گیا۔۔میں سر جھکائے باہر نکلنے لگا دروازہ کھول کر میں دو قدم باہر نکلا تھا کہ انکی آواز آئی ۔۔۔ بدھو لڑکے
میں پیچھے دیکھا ۔۔وہ دروازے کے بلکل پاس لگی کھڑی تھیں۔۔۔ اور انہوں نے کہا ۔۔۔ اسکا سائز چالیس ہے
ساتھ ہی شرما کر دروازہ بند کر لیا
میرا دل دھڑک اٹھا ۔۔۔ اور دل میں نعرہ گونجا وہ مارا
اپنے کمرے میں آکر اسی بارے سوچتا رہا
مجھے لگنےلگا کہ آنٹی بچے باز ہے۔۔۔ اور میرے جیسا بچہ جو کافی کلین بھی ہے گھر میں بھی ہے بہترین شکار تھا
ٹراوزر میں میرا لن انگڑائیاں لینے لگا۔۔ اچانک کمرے میں کسی بیل کی آوز سنائی دی
میں نے ادھر ادھر دیکھا تو سائیڈ ٹیبل پر فون بج رہا تھا
میں کچھ دیر انتظار کیا ۔۔ میں گاوں کا بندہ ۔۔ کسی کا گھر جانےکس کا فون ہو
کچھ دیربیل کے بعد فون بند ہو گیا
میں پھر آنٹی کو سوچتے لن کو سہلانے لگا۔۔۔ متواتر ایکسرسائز کی وجہ سے میری باڈی کے ساتھ ساتھ لن بھی کافی جاندار تھا
جسکی سب سے نمایاں چیز اسکی موٹی ٹوپی تھی ۔۔ باقی سائز نارمل تھا بہت زیادہ نہیں لیکن ٹوپی کافی موٹی جیسے کسی ناگ کا پھن
انہی خیالوں میں گم تھا کہ سیڑھیوں پر سے آواز آئی نعیم
میں چونک کر بولا جی۔۔۔ یہ بھابھی تھیں۔۔ کمبل لے لو سیڑھیوں پر آ کر وہ وہیں سے بولیں
میں ویسے ہی کمرے سے باہر نکلا ۔۔۔ وہ سیڑھیوں پر دو قدم نیچے کھڑی تھیں
جاگ رہے تو انٹر کام کیوں نہیں اٹھایا ۔۔ لائٹ جلتی دیکھ کر آواز دی
کمبل رکھنا بھول گئی تھی رات ٹھنڈ ہو جاتی نا
اوہ میں سمجھا فون ہے مجھے انٹر کام کا نہیں پتہ
میں صحن میں روشنی میں کھڑا تھا اور وہ ہلکے اندھیرے میں
مجھے لگا بات کرتے کرتے انکی نظر میرے ٹراوزر پر رکی اور وہ جیسے چونکی ہوں جلدی سے نظر گھما کر انہوں نے بلینکٹ دیا اور کہا بیل دیتی ہوں فون سن لینا
میں کمبل لیے اندر آیا تو میری نظر سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پر پڑی
میرا نیم اکڑا لن اور اور اسکا پھن یعنی ٹوپہ۔۔ٹراوزر میں کافی واضح تھا
افففف اسلیے بھابھی چونکی ۔۔۔ اتنے میں بیل پھر بجی
دوسری طرف بھابھی تھیں
انہوں نے مجھے انٹرکام کا بتایا اور کہا کبھی کوئی اچانک کام ہوتو انٹرکام یوز کر لینا اسکا دوسرا سیٹ میرے کمرے میں ہی ہے
میرے اندر جیسے ڈھول سے بجے۔۔۔
میں نے شکریہ کہا
اور کہا جی ضرور
تب انہوں نے دو چار باتوں کے بعد کال کاٹ دی
اگلی صبح میری آنکھ دیر سے کھلی گیارہ ہونےوالے تھے تو جسم ایکسرسائز کے لیے ٹوٹ رہاتھا دیر سہی لیکن کچھ ورزش تو کرنی تھی نا
میں نےہال میں ہی ٹیبل پرٹانگیں جما کر ڈنٹر شروع کر دیے
ساتھ میرا ذہن آنٹی اور بھابھی کے بارے سوچ رہا تھا
وارم اپ کے بعد میں نے شرٹ اتاری اور پریکٹس کرنےلگا۔۔۔کانوں میں ہینڈ فری لگا کر تیز دھن پر ایکسرسائز
اچانک مجھے کسی نے چھوا۔۔میں چونک کر پلٹا تو ایک گداز جسم سے ٹکرایا
وہ بھابھی تھیں۔۔ کب سے آوز دے رہی آنٹی ۔۔اور تم یہاں پہلوان بن رہے۔۔۔ انہوں نے گڑ بڑا کر کہا۔۔۔ ہم بلکل ساتھ لگ تھے
میرا پسینہ پسنہ جسم اور خالص جسم کی خوشبو
وہ جیسے لال گلابی۔۔ جلدی سے آو آنٹی ناشتے پر ویٹ کر رہیں
وہ تیزی سے پلٹیں ۔۔۔سیڑھیوں کے پاس رکیں انکی نظر میرے ٹراوزر سے ٹکرائی میں انجان بنا رہا۔۔ اچھل کود سے لن بھی ایکٹوتھا
کچھ دیر بعد جب میں نچے گیا تو آنٹی سامنے بیٹھی تھیں
اففف آج تو وہ غضب ڈھا رہیں تھیں
انکی قمیض کا گلا کافی کھلا تھا ۔۔۔ موٹے بوبز ابل رہے تھے
میری آنکھیں جمیں تو انہوں نے مجھے گھور کر بھابھی کا احساس دلایا
اور اپنے پاس جگہ دی۔۔۔ بھابھی ناشتہ لینے گئیں تو میں نے کہا
کیسی طبیعت ےہےگریس فل لیڈی کی
آج تو غضب ڈھا رہیں
انہوں نے ہولے سے کہا ۔۔۔ بدھو گریس فل کےساتھ میں ساس بھی ہوں دھیان سے
اور بہت بہتر ہوں
کہیں جانے کا ارادہ ہے کیا میں نے چھیڑا
کیوں تم نے ساتھ جانا ہے کیا ۔۔ انہوں نے میرا سوال واپس لوٹا دیا۔۔۔ میرا کیا ہے چلا چلوں گا اگر آپ ساتھ لیجائیں تو ۔۔ پھر ہلکی سرگوشی سے کہا ۔۔ آپ جیسی گریس فل لیڈی کے ساتھ تو آخری نکڑ تک جایا جا سکتا۔۔۔ وہ ہلکا سا مسکرائیں اور کہا اچھا جی دیکھ لینا ایسا نا ہو راستے میں تھک جاو۔۔۔ انہوں نے معنی خیز جملہ کہا ۔۔۔ میں نے اسی ٹون میں جواب دیا۔۔۔ بےفکر رہیں ۔۔ ویسے بھی مجھے دنیا دیکھنے کا بہت شوق ہے اور بہت لگن بھی ۔۔۔ انکی آنکھیں پھر چمکیں۔۔۔ ہم دونوں کے درمیان اب ایک سنسنی والامیچ چل پڑا تھا۔۔۔ کسی بھی بال پر چھکا بھی ہو سکتا تھا اور معمولی غلطی سے آوٹ بھی ہو سکتا تھا ۔۔۔لیکن کیا کرتا آفریدی کی طرح کریز سے نکل کر کھیلنے کی عادت تھی۔۔بتائیں نا پھر دکھائیں گی دنیا یا نا امید رکھوں ۔۔ وہ ہنسی اور کہتی دنیا کی تو بعد میں بات ہے ۔۔۔ چلو تمہیں آج لہور گھماتی ۔۔۔چلو تھوڑا سا کام ہے کچھ چیزیں لینی ہیں ۔۔ جاو تیار ہو آو۔۔۔ میں اٹھا اور اوپر آ کر تیار ہوا ۔۔ تھوڑی دیر بعد آنٹی بڑی سی چادر میں کمرے سے نکلیں اور ہم دونوں گھر سے باہر آ گئے ۔۔۔ سڑک سے رکشہ لیا اور آنٹی نے اسے کوئی ایڈریس بتایا ۔۔۔میں رکشہ سے باہر لہور کی رونق دیکھنے لگ پڑا۔۔ آنٹی چونکہ تھوڑی گولو مولو تھیں اسلیے رکشہ کی تنگ سیٹ پر ہم تقریبا ساتھ جڑ کر بیٹھے تھے ۔۔۔ اچانک میری نظر سامنے لگے لمبے شیشے پر پڑی ۔۔ آنٹی شیشے میں میری طرف ہی دیکھ رہیں تھیں ۔۔ ہماری نظر ملی۔۔رکشہ کے جھٹکوں سے بڑی چادر ہونے کے باوجود ادھر ادھر کھسک رہی تھی۔۔اور میرے اندر نشہ سا چھا رہا تھا
میں نے پوچھا ہم کہاں جا رہے۔۔۔ وہ بولیں جنہوں نے گھومنا ہوتا وہ پوچھتے نہیں بس ساتھ چلتے ہیں ۔۔ میں نے لوز بال دیکھ کر شاٹ ماری ۔۔۔ تو پھر آپ مجھے گھمائیں گی نا ۔۔ بس اب نو سوال ۔۔۔ یہ لیں ہم نے آپکو ہاتھ پکڑا دیا جدھر مرضی لے چلیں ۔۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔ تب انکی قاتلانہ نگائیں بہت چمکیں اور انہوں نے کہا ڈن اور ہاتھ تھاما۔۔ افففف جیسے بخار تھا انکو گرم سا لمس
میں نے کہا ارے آپکو تو بخار ہے۔۔ وہ کہتیں نہیں یہ بخار نہیں میرا خون بدلتے موسم میں تپ جاتا ہے جسکی وجہ سے میں جونک لگواتی ہوں ادھر ایک حکیم بابا ہے ۔۔ میں حیران سا انہیں دیکھنے لگا۔۔ کچھ دیر بعد ہم ایک پرانی حویلی پہنچے
پاکستان بننے سے پہلےکی قدیم حویلی ۔۔حویلی کی تعمیر اچھی تھی لیکن ۔۔ آجکل وہاں اجاڑ سماں تھا لگتا ہے رہائشی کو بنی بنائی حویلی مل گئی لیکن اب پیسے نہیں کہ آرائش کروا سکے۔۔۔ آگے ہال میں ایک ساٹھ ستر سالہ بابا بیٹھا ہوا تھ جسکے پاس کچھ پرانی کتابیں ۔۔کچھ سفوف اور معجونوں والے پلاسٹک کے ڈبے پڑے تھے
برآمدے کے سامنے ایک کچھا گڑھا تھا جس میں کیچڑ پانی مکس تھا اور ان میں کوئی چیز حرکت کر رہی تھی ۔۔ اففف خدایا وہ توموٹی موٹی جونکیں تھیں۔۔ عجیب سی لجلجی سی
میں حیرت سے گم ۔۔۔ آنٹی اس بابے کے ساتھ جانے کیا باتیں کرتیں رہیں ۔۔ کچھ دیر بعد وہ سنیاسی بابا اٹھا اور اس نے پاس رکھے چمٹے سے ۔۔چھ دات جونکیں پکڑیں اور انہیں باہر نکال لیا ۔۔ اتنی دیر میں آنٹی سامنے کھاٹ پر نیم دراز ہو چکیں تھیں ۔۔
سنیاسی نے پاس جا کر ۔۔ جونکوں کو ٹرے میں رکھا اور ساتھ رکھی شیشی سے کوئی محلول نکالا
اسکے بعد میری حیرت گم گئی جب اس نے آنٹی سے کہا چلو شلوار اوپر کرو اور کمر سے شرٹ ہٹا دو ۔۔۔
آنٹی نے فورا اپنی شلوار کو اوپر گھٹنوں تک چڑھایا۔۔ اور کمر سے شرٹ ہٹا دی۔۔ انکا نرم سفید جسم ۔۔۔ انکی ٹانگیں جن پہ ایک بال بھی نا تھا۔۔۔ لیکن مجھے حیرت ہو رہی تھی۔۔۔ سنیاسی نے پہلے لوشن لگایا انکی ٹانگوں اور کمر پر اور پھر ان پر جونکیں چھوڑ دیں ۔۔ جونکوں نے خون چوسنا شروع کیا اور آنٹی آنکھیں ہونٹ بند کیے برداشت کر رہی تھیں ۔۔جونکیں لہو پی کر کافی پھول چکیں تھین ۔۔ کچھ دیر بعد اس نے جونکیں اتار دیں اور آنٹی کو کوئی محلول پینے کو دیا جس سے آنٹی کچھ بہتر ہوئیں
سنیاسی بولا ۔۔ کتناکہا ہے گرم چیزیں نا کھایا کر۔۔یا گرمی نکالا کر
آنٹی کھسیا کر بولیں کیا کروں مجھے پسند بہت ڈرائی فروٹ اور گرمی کیسے نکالوں ۔۔ آنٹی نے میری طرف جھجک کر دیکھتے ہوے کہا
سنیاسی کچھ نا بولا ۔۔۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک شیشی میں محلول دیا اور کہا ۔۔۔ یہ بعد میں لگا لینا اور آنٹی اسے پیسے دیکر اٹھ گئیں ۔۔۔ میرے اندر ہزار سوال تھے
باہر نکل کر آنٹی بولیں ۔۔۔ تم حیران ہو گے ۔۔سب بتاونگی لیکن کچھ دیر بعد۔۔۔ چلو کچھ کھا پی لیں ۔۔ آنٹی بلڈ نکلنے سے کچھ مرجھا چکیں تھیں ۔۔۔ اور میرا سہارا لیے چل رہیں تھیں اور مین انکے جسم کی گرمی کو پھر سے محسوس کر رہا تھا
کچھ دور آگےایک وی آئی پی جوس اینڈ آئس کریم کارنر تھا۔۔آنٹی مجھے ساتھ لیے اس کیفے میں چلی گئیں۔۔بہترین پرائیویسی والے کیبن تھے ۔۔ آمنے سامنے صوفہ سیٹس اور درمیان میں شیشہ کا ٹیبل پڑا ہوا تھا۔۔۔ کچھ دیر بعد ویٹر آیا تو آنٹی نے اسے دو فریش ایپل جوس لانے کا کہا ۔۔۔ سرو کے بعد آنٹی نے اسے کہا کہ کچھ دیر بعد اسپیشل فروٹ چاٹ دے جانا ۔۔ میں گھونٹ گھونٹ جوس پیتے ہوے سوچ رہا تھا کہ یہ کیا سین ہے ۔۔ جونکیں لہو کی تپش ۔۔ سنیاسی کا مشورہ ۔میں انہی سوچوں میں گم تھا جب آنٹی نے میری آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی اور کہا کدھر کھو گئے ۔میں نے چونک کر انکی طرف دیکھا تو میرا سانس ہی رک گیا ۔۔ آنٹی نے بڑی چادر اتار کر سائیڈ پر رکھ دی تھی اور ٹیبل پر ہلکا جھک کر میری طرف دیکھ رہیں تھیں ۔۔ ایسے میں انکے بڑے بڑے بوبز جیسے باہر ابل رہے تھے ۔۔شرٹ کی تنگی کی وجہ سے دونوں بوبز آپسی جڑے ہوے تھے اور انکی کلیویج لائن مجھے ساکت کیے ہوے تھی۔۔۔ آنٹی نے ہلکی سی لپسٹک بھی لگائی ہوئی تھی اور بند کیفے میں ان سے پھوٹنے والی خوشبو میں جیسے مدہوش سا تھا۔۔۔ اول اول کی جوانی اور ایسا نظارہ ۔۔۔
عورت تو سادہ اور کم عمر بھی ہو تو خود میں دلچسپی جان جاتی ہے اور وہ تو اچھی خاصی تجربہ کار خاتون تھیں وہ جان چکیں تھیں کہ میں ان میں دلچسپی لے رہا۔۔۔ مسکرا کر بولیں۔
تم حیران ہو رہے ہوگے میں بتاتی ہوں تمہیں ۔۔۔ ہم بٹ ہیں ۔۔۔ کھانےپینے کے شدید شوقین ۔۔۔ مجھے مرغن کھانے اسپیشلی مچھلی پاے ڈرائی فروٹس اور انڈہ بہت پسند۔۔۔۔ ان سب کی وجہ سے میرا خون بہت گرم ہو جاتا ہے جیسے ہی موسم بدلتے ہیں ۔۔۔ اس وجہ سے میں جونکیں لگواتیں ہوں ۔۔۔ میں سر ہلاتا گیا۔۔۔ تمہاری بھابھی میری بھانجی ہے اور اسکے والدین کی وفات کے بعد وہ ہمارے ساتھ ہی رہتی ہے ۔۔ بعد میں اسکی شادی کر کے بہو بنا لیا۔۔۔ پچھلے دس سال سے ہم دونوں اکیلے ہی رہتے ہیں زیادہ تر۔۔۔ تمہارے انکل اور تمہارا بھائی ۔۔ تو بس ٹرک پہ ہی رہتے ہیں۔۔ انکے چہرے پہ افسردگی سی طاری ہوئی میں نے موقع مناسب دیکھ کر ہمت کی اور انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔ اب میں آ گیا ہوں نا آپکو رونق لگانے۔۔۔ ابھی تو آپ نے مجھے دنیا بھی دکھانی ہے ۔۔۔ میں نے ذومعنی انداز اپنایا۔۔۔ وہ ہنسی اور کہا بہت شوق ہے ۔۔۔ لیکن دنیا دیکھنا اور اس کو سنبھالنا یعنی ایڈجسٹ ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔۔ میں نے کہا مسلہ نہیں ۔۔۔ میں ہمت کا پکا ہوں
کچھ دیر بعد سپیشل فروٹ چاٹ آ گئی۔۔۔ جس میں ڈرائی فروٹ مکس تھا۔۔۔ اسکےبعد ہم واپسی کو چل دیے۔۔۔ راستے میں وہ بولیں ۔۔ میں تم پہ اعتماد کرتے ہوے تمہیں دنیا دکھا دونگی لہور گھما دونگی لیکن ۔۔ اس بات کا کسی کو پتہ نا چلے۔۔۔ اور یہ جو تم مستی والے فقرے بولتے ہو نا ۔۔انکا خیال رکھنا گھر میں کسی سامنے ۔۔۔ میں تابعدار بچوں کی طرح سر ہلاتا گیا۔۔۔ تب وہ بولیں ویسے ہو تم بہت تیز اور چکنے لونڈے ساتھ ہی زور سے ہنس پڑیں۔۔۔ گھر آ کر وہ اپنے کمرے میں ریسٹ کرنے چل دیں اورمیں اوپر کی منزل پر کمرے کی طرف ۔۔۔فریش ہوکر میں لیٹ گیا ۔۔۔ سوتے سمے خوابوں میں بھی مجھے آنٹی کی کمر اور بوبز ہی نظر آ رہے تھے اور میں خیالوں میں انہیں چھو رہاتھااور اسی خواب میں میرا لن سخت ہو چکا تھا اور ادھر ادھر سر مار رہا تھا ۔۔۔میں جانے کب تک سویا رہتا کہا میری آنکھ آنٹی کی آواز سے کھلی ۔۔ میں نے نیم آنکھوں سے دیکھا تو وہ آنکھیں پھاڑے میری طرف دیکھ رہیں تھیں ۔۔ میں نے انکی نظر کا تعاقب کیا تو ۔۔۔ میرا لن فل جوبن پر شلوار میں تمبو بناے کھڑا تھا۔۔۔ اپنی عمر اور سمارٹنیس کے باوجود میرا لن کافی تگڑا تھا جیسا کہ بتا چکا ۔۔ اور یہ کمال تھا خالص کھانوں اور ایکسرسائز کا جسکی وجہ سے میرا انگ انگ نکھر چکا تھا۔۔۔میں ہڑ بڑا کر اٹھا ۔۔۔ اور وہ بھی خلاف توقع مجھے نیچے آنے کا کہتی واپس چلی گئیں باہر اندھیرا پھیل چکا تھا ۔۔۔ میں جب نیچے اترا تو وہ بھابھی کے ساتھ رات کے کھانے کو ٹیبل پر رکھ رہیں تھیں کھانےکے بعد چائے کا دور چلا ۔۔۔اور پھر ایسے ہی ادھر ادھر کی باتوں میں وقت گزرتا گیا ۔۔۔ آنٹی اب کافی فریش اور نکھری نکھری تھیں ۔۔ میں نے نوٹ کیا انکی نظر بھٹک بھٹک کر میری ٹانگوں کے درمیان جاتی لیکن اب ناگ سو چکا تھا۔۔۔ مجھے محسوس ہوا کہ کھیل آخری مرحلوں تک آ پہنچا۔۔ اب شاٹس لگانے کی باری ۔۔نو بجنے والے تھے جب بھابھی یہ کہتے ہوے کہ آج تو میں بہت تھک گئی سارا دن آپکے بعد پیٹیوں کو کھول کر سردیوں کا سامان نکال کر سکھایا۔۔ گرمیوں کے کپڑے دھو کر واپس رکھے ۔۔ میں تو میں تو چلی اور ہم دونوں وہیں برآمدے میں ۔۔۔ ہلکی خنکی ہو رہی تھی ۔۔۔ خالہ نے مجھے کہا تم اوپر چلو ۔۔ میں تمہیں اپنا فوٹو فریم دکھاتی ہوںبس ابھی لاتی ہوں ابھی مجھے نیند کہاں ۔۔آج طبیعت کچھ بہتر تو چلو اوپر واک کر لیں گے ۔۔ مجھے لگا کہ بس ۔۔ آج رات کچھ ہو ای ہو
کچھ دیر بعد آنٹی البم اٹھاے اوپر آئیں اور میرےساتھ ہی پلنگ بیٹھ گئیں۔۔۔اور مجھے سب کی تصویریں دکھانے لگیں ۔۔ ایک تصویرکچھ سال پرانی تھی آنٹی سرخ لباس میں سینہ تانے کھڑی تھیں ۔۔۔ میں نےکہا اففففففف آپ تو قیامت ہیں بہت ہی گریس فل لیڈی۔۔۔انہوں نے اچھا جی کہا اور آگے بڑھنے لگیں تو میں نے کہا ایک منٹ البم دیں انہوں نے مجھے البم پکڑایا تو میں تصویریں پلٹتا انکی تعریفیں کرتا جا رہا تھا اور وہ بولیں کہ اب تو بڈھی ہو گئی نا۔۔ میں نے کہا بلکل بھی نہیں آپ تو اب سہی نکھریں ہیں میں نے سنا ہے عورت تیس کےبعد زیادہ سوہنی ہو جاتی ہے ۔۔ میں نے یکدم انکی عمر کو دس پندرہ سال نیچے لاتے ڈائیلاگ مارا۔۔۔ وہ بلش ہو گئیں ۔۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ ایک تصویر کے نیچے بھی تصویر ہے جیسے چھپائی گئی ہو ۔۔۔ میں اسے دیکھنے لگا تو انہوں نے کہا نو۔۔ نو اسے نہیں دیکھنا ۔۔۔ میں نے کہا کیوں جی اسے کیوں نہیں دیکھنا۔۔ وہ تھوڑا سا جھجھک کر بولیں بس کچھ تصویریں سب کو دکھانےوالی نہیں ہوتیں۔۔اچھا جی اب میں سب میں آ گیا میں نے البم کو دور کھینچا اور تصویر نکالنے لگا۔۔ وہ اچانک سے مجھ پر جھپٹیں ۔۔ لیکن کہاں ۔۔ میں بازو پرے کر پیچھے ہوا اور وہ میرےاوپر گر سا گئیں۔۔۔ ادھر میں نےتصویر کھینچی اور جیسے میری آنکھیں پھٹ گئیں ۔۔۔ تصویر میں آنٹی ایک سیکسی نائٹی میں ملبوس تھیں۔۔۔نائٹی کیا بس دو کپڑوں کے چیتھڑے ۔۔ انکے موٹےبوبز صرف برا میں تھے بس نپلز اور تھوڑے نیچےسے برا میں باقی اوپر سے کلیویج سب ننگی ۔۔۔اور انکی موٹی گانڈ جیسے نائٹی کے انڈر وئیر میں سے انکی موٹی گانڈ ۔۔۔اففف انکا پورا جسم سرخ سفید اور جیسے فل باڈی ویکسڈ تھی۔۔۔اب وہ میرےاوپرگری ہوئیں تھیں ۔۔۔ میرا بازو ہوامیں تھا اور میرا لن انکے تپتے وجود سے سر اٹھا رہاتھا ۔۔۔ انہوں نے میری طرف دیکھا۔۔ جیسے ایک سٹل سین ہو ۔ میں نےکہا واوووو سو سیکسی آنٹی ۔۔۔ آپ توکمال ہیں ۔۔۔ ادھرمیرے لن کے ٹوپے نے یعنی ناگ کے پھن نے آنٹی کی ٹانگوں کےدرمیاں سر ٹکرایا ۔۔۔ آنٹی کو جیسے ہوش سا آیا وہ پیچھےہٹیں اور کہا بد تمیز ۔۔ میں تصویرپر نظر جمائی اور کہا افففف چالیس بتایا تھا نا۔۔۔ کیا مست بڑا سینہ ہے ۔۔۔ میں نشیلے لہجے میں بولا ۔۔۔ جیسے کہیں مست گم ۔۔۔ میرا لن فل اکڑ کر جھومنے لگا ۔۔ تب انہوں نے کہا ۔۔۔ میرا سینہ بڑا ہے تو تمہارا سامان کونسا چھوٹا ہے ۔۔ میں چونکا ۔۔ انکی نظر میرے کھڑے لن پرتھی ۔۔ میرے لیٹے ہونے کی وجہ سے لن فل اوپر اکڑا کھڑا تھا۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ہاں لیکن اتنا بھی نہیں ۔۔۔ انہوں نے اپنی زبان ہونٹوں پر پھیری ۔۔ اور کہا عمر کے حساب سے بہت ہے ۔۔۔ ایک عجیب کیفیت ہم دونوں پر طاری تھی ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ میرا دل پتہ کیا کر رہا۔۔۔انہوں نے سرگوشی سے کہا کیا ۔۔۔ میں نے کہا میرا دل کر رہا ہے میں ان بوبز کو چھو لوں ۔۔۔ میری نظر تصویر پر جمی ۔۔۔ انہوں نے اسی کیفیت۔میں کہاتصویر تمہارے ہاتھ میں ہے چھو لو ۔۔۔ میں نے کہا لو اصل کے ہوتے نقل کو کون چھوتا ہے ۔۔ اور اس سے پہلے کے وہ سنبھلتی ۔۔۔ میں نے آگے نکل کر شارٹ مارتے ہوے ۔۔۔ اپنا ہاتھ بڑھایا اور تیزی سے ہاتھ کی پشت کو انکے سینےپر رگڑ دیا۔۔۔ افففف میرا ہاتھ کیا رگڑنا تھا جیسے وہ تڑپ اٹھیں۔۔ میں نےوہی ہاتھ واپسی گھمایا ۔۔۔اسبار ہتھیلی کا کھردرا لمس انکی کلیویج کو لرزاتا گیا۔۔۔ جیسے میں کسی ناگن کو چھیڑ بیٹھا۔۔۔ انہوں نے تیز سانس لی جو گرم سانس جس نے میری شدت کو ویسےہوا دی جیسے چنگاری کو پھونک۔۔۔ میں نے پورا ہاتھ انکی کلیویج پر سافٹ سے پھیرا ۔۔۔ کتابی علم اپنی مہارت آزمانے پہ تھا۔۔وہ ناگن کی طرح اٹھیں جیسے بے قراری ہو ۔۔ وہ باہر کو لپکنے لگیں ۔۔۔ میں سب کشتیاں جلاچکاتھا۔۔۔ ناگ اور ناگن جاگ چکے اب تو زہر دماغ چڑھ چکاتھا۔۔ میں انکے پیچھے لپکا اور اسی ہاتھ کو انکے شانے پر رکھ کر آگے کو پش کیا ساتھ پیچھے سے ٹکرا کر بولا۔۔۔آپ میں بہت زہر بھرا ہوا ہے۔۔۔ میری سرگوشی انکے کانوں کے پاس گونجی۔۔ انکے بالوں کا لمس افففف ۔۔ میں نےکہا آپکی لہو کی لہو کی تپش کا حل جونکیں نہیں ۔۔۔توکیا ہےوہ لرزتی پھنکارتی آوازمیں بولیں ۔۔ میں نے ماسٹر کلیہ مارا اور انکے شانے پر اپنے جلتے ہونٹ جما کر گردن تک پھیرے اور کہا ۔۔۔ یہ زہر میں چوس لوں۔۔ ساتھ ہی میں نے انکے شولڈر کو چوسا۔۔۔ میرا ہاتھ آگے سے سینہ پر پھر رہا تھا۔۔۔میں نےہاتھ کوبڑھایا۔۔ ہتھیلی کلیویج پر پھیری۔۔۔ اور پیچھے سے ناگ کا پھن انکی موٹی گانڈ میں دھنسا۔۔۔ اففففف وہ زور سے کسممسائیں ۔۔ ایسا کرنے سے الٹا لن اور اندر دھنسا اور انکی ٹانگوں کے بیچ ۔۔ افففففف لن ٹانگوں میں اور اسکے اوپرجیسے جلتا تندور۔۔۔ اوپر انکی پھدی کسی بھٹی کی طرح تپ رہی تھی۔۔ انہوں نے بے تابانہ ٹانگیں بند کیں ۔۔ ناگن کی جکڑ ۔۔۔ لن جیسے پھنس گیا میں نے ہاتھ بڑھایا اور انگلیوں سے نپل کو چھیڑنےلگا۔۔ انہوں نے اپنا سر میرے سینے پہ ڈال دیا ۔۔ میں تھوڑا سا ہلا ۔۔۔ لن پھدی سے رگڑ کھاتا آگےہوا۔۔ انہوں نے بے تابی سے آگے سے ہاتھ بڑھا کر جیسے ہی ٹوپے پہ رکھا انکی سسکاری نکلی ۔۔ ہاے میں مر گئی ۔۔۔لن کی شان اسکا ٹوپہ انکی ہتھیلی میں پھنسا ۔ انہوں نے ہاتھ کو دبایا افففف ۔۔ میں انہیں پلٹایا پلٹایااور سامنے لاتے ہوے لپس کو کلیویج سے اوپر تک لایا اور انہیں ساتھ لیتا بیڈ پر گرا۔۔۔ انکا سینہ اچھل رہاتھا اور ہاتھ ابھی تک لن پر جما تھا۔۔۔ میں انکے اوپر گرا اور اپنے گرم ہونٹ انکے ہونٹوں پہ رکھ کر چوسنے لگا وہ تڑپ گئیں ۔۔۔ انکا دوسراہاتھ میرے بالوں میں پھرنے لگا۔۔ میں نے اوپر سے ہی لن کو انکی پھدی کے اوپر رکھ کر ہلکاسا رگڑا ۔۔۔ اففففف وہ تڑپ اٹھیں۔۔۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر لن کوپکڑا اور اوپر نیچے کرنے لگیں ۔۔۔ میں تھورا نیچے ہوا اور انکے پیٹ سے شرٹ ہٹا کر لبوں کو پھیرتا بوبز تک لایا ۔۔۔ اور ایک جھٹکے سے برا کو اتارکر زبان کو نپلز کے گرد پھیرنے گا۔۔۔ افففف انکی سسکیاں انکی تڑپ ۔۔۔ ایسے ہی نپلز کے گرد گول گول زبان گھماتا اوپر نیچے۔پیٹ تک لاتا گیا۔۔۔وہ تڑپ رہیں تھیں ۔۔۔لن کو کھینچ رہیں تھیں ۔۔ میں نے فائن
فائنل وار کیا اور دوسرے ہاتھ کو انکے ٹراوزر میں داخل کیا ۔۔ ہتھیلی پھدی پر رگڑ کھائی انگلی پھدی کے لبوں پر ۔۔۔ افففف جیسے بھڑک رہی تھی ۔۔ پھدی کے لپس کھل بند رہےتھے۔۔۔ ساتھ پھدی کے منہ سے چھینٹے اڑ رہے تھے ۔۔۔میں نے ہتھیلی کو پھدی پر فل گھمایا جیسے پیسا ۔۔۔وہ تیز سسکیں ۔۔ ہاااااے مر گئی میں ۔۔میں نے انگلی کو لبوں پر پھیرنا شروع کیا۔۔۔ اور آہستہ سے ٹراوزر اتارتا گھٹنوں تک لے آیا۔۔۔ انکا حال بے حال تھا۔۔ میں سیدھا ہوا اورانکی ٹانگوں کو اٹھا کر سارا ٹراوزر اتار دیا۔۔اففففف سفید ویکسڈ ٹانگیں ۔۔۔ اور انکے درمیان لرزتی پھدی ۔۔۔ جو فل ویٹ ہو چکی تھی ۔۔ میں نے اپنے رخساروں کو انکی ٹانگوں پر رگڑا اور کھڑا ہو کر اپنا ٹراوزر اتاردیا۔۔۔۔ لن تیزی سے باہر نکلا ۔۔لن جھوم رہا تھا ۔۔۔ انہوں نے جو میرا ننگا لن دیکھا تو انکی آنکھیں چمک اٹھیں ۔۔انہوں نےہاتھ بڑھا کر لن کو پکڑا اور سہلایا ۔۔۔ افففففف انہوں نے زبان ہونٹوں پر پھیری ۔۔۔ میں جھکا اور انکی ٹانگوں کوتھوڑا سا کھولا ۔۔۔ وہ بیڈ پر میں اوپر کھڑا ۔۔۔میں جھکا اور لن کے ٹوپے کو پھدی کے دانےپررگڑا۔۔۔ دانہ فل موٹا ہو چکا تھا ادھر بوبز کے اکڑے نپل۔۔ میں بوبز نپل پر زبان پھیرتا اور پھدی کے دانے پر لن کی ٹوپی۔۔۔اففففف انکی پھدی جیسے جلتا تندور ۔۔۔ جانے کب سے پیاسی ۔۔ میں اور جھکا انکےہونٹوں کو ہونٹوں میں لیا ۔۔ اور ہلکا سا پش کیا۔۔۔ لن پھدی لپس میں سلپ ہوا ۔۔ہاااے آرام سے نا ۔۔۔ میں ایڈجسٹ ہوا اور ہلکا جھٹکا مارا۔۔۔۔ جوانی کا پہلا جھٹکا ۔۔۔لن کی کیپ پھدی لپس کو دھکیلتی اندر جا پھنسی ۔۔ جیسے کسی اندھیرے تندورمیں ۔۔ ناگ اور اکڑا ۔۔ میں تھوڑا اور جھکا اور نیچےکو پش کیا۔۔۔ افففففف لن آدھا اندر گھس گیا ۔۔۔ انکی تیز سسکی میرےہونٹوں میں دب گئی ۔۔۔انکی موٹی رانیں میرے گرد لپٹ گئیں ۔۔۔ ناگن کی قینچی ۔۔۔ میں رکا اور تیز جھٹکا مارا ۔۔۔ لن پھدی میں فل اندر تک گھس گیا۔۔۔ افففف انکی پھدی کی گرمائش آج تک نہیں بھولی ۔۔ جیسےلن کو فل جکڑ لیا پھدی کی دیواریں لرز رہیں تھیں ۔۔ میں پھر اوپر ہوا اور آدھا نکال کر پھر دھکا مارا انہوں نے شدت سے میرے بازو پر ناخن چھبوے ۔۔۔ دو چار دھکوں کے بعد وہ مزےسے کراہنے لگیں ۔۔انکی آنکھیں بند ۔۔ تنا بھاری اچھلتا سینہ اور بس ہاااے آہ ۔۔ ایسے ای۔۔۔ فل مار نا اندر۔۔۔ ہااااے دیکھ دیکھ لے دنیا ۔۔۔ انہوں نے مجھے للکارا
میں نے تکیہ لیا اور انکی کمر کے نیچے رکھا اور انکی ٹانگوں کوفل قینچی کرتے ہوے وحشی سٹروک مارے ۔۔۔ وہ جانے کب سے پیاسی تھیں۔۔۔انکی پھدی اب تیز جکڑ مار رہی تھی ۔۔۔ میرا تو تھا ای پہلا پہلا سیکس ۔۔۔ دونوں طرف آگ فل جوبن پر تھیں ۔۔۔ میں نے ٹوپے تک نکال کر جو دھکا مارا تو انکےمنہ سے ایک تیز سسکی نکلی اور پھدی جیسے لن کا سرمہ بنا دے ۔۔۔ انکی پھدی سے گرم پانی کا ریلا نکلا جو میرے ٹوپے سے کافی دیر ٹکراتا رہا۔۔۔وہ کانپتیں سسکتی کوئی منٹ سے اوپر فارغ ہوتی رہیں ۔۔۔ کچھ دیر بعدمیں نے پھر باہر نکال کر جو اندر کیا تو وہ ہااااے سواد آگیا ۔۔۔ میں دو چار سٹروک مارے وہ مدہوش ۔۔ مجھے لگا جیسے تیز خون میرےلن کی طرف دوڑ رہا ۔۔ میں وحشیوں کی طرح چار پانچ دھکے مارے اور میرے لن سے پہلے سیکس کے بعد تیز دھاریں چھوٹیں ۔۔۔پورے جسم میں جیسے سرور نشہ ۔۔۔ میں انکے اوپر گرتا گیا ۔۔۔ مدہوش۔۔۔ ایسے ہی ۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ بولیں آج تم نے برسوں کی ہیاس بجھا دی نعیم ۔۔ بس اب مجھے چھوڑنا نہیں
میں نے مدہوشی سے کہا ۔۔ آپ کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں بھلا میں ۔۔۔آپ تو میری زندگی میں آنے والی پہلی عورت ہیں ۔۔تھوڑی دیر بعد آنٹی اٹھیں۔۔۔ اور بیڈ سے نیچے کھڑے ہو کر شلوار پہننے لگیں ۔۔ رات کے بارہ بجنے والے تھے ۔۔۔ انہوں نے کہا تم بیٹھو میں آتیں ہوں ۔۔۔میں نے کہا آ جانا ۔۔۔ کہتیں بدھو اب کیا رہ گیا جو نہیں آنا ۔۔ اور اپنی موٹی گانڈ ہلاتی نیچے کو چلی گئیں ۔۔۔ انکے جانے کے بعد میں واش روم گیا ۔۔ افففف لن اور ٹانگوں پر دونوں کا پانی چپکا ہوا تھا۔۔ اور لن کی جلد ہلکی سرخی مائل ہو رہی تھی ۔۔۔ کیسے نا جلد سرخ ہوتی۔۔۔ تپتی پھدی سے جو ہو کر آیا تھا۔۔۔ افففف آنٹی کتنی شدت سے چھوٹیں تھیں۔۔ لن اور ٹانگوں کو صاف کر کے میں دوبارہ کمرے میں آیا اور آگے کا سوچنے لگا۔۔۔پہلی بار تو سب مدہوشی میں ہوتا گیا ۔۔ میرا دل اب ایک لمبے میچ کے لیے تڑپنے لگا ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد قدموں کی آواز آئی اور آنٹی ایک ٹرے اٹھاے کمرے میں آئیں ۔۔۔ کہتی نیچے عمبرین کو دیکھنے گئی تھی ۔۔۔ وہ تو گھوڑے بیچے سو رہی ہے ۔۔۔ ٹرے میں دودھ کا گلاس اور کچھ نمکو ڈرائی فروٹ تھا۔۔ انہوں نے دروازہ بند کیا اور میرے ساتھ چپ سے بیٹھ گئیں ۔۔جذبات کا دریا اترنے کے بعد اب وہ کچھ خاموش سی تھیں ۔۔ میں انکا ہاتھ پکڑا اور کہا ۔۔۔ آپ کچھ سوچ رہی ہیں ۔۔ وہ چپ رہیں ۔۔ میں نے اندازہ لگایا ۔۔آپکو اچھا نہیں لگا ۔۔۔ کہتی اچھے کی بات نہیں ۔۔۔ اچھا تو بہت لگا لیکن تم اس عمر میں ملے جب میں مایوس ہو چکی تھی ۔۔ اس ایج میں ایسا یارانہ کسی کو پتہ چل گیا تو ۔۔انکو معاشرے کا ڈر ستا رہا تھا۔۔۔میں نے انکا ہاتھ تھپکا اور کہا۔۔ کیسے پتہ چلے گا ۔۔کون بتاے گا ۔۔ اور اس ایج کیا مطلب آپ تو ابھی فل جوان ہیں ۔۔۔میں نے انگلی انکے ہاتھ پر پھیرتے ہوے کہا۔۔اور کہا ۔۔آپ ڈریں نہیں ۔۔۔یہ راز صرف ہم دونوں میں رہے گا ۔۔۔صرف ہم دونوں میں ۔۔۔وہ مسکرائیں اور کہا ۔۔۔ تمہارے انکل ڈرائیور ہیں تم جانتے ای ہو ۔۔۔اکثر سفر پہ رہتے ہیں ۔۔ شائد تم یقین نا کرو کہ سالوں بعد آج میں چھوٹی ہوں ۔۔۔شروع شروع میں وہ کافی سیکس کرتے تھے لیکن سفر اور متواتر بیٹھے رہنے کیوجہ سے اب انہیں زنگ لگنے لگا تھا۔۔۔ میں نے شرارت سے انکا ہاتھ اپنےلن پہ رکھا اور کہا۔۔۔ اسے تو زنگ نہیں لگا نا ۔۔۔ یہ کیسا لگا۔۔۔ وہ کہتیں افففف بہہہت کڑک ۔۔اندر تک گھس کر مارنے والا۔۔۔تمہارے انکل کا اتنا سخت نہیں ہوتا۔۔۔ میں نےکہا ابھی آپ نے دیکھا ای کہاں ۔۔۔ میری پہلی بار تھی ۔۔۔ آگے دیکھیے گا۔۔ اور انہوں نے شرما کر چہرہ جھکا لیا ۔۔میری نظر گھڑی پر پڑی ۔۔پونے ایک ہونے والے تھے ۔۔۔میں اٹھا اور دروازے کو بند کر کے کہا ۔۔ آئیں لیٹ کر باتیں کرتے ہیں۔۔اور ہم دونوں بیڈ پر ساتھ ساتھ لیٹ گئے ۔۔۔ میں نے انکا سر اپنے بازو پر رکھا اور انکی آنکھوں کو چومتے ہوئے کہا۔۔۔آپ کو پتہ ہے آپ بہہہت ہی نشیلی ہیں ۔ آمنے سامنے چہرے ۔۔میں ہلکا سا جھکا اوور کہا ۔۔۔ آپکے ہونٹوں کا رس ۔۔ یہ نشہ ۔۔ چوس لوں ۔۔ وہ بےتابی سے اوپر کو ہوئیں ۔۔ اور میں نے انگوٹھے سے انکے نچلے ہونٹ کو تھوڑا سا دبایا اور جیسے سیٹی بجاتے ویسے گول کر کے لبوں میں لے لیا۔۔۔اور سافٹ سے چوسنے لگا جیسے میٹھی ٹافی ۔۔۔ انکی سانسیں پھر سے بہکنے لگیں ۔۔ لیکن اب میں ٹسٹ میچ کھیلنا چاہتا تھا۔۔ ایسا میچ کہ پھر وہ کبھی بھول نا سکیں ۔۔۔ ایسے ہی لپسنگ کرتے کرتے میں ہلکا سا اوپر ہوا اور زبان کی نوک انکے لبوں پر لپسٹک کی طرح پھیرنے لگا ۔۔ وہ بے تابی سے زبان کو ہونٹوں سے پکڑنا چاہیں لیکن میں اور تڑپاتا زبان گالوں سے ماتھے تھک برش کرتا گیا۔۔۔اور اپنے ہاتھ سے انکی کمر اور موٹی گانڈ کو دبانے لگا۔۔ وہ پھر سے مست ہنکارے بھرنی لگیں۔۔بہہہت ہی حدت تھی ان میں۔۔کسی پریشر ککر کی طرح جیسے جیسے ابلتیں ویسے ویسے انکی سسکیاں سیٹی مارتیں تھیں۔۔میں نے ہاتھ بڑھایا ۔۔۔ اور ساتھ سائیڈ ٹیبل سے چاکلیٹ نکالی ۔۔ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگیں جیسے کہہ رہی ہوں یہ چاکلیٹ کا کونسا وقت ہے ۔۔ میں مسکرایا اور انکی شرٹ کو پکڑا اور کہا ۔۔۔ اسے اتار دیں نا ۔۔ وہ نشیلے لہجے میں بولیں ۔۔ خود اتار دو نا اور اپنے بازو اوپر کیے ۔۔ میں نے شرٹ کو اوپر کرتے ہوے اتار دیا ۔۔۔ اب بلیک برا میں انکے بوبز جیسے دودھ کے تھیلے۔۔۔میں نے چاکلیٹ کو ہاتھ میں پکڑ کر تھوڑا دبا کر پگھلایا اور تھوڑا سا انکی کلیویج پر گرایا۔۔اور انکے سمجھنے سے پہلے ہی کھردری زبان سے انکی کلیویج پر چاکلیٹ کو چاٹنے لگا۔۔۔ افففف وہ تڑپ اٹھیں ۔۔اور ہااااے ۔۔ یہ کیا کر رہے ہو یہ کیسا نشہ
میں نے برا کیپ کو اوپر کیا ۔۔ اففف انکے موٹے نپلز اکڑ رہے تھے ۔۔۔ میں نے نپلز کے اوپر اوپر زبان کو گھمانا شروع کیا اور چاکلیٹ کے ساتھ تازہ دودھ چوسنے لگا۔۔ انکی سسکیاں ۔۔ ہاے ہاے ۔۔ اففف
میں انکے موٹے نپلز کو لبوں میں لیکر اوپر سافٹ کھینچتا اور چوستا ۔۔۔پھر نیچے پیٹ سے ناف سے گردن کے ہول تک زبان کو اوپر نیچے برش کیا۔۔۔ وہ پورے بیڈ پر تڑپ رہیں تھیں۔۔ میرا لن پھر سے جاگ چکا تھا۔۔۔ اس بار اس میں اعتماد والی اکڑاہٹ تھی ۔۔۔ میں اٹھا اور اپنی شرٹ کو اتار کر وہ پھینکا ۔۔۔ اور انکے اوپر لیٹ کر اپنے سینے کو انکے بوبز پر رکھ کر ہلکا ہلکا جسم اوپر رگڑنے لگا۔۔۔ انکی آنکھیں لال کبوتر ہو رہیں تھیں۔۔وہ چہرہ اٹھا اٹھا کر میرے گالوں کو چومتیں۔۔۔ اور اپنے ہاتھ میرے بازووں پہ پھیرتی ۔۔ انکا گولو جسم بہت گداز تھا
ان کی بےقراری بڑھ چکی تھی۔۔ اور میں انکے بوبز کےساتھ مستیاں کر رہا تھا۔۔۔ میں نے انہیں کہا ۔ اپنی زبان باہر نکالیں نا۔۔ اور انکی نکلی زبان کوقلفی کی طرح چوسنے لگا ۔۔۔ ساتھ میرا ہاتھ انلے بوبز کو مسلنے لگا۔۔۔ افففف انکے بوبز اکڑ کر چھوٹے خربوزے جتنے ہو گئے تھے ۔۔ اب ناگن فل مست ہو چکی تھی۔۔۔ اسے بین دکھانا ضروری ہو گیا تھا۔۔ انکے ہاتھ لن کی تلاش میں ٹانگوں سے ٹکرا رہے تھے لیکن ابھی اور سسکانا تھا۔۔۔ میں بیڈ سے اترا اور اپنا ٹراوزر بھی اتار دیا۔۔۔ لن مست جھوم رہا تھا۔ اسکی کیپ جسے زہر کی عادت لگ گئی تھی پھول پچک رہا تھا۔۔۔ انہوں نے جو میرا لن دیکھا۔۔۔ اور سہی غور سے دیکھا تو انکے لبوں سے سیٹی سی نکلی ۔۔ اور بے تابی سے انہوں نے اسے ہاتھ میں پکڑ کر دبایا۔۔ لن اور سخت ہوا۔۔۔ نرم گرم ہاتھوں کالمس ۔۔۔میں نے انکے پاوں کو پکڑا اور تھوڑا اوپر اٹھا کر ۔۔۔ گانڈ میں اٹکی شلوار کو نیچے اتارنے لگا۔۔۔ اور ساری شلوار اتار دی۔۔ پہلی بار تو بس ایک مدہوشی تھی ۔۔ اسبار میں سہی سے انکا جائزہ لینا چاہتا تھا۔۔۔ انکی موٹی رانیں اففففف کیا لمس تھا۔۔ اور ان رانوں کے درمیان ہلکے بالوں سے سجی ۔۔۔ پھدی ۔۔۔ جسکے لب فل گیلے ہو رہے تھے پھدی کے لب کھل بند ہو رہے تھے جیسے خوراک کی تلاش میں ہوں۔۔ میں جھکا اور انکے پاوں سے رانوں تک ۔۔۔ زبان گھمانے لگا۔۔ افففف وہ اور پاگل ۔۔۔ ہاتھ سے لن کو کھینچ رہیں تھیں۔۔میں تھوڑا کھسکا ۔۔۔اور اپنے پورے ہاتھ کو انکی پھدی پر رکھ کر ڈھانپ دیا۔۔ اور مٹھی سے دبا دبا کرپھدی کو مسلنے لگا۔۔۔ انکی وحشی سسکیاں کمرے میں گونج رہیں تھیں۔۔ اب میری بس ہونے والی تھی ۔۔۔ لن اکڑ اکڑ کر درد کرنے لگا تھا۔۔۔ میں نے انہیں کھینچا اور کھڑا کیا ۔۔۔ اور ننگے جسم سے سخت جپھی لگا کر جسم کو ان کے جسم سے مسلنےلگا۔۔ انہوں نے دونوں ٹانگوں کو ملا کر لن کو بھنچ لیا۔لن کی اکڑ کو محسوس کرکے وہ ہااااے مر جانیا بولیں ۔میں ہلکا ہلکا ہلنے لگا لن پھدی کے اوپر اوپر میٹھی رگڑ دینے لگا۔۔۔ انہوں نے مجھے دھکا دیا۔۔۔ اور میرے اوپر آ گئیں۔۔۔اب ناگن کی باری تھی ۔۔ ناگن فل زہریلی ہو کر ڈسنے کو تیار
اب وہ میرے اوپر تھیں۔۔ انکے لٹکتے بوبز ۔۔ میں ہاتھ بڑھا کر انکو ہلکا سا مسل کر اور اور ابھار رہا تھا۔۔۔ انہوں نے اپنے دونوں بوبز کو میرے جسم پر پھیرنا شروع کیا ۔۔ اففففف کیا ہی سہانا لمس تھا۔۔ جدھر جدھر بوبز گزرے نپلزکالمس جسم میں کرنٹ دوڑاتا گیا ۔۔ میں نے بے تاب ہوکر دونوں ہاتھوں سے انکی گانڈ کو پکڑ اور دبانے لگے ۔۔ ہپ لائن میں انگلی سے مساج کرنے لگا جب میری انگلی انکی گانڈ کے سوراخ سےٹکرائیں تو انہوں نے تیز جھرجھری لی۔۔۔اور میرے لن کو بوبز میں دبا کر رگڑنے لگی اففففففف میرا لن پھٹنے کو تھا۔۔۔ تب وہ تھوڑا جھکیں۔۔ اور دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ کر لن کے بلکل اوپر پھدی کو رکھا۔۔۔ اففففف پھدی سے گرم پانی ٹپک رہا تھا۔۔۔ میں اپنے ہاتھوں سے انکی گانڈ پر ہلکے ہاتھ مارنے لگا۔۔ پھدی کو بلکل کیپ پر رکھ کر وہ ہلکا سا بیٹھیں ۔۔۔ اففففففف لن کی ٹوپی اندر کو دھنسی ۔۔۔ انہوں نےگہری سانس لی ۔۔۔ میں تابی سے انکی سفید رانوں پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔۔ وہ تھوڑا سا رکیں اور ایک انچ کے قریب لن کو اور اندر لیا۔۔۔میں نے ہلنا چاہا تو وہ سرگوشی سے بولیں ۔۔۔ نہیں تم بس لیٹے رہو مجھے محسوس کرنےدو۔ میں نے اپنے ہاتھ کو بڑھایا اور انگوٹھے سے پھدی کےدانے کو ہلکا سا رگڑنے لگا۔۔۔ افف جیسے انہیں کرنٹ لگ گیا ہو وہ تھوڑا تھوڑا کر کے بیٹھتیں گئیں۔۔ اب آدھا لن انکے اندر دھنس چکا تھا۔۔۔اب میرے ضبط کا بندھن ٹوٹنے والا تھا۔۔۔ میں نے ہاتھ انکے کندھوں پر رکھے ۔۔ اور تھوڑا رک کر ۔۔ نیچے سے اوپر کو تیز پش کیا۔۔۔ لن پھدی کو چیرتا ہوا بچہ دانی تک جا پہنچا ۔۔۔انکی تیز ہاے امی جی مر گئی نکلی ۔۔۔ ظالما مار سٹیا ای ۔۔۔ انہوں نے ہونٹ کاٹے
میں نے کندھوں پر پکڑ رکھی اور انہیں اوپر کھینچا۔۔ انکے ہونٹ میرے ہونٹوں میں تھے ۔۔اور وہ ہاتھ میرے سینے پر ۔۔ ایسے جھکی ہوئی میں باہر نکال کر نیچے سے پھر اوپرکو مارا۔۔۔ اففففف انکی سسکیاں۔۔ انہوں نے جیسے میرے ہونٹوں کو چبانا شروع کر دیا ۔۔میں اندر باہر کرتا رہا۔۔۔اپنے بھاری بدن کی وجہ سے وہ اوپر شائد تھکنے لگیں تھیں میں انکو اوپر سے اتار اور انہیں کہا ۔۔ گھوڑی بن جائیں ۔۔۔ میں انکی گانڈ پر مر مٹا تھا۔۔۔ گوری چٹی موٹی گانڈ۔۔۔ گھوڑی بنا کرمیں پیچھے سے انکی کمر کو چاٹنا شروع کیا اور ہاتھوں سے انہیں سافٹ مسلنا شروع کیا ۔۔۔ وہ میرے دھکوں سے کبھی آگےکو گرتیں۔۔میں کندھوں سے واپس لاتا۔۔۔ میں نے ایک ہاتھ سے پاس پڑا انکا بریزیر پکڑا اور لن کو جو باہر نکالا تو تیزی سے بریزیرسےلن کی چکناہٹ کو صاف کیا اور جو خشک لن کو جما کر دھکا مارا تو انکی تیز سسکی نکلی ہاے میری پھدی پھٹ گئی ۔۔میں تین چار ایسے دھکے مارے انکی سسکیاں اب مزے سے فل تھیں ۔۔ وہ تیزی سے اپنی گانڈ ہلانے لگیں۔۔۔ ہلاتے ہلاتے ہااااااے میری جان ہور اندر کر ۔۔انددددر اوور افففف کرتے انکی پھدی نے سکڑنا شروع کیا۔۔۔۔ لن دوسرا میچ بھی جیت چکا تھا۔۔۔۔ پھدی نے برسنا شروع کیا اور آنٹی مدہوش۔۔۔انکے چھوٹنے سے پھدی کی چپ چپ میں دو چار دھکے مارےمیرا بھی اینڈ تھا ۔۔۔ میں نے لن باہر نکالا اور اس سے پہلے کہ آنٹی کو پتہ چلتا میں نے لن کو گانڈ کےسوراخ پہ رکھا۔۔۔ انکے چھوٹنے سے گیلا لن ۔۔ اور دھکا دیا۔ انکی بلند ہاااے وے مر گئی نکلا لیکن میں نے سنی ان سنی کر دی ۔۔۔ آنٹی نےنکلنا چاہا لیکن میں بس چھوٹنے والا تھا۔۔۔ میں نے فل وزن گرایا اور پورا لن اندر ۔۔۔ ہاااااااے او میری بنڈ ۔۔۔ او منڈیا ۔۔ آنٹی کے منہ سے پنجابی نکلنا شروع ہوئی ۔۔۔ تنگ موری کی گرمی نے لن کو پگھلا دیا۔۔۔ اور میں تیز دھار سے چھوٹتا گیا اور انکے اوپر مدہوش گر گیا۔۔۔
اول اول کے سیکس کےبعد کی مدہوشیاں عجیب ہی ہوتیں ۔۔۔مرد بن جانے کا احساس۔۔ اک سرشاری اک مزہ میں کب نیند کی وادی میں گم ہوا پتہ نہیں چلا۔۔ اگلی صبح میری آنکھ کمرے کے دروازے پر دستک سے کھلی ۔۔۔۔ میں نے اٹھ جانے کی آواز دی ۔۔ اور جلدی سے کپڑے پہن کر دروازہ کھولا ۔۔ آنٹی دو بار چدنے کے بعد کب گئیں مجھے علم نہیں تھا۔۔۔ باہر عمبرین بھابھی تھیں۔۔وہ ہی گہری چپ آنکھیں اوور سادہ سا حسن ۔۔۔ میں دروازے سے ہٹا اور انہیں اندر آنے کا کہا۔۔۔ وہ وہیں سے بولیں ۔۔۔نہیں بس میں اٹھانے ای آئی تھی ۔۔ اٹھ جاو بارہ بجنے والے ہیں ۔۔۔ کتنا سوتے ہو تم ۔۔انہوں نے بڑی ہونے کے ناطے تنقید کرنا واجب سمجھا۔۔۔انہیں کیا خبر تھی رات ہم نے دنیا گھومی ۔۔۔ میں بس مسکرا دیا اور کہا ۔۔۔ اندر آجائیں ۔۔ آپکا گھر اپنا گھر ہے میں نے ماحول بنانے کی کوشش کی ۔۔۔ آنٹی کو چودنے کے بعد میرا عجیب سا حال تھا سرشاری سی جیسے جانے کیا معرکہ مار لیا ہو ۔۔ اس عمر میں ایسا ای ہوتا ہے ۔۔ مردانگی کا احساس۔۔۔ عورت کو جاننےکی فطرتی خواہش کے پورے ہونے کے بعد اس ایج میں جب عورت کاجسم ایک پراسرار وادی کی طرح ہوتا ہے اور میں اس وادی میں قدم رکھ چکا تھا۔۔ کسی خونخوار وحشی کی طرح جسے انسانی گوشت کا نشہ لگ چکا۔۔۔۔واہ ۔۔ کمرہ تو بڑا سیٹ کر رکھا ہے تم نے ۔۔ انہوں نے ڈریسنگ ٹیبلز پر میرے ہرفیومز اور اور سامنے بک ریک میں میری بکس ناولز شاعری وغیرہ کو دیکھتے ہوے کہا ۔۔ہاں مجھے پرفیومری اور بکس کا بہت شوق ہے ۔۔ واہ ۔۔ بکس کا تو مجھے بھی بہت شوق ہے ۔ کسی دن دیکھوں گی تمہاری کولیکشن ۔۔۔
اس وقت تو میں یہ کہنے آئی ہوں جلدی سےتیار ہو کر نیچے آو ۔۔۔ آنٹی کو بخار ہو گیا ہے اور جسم بھی بہت دردکر رہا ۔۔۔انہیں دوائی لا دو ۔۔۔۔ میں نے شام کو سہیلی کےگھرجانا تھا ۔۔۔وہی جسکی شادی ہے ۔۔ اسکے سسرالی آ رہے شام کو دلہن کا جوڑا دینے ۔۔ اب خالہ کی پریشانی ۔۔ شام تک سنبھلیں تو جاوں نا۔۔۔۔۔ وہ ناداستگی میں اپنی پریشانی بول گئیں۔۔۔ اور جلدی آنے کا کہہ کر واپس لوٹ گئیں ۔۔۔۔ میرے اندر کمینی خوشی جاگی خالص مردانہ کمینی سوچ کہ دیکھا توڑ کے رکھ دیا ۔۔ مجھے کیا خبر تھی کہ عورت کو ہرانے کے لیے پھر یہی مرد طاقت کی گولیاں کھلاتا ہے ۔۔۔ مردانہ کمزوری کا شرطیہ علاج لکھے سے دیواریں بھری پڑی ۔۔ یہی تلخ حقیقت ہے۔۔۔ اسی کمینی خوشی کے ساتھ میں نے بھابھی کو جاتے دیکھا ۔۔۔ بہت ہی لچکیلا اور آفت جسم تھا اور انکا چلنا اففففف
میں فریش ہو کر نیچے آیا۔۔بھابھی برآمدے میں رکھے میز پر شائد میرا ہی ناشتہ رکھ رہیں تھیں ۔۔میں آنٹی کا حال پوچھ لوں کہتا آنٹی کے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ آنٹی کمبل لیے سرخ چہرہ سرخ آنکھیں لیے بستر میں پھنک رہیں تھیں ۔۔ میں نے پاس جا کر کہا کیا ہوا آنٹی رات کو تو بھلی چنگی تھیں ۔۔۔انہوں نےمصنوعی غصیلے نخریلے انداز میں کہا جیسے تمہیں پتہ نہیں۔۔۔ یہ آخر میں کیا حرکت تھی۔۔۔ میں کمینہ سا ہنسا بس آنٹی آپکی حسین سیکسی گانڈ دیکھ کر میں رہ نہیں سکا۔ وہ مسکرائیں اور کہا مجھے پتہ ہے لڑکوں کو گانڈ کی تنگ موری کا بہت شوق ہوتا ہے ۔۔۔ کپھت بولیں ویسے رات تو تم نےسچی مجھے تھکا ای دیا۔۔۔ بڑی مشکل سے نیچے آئی۔۔ میں قریب آیا انکے ماتھے کو چھوتے ہوے کہا ۔۔۔ مزہ بھی تو آیا نا۔۔۔ وہ بولیں ہاں مزہ تو بہت آیا۔۔۔ بہت سالوں بعد ایسا مزہ ۔۔۔میری سمجھو لہو کی تاپ ابھی کچھ ٹھنڈی ہوئی ۔۔۔۔اور پریشان نا ہو یہ سیکس کے بعد کی گرمی ہے مجھے ہونی تھی اتنے سالوں بعد جو کیا۔۔ پھر بھی عمبرین کی تسلی کے لیے میڈیسن لے آو۔۔۔ میں نے کہا آپکو ٹیکا لگوانا چاہیے ۔ساتھ ہی انکا ہاتھ لن سے لگایا۔۔ انہوں نے جلدی سےہاتھ کھینچا اور کہا جی نہیں ۔۔اور اب تم جاو عمبرین باہر ہے اچھا نہیں لگتا۔۔ ناشتے کے بعد میں دوائی لاکر اپنے کالج کی بکس دیکھنے کے بہانے باہر کھسک آیا۔۔لہوری رونق ۔۔ ادھر ادھر پھرتی ایک سے بڑھ کر ایک حسین آنٹی اور لڑکی ۔۔ انکے درمیاں میں۔۔ اول تو چھوٹے گاون سےشہر کی رونق کانشہ اسکے اوپر نیا نیا مردانگی کا نشہ۔۔۔مجھے ہوش اس وقت آیا جب شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔۔ جلدی سے گھر کو نکلا تو گھر آنٹی اور بھابھی پریشان ۔۔۔آنٹی نے مجھے دیکھا ت سکھ کا سانس لیا البتہ بھابھی کچھ غصے میں تھیں تب مجھے یاد آیا اوہ بھابھی نے تو سہیلی گھر جانا تھا۔۔۔ میں بولا ارے بھابھی آپ گئی نہیں ۔۔۔وہ تنک کر بولیں نواب زادے آتے تو جاتی نا۔۔خالہ کی طبیعت قدرے بہتر ہے لیکن انہیں اکیلا کیسے چھوڑ سکتی تھی انکے اندر فرمانبردار بھانجی بہو جاگی ہوئی تھی اور خالہ کو تمہاری ٹینشن کہ منڈا گواچ نا جاوے ۔۔۔میں شرمندگی سے بولا چلیں ابھی وقت ہے ۔۔۔آپ تیار ہوجائیں ۔۔۔ خالہ بولیں ہاں عمبرین تم جلدی سے تیار ہو لو ۔۔ اندھیرا پھیل چکا ہے اسوقت اکیلی کیسے جاو گی۔۔ نعیم تم بھی جلدی سےمنہ ہاتھ دو لو بھابھی کو دو گلیاں پیچھے سہیلی کے گھر چھوڑ آو اور اگر کسی نے بیٹھنے کا بولاتو رک جانا دو منٹ ۔۔۔ کیا کہیں گے شازیہ کی سہیلی کا بیٹا کتنا غیر مہذب۔۔۔کچھ دیر بعد ہم دونوں تیار تھے ۔۔ باہر نکلتےساتھ ہی میں نے مہذب بنتے ہوے دلی معذرت کی
اور انہیں بتایا کہ یقین کریں مجھے پتہ نہیں چلا اتنا وقت گزر گیا۔۔میری معذرت پر وہ سادہ بندی خوش ہو گئی اور کہتیں چلو کوئی بات نہیں۔۔۔ بھابھی نے بڑی سی چادر لے رکھی تھی ۔جس سے انکی باقی تیاری تو گم تھی ہاں چادر میں سے کھنکھنے کی آواز چوڑیوں کا بتا رہیں تھیں ۔۔ چوڑیوں کی کھنک ۔۔ان دنوں ہر لڑکے کو لبھاتی ہے مجھے بھی اچھی لگی یہ کھن کھن۔۔آنٹی کی امید کے عین مطابق مجھے سہیلی کی ماما اندر لے گئیں اور کہا نا ۔۔۔ چاے یا پانی پیے بنا جانا ممکن ہی نہیں۔۔۔اندر ابھی مہمان نہیں آئے تھے ۔۔ لیکن رونق کا سماں تھا۔آنٹی اندر کے سٹنگ روم میں مجھے لے گئیں اور وہاں بٹھا کر میں ابھی آئی کہتی باہر کو نکلیں ۔بھابھی نے اندر آکر جب چادر اتاری تو سمجھیں پورے کمرے میں روشنی سی پھیل گئی۔۔ انہوں نے اجرک سوٹ پہن رکھا تھا۔۔ ان دنوں نیا نیا اجرک سوٹ چلا تھا۔ بہترین تراش کے ساتھ ۔۔ انکا آفت جسم کسی مورتی کی طرح ۔۔ ہاف سیلیو بازووں میں چوڑیاں ہلکی سی لپسٹک جو انکے ہونٹوں کو اور آتشیں کر رہی تھی۔۔ہلکے کھلے بال ۔۔اور وہ ہی ادا آنکھیں میں مبہوت سا ۔۔۔انہیں دیکھتا گیا
پاس بھاگتے بچوں نے میرا انہماک توڑا ۔۔۔ میں تھا تو ایک انیس سالہ لڑکا ہی نا۔۔ اس عمر میں لڑکیوں میں شدید دلچسپی فطرتی ہوتا ہے۔۔۔ سیکس کر چکنے کے باوجودمیرے اندر ابھی نوجوانوں والے عشقیہ جذبات ہنوز باقی تھے۔۔۔ بھابھی میرےسےتھوڑا ہی بڑی تھیں ۔۔۔ ان کی طرف میلان قدرتی امر تھا۔۔ انکا سادہ چہرہ اور اداس آنکھیں ۔۔ مجھے بہت پہلے پڑھی نظم اداسی کی ملکہ یاد آ گئی ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد میزبان آنٹی لوازمات سے بھری ٹرالی لیے کمرے میں آئیں ۔۔ انکے ساتھ ایک میری ہی عمر کا لڑکا بھی تھا ۔۔۔ وہ لڑکا انکا بیٹا تھا ۔۔ چائے پیتے میں اس سے باتیں کرنے لگ پڑا۔۔ اسکا نام ناصر تھا اور وہ فرسٹ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا۔۔۔جلد ہی ہم کافی گھل مل گئے ۔۔ کچھ دیر بعد میں اجازت لیکر وہاں سے اٹھنے ہی والاتھا کہ اچانک گھر میں ویل کم ویل کم جناب کی آواز ابھری اور آنٹی ۔۔ لگتا سمدھیانہ آ گیا کہتیں باہر کو لپکیں ۔۔۔ میں گومگو نکلنے کا سوچنے لگا تھا کہ سٹنگ روم کا دروازہ پھرسے کھلا اور آنٹی کےساتھ ایک پچاس پچپن سالہ انکل ۔۔ ایک انہی کی عمر کی آنٹی اندر داخل ہوئیں ۔۔۔ پتہ چلا کہ یہ عمبرین کی سہیلی یعنی نائلہ کے ساس اور سسر ہیں ۔۔۔ان سے سلام دعا ہوئی ۔۔ اور میں وہاں سے واپسی کو نکل آیا۔۔
دن بھر کی بھاگ دوڑ اور رات کی تھکن نے مجھے بھی کافی تھکا سا دیا تھا۔۔۔ میں نے ڈپلی کیٹ چابی جو میں ساتھ لے آیا تھا سے دروازہ کھولا اور اپنی موج میں اوپر کمرے میں جا کر لیٹ گیا ۔
لیٹے لیٹےمیری کب آنکھ کھلی پتہ نہیں چلا ۔۔۔میری آنکھ بیل بجنے کی آواز سے کھلی ۔۔ میں آدھا سویا آدھا جاگا ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ انٹرکام کی بیل بج رہی تھی ۔۔ میں نے ریسور اٹھایا تو دوسری طرف بھابھی تھیں ۔۔۔ میں نے غنودہ آواز میں ہیلو کہا تو وہ بولیں۔۔۔ لگتا تم خالہ بھانجے نے سونے کا مقابلہ لگا رہا۔۔۔ میں شرمندہ ہو گیا ۔۔۔ کہتیں کھانا تو تم نے نہیں کھایا ہو گا ۔۔ جلدی سے نیچے آ جاو ۔۔۔میں کھانا لگانے لگی ہوں۔۔۔کھانے کے ذکر سے مجھے بھی احساس ہوا کہ میں صبح ناشتہ کے بعد جو مٹر گشت کو نکلا تو کچھ نہیں کھایا ۔۔ جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر میں نیچے آیا۔۔۔خالہ کا پوچھا تو کہنے لگیں بہتر ہیں اب ۔۔ میں کچھد دیر پہلے ہی ناصر کے ساتھ آئی ہوں۔۔۔میں انکو کھانا کمرے میں دے آئی ہوں ۔۔ تم پہلے کھانا کھا لو ۔۔ پھر جا کر انکا حال پوچھ لینا ۔۔۔ وہاں ہی چائے پئیں گے۔۔۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔۔۔ میں نےکہا چلیں گڈ ہے میں کچن میں ہی آ جاتا ہوں ۔۔ ایویں برآمدے میں کھانا رکھو پھر اٹھاو ۔۔۔انکی سہولت کی بات تھی وہ سر ہلا دیں۔۔۔میں انکے پیچھے پیچھے چل دیا ۔۔۔ کمروں کے برعکس کچن قدرے تنگ سا تھا۔۔۔۔ایک سائیڈ میں کچن میں رکھی کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔انہوں نے کھانا میرے سامنے رکھا اور خود سینک پر برتن وغیرہ دھونے لگ پڑیں۔۔انہوں نے اجرک والے کپڑے تو بدل لیے تھے لیکن چوڑیاں ابھی پہنیں تھیں۔۔ برتن دھوتے چوڑیوں کی جلترنگ میرے دل کی تان کو بہکا رہیں تھیں۔۔۔
شائد انہیں میرا نظر جما کر دیکھا حس کر گیا تھا ۔۔ وہ اچانک سے مڑیں اور کہا کیا دیکھ رہے ہو ۔۔ پکڑائی دینے پر میں نے ہمت کی اور کہا ۔۔ مجھے چوڑیوں کی کھن کھن بہت اچھی لگتی ہے۔۔ اکثر ناولوں میں ہیرو چوڑیوں کا گفٹ دیتے تو پڑھائی کا ذہن پہ اثر
ہممم لگتا ناول بہت شوق سے پڑھتے ہو تم ۔۔انہوں نے برتن دھوتے دھوتے کلام جاری رکھا۔۔۔ ہاں جی ۔۔ پتہ کالج لائبریری میں ساری کی ساری کنگھال ماری تھی ۔۔ آپکو نہیں پسند ناول ۔۔ میں ہاں مجھے بہت پسند ۔۔ واااو کون لکھاری زیادہ پسند۔۔۔ کہتیں فرحت اشتیاق ۔۔۔وااااو فرحت اشتیاق واقعی وہ کمال لکھتی ہیں ۔۔انکے کردار ان کرداروں کے جذبات ۔۔ بہہت ہی آرٹسٹک اور رومانی میں روانی میں بولتا گیا ۔۔۔ رومانی کا سن کر انکے چہرے پہ ہلکی سی لالی گزری ۔ لگتا ای نہیں تھا وہ میریڈ ہیں۔۔۔ آہستہ آہستہ ہمارے درمیان اجنبیت کی دیوار گرنے لگی تھی ۔۔۔ میں تو رات کو سوتے وقت کچھ نا پڑھوں تو نیند نہیں آتی مجھے ۔۔آپکو لینے ہوئے تو آپ بلا جھجک کوئی بھی ناول لے سکتی ۔۔۔ تھینکس وہ مسکرائیں ۔۔ اور کہا کل دن میں آرام سے سرچنگ کروں گی ۔۔۔ تم نے کھانا کھا لیا تو چائے رکھوں ۔۔۔تب تک تم خالہ کا حال پوچھ لو ۔۔۔ انہوں نے گویا طریقے سے بات کو بدلا ۔۔
میں سر ہلاتا اٹھا اور آنٹی کے کمرے کو چل دیا ۔۔۔ اندر کمرے میں آنٹی بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی کوئی ڈرامہ دیکھ رہی تھیں ۔۔۔ مجھے دیکھتے ساتھ ہی انکی آنکھوں کی چمک بہت بڑھ گئی۔۔۔میں چلتا ہوا انکے پاس گیا اور انکے ماتھےپر ہاتھ رکھ کر بولا اب کیسی طبیعت آنٹی کی ۔۔۔ آگیا یاد پتہ کرنے کا ۔۔۔ انہوں نے خفگی سے کہا ۔۔۔ سارا دن باہر دنیا دیکھتےرہے اور پھر نائلہ کےہاں سےواپس آ کر بتایا ای نہیں اور اوپر سو گئے ۔ میں نے فورا ڈائیلاگ مارا۔۔ ارے آنٹی کیسی دنیا کہاں کی دنیا۔۔۔ ہم نے جو دیکھنا تھا دیکھ لیا اور وہ دنیاہی ہماری آنکھوں میں بس گئی۔۔۔ میری تعریف سے وہ بلش ہوئیں ۔۔ میں ہلکا پاس آیا اور کہام۔ رہی بات سونے کی تو ۔۔۔ آپ کا نشہ ہی طاری اب تک اسی نے مست کیے رکھا۔۔ میں نے جھک کر انکی گردن کےپاس گہرا سانس لیا۔۔۔ یہ خوشبو یہ نشہ ۔۔۔ وہ جلدی سے پیچھے ہٹیں اور کہا۔دھیان رکھو عمبرین آنے والی ہو گی ۔۔۔ میں نے کہا نہیں آتیں ابھی ۔۔ مجھے سونگھنے تو دیں ۔۔۔۔ میں نے بہکنے سےانداز میں کہا۔۔۔وہ ہلکا سا سمٹیں ۔۔ اس سے پہلے کہ اور بات ہوتی بھابھی کےآنے کی چاپ سنائی دی ۔۔ میں جلدی سے ذرا ہٹ کر کرسی پہ بیٹھ گیا ۔۔۔ہم تینوں چائے پینے لگ گئے۔۔۔بھابھی کے سامنے آنٹی ایسی شفقت سے پیش آتیں جیسے میں واقعی انکا بھانجا بھتیجا ہوں۔۔ایسا کرنے سے انہی کا فائدہ تھا ۔۔ کسی کو کسی قسم کا شک نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔ میں اناڑی سہی ۔۔ وہ تجربہ کار تھیں ۔۔۔ چائے پینے کے بعد اچانک سےآنٹی بولیں۔۔۔آج سارا دن کمرے میں رہ رہ کر میرا تو دل ہی بوجھل ہو گیا ہے۔۔۔ اوپر سے دن کو سو لیا ۔۔ کیوں نا کچھ وقت چھت پر ٹہل لیں ۔۔ کیوں عمبرین۔۔ کیا بات کرتی ہیں خالہ ۔۔ دن بھر آپکو بخار تھا۔۔۔اب بدلتےموسم میں اوپر چھت پر ۔۔۔کچھ نہیں ہوتا۔۔ تمہیں پتہ تو ہے میرا لہو تاپ مارتا ۔۔ انہوں نے جینوئن بہانہ گھڑا۔۔کیا کہتے ہو نعیم انہوں نے مجھ سے بھی پوچھا۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا میں توہوتا ہی چھت پہ ہوں مجھے کیا مسلہ ۔۔ میں نے آنٹی کے پروگرام کو سمجھتےہوئے بات بڑھائی۔۔لیکن اماں ۔۔۔ آپ ہی تو کہتیں رات کو اوپر چھت پر نہیں جاتے۔۔ بھابھی نے یاد دلایا۔۔ ارے میری مت ماری گئی انہوں نے ماتھے پہ ہاتھ مارا اور کہا اچھا یاد کرایا ۔۔ تم آرام کرو ۔۔۔میں کچھ دیر ٹہل کر آ جاتیں ہوں ۔۔ ساتھ دیکھوں نعیم نے کیسے کمرہ سجایا ۔۔ آجکل کے لڑکے تو لاپرواہ ہی لاپرواہ نکھٹو ۔۔ ارے نہیں خالہ بھابھی نے بات کاٹی ۔۔ آپکے بھانجے آپ پر گئے ہیں ۔۔۔ گانوں اور فلموں کے شوقین کافی سی ڈیز دیکھیں میں نے انکے ریک میں اور بہت سے ناولز بھی۔۔ خالہ بولیں بھئی اب تو لازمی جانا ۔۔۔ چل منڈیا مجھے ہاتھ پکڑ کر اٹھا ۔۔ انہوں نے خالہ کے روپ میں کہا۔۔۔۔میں آگے بڑھا اور انہیں تابعدار بھانجے کی طرح انکو مدد دی۔۔۔ اوپر کمرے میں آتے ہی آنٹی مجھے زور سے گلے ملیں اور کہا ۔۔۔ نعیم ۔۔۔۔ تم بہت ہی کمال کے لڑکے ہو۔۔۔ میں نے ساتھ لگتے ہوئے کہا سب آپکی محبت اور صحبت کا اثر ہے آنٹی ۔۔۔ ارے اب بھی آنٹی اب تو نام لو نا۔۔ وہ ناز سے بولیں ۔۔ میں نے کہا جی شازیہ جی شازو ۔۔ وہ مسرت سے گلنار ۔۔۔میں نے کہا شازو جی ۔۔۔ آپ میری زندگی میں آنے والی پہلی عورت ہیں ۔۔۔ وہ خوشی سے بولیں واقعی ۔۔ تم کنوارے لڑکے تھے ۔۔۔تب ہی ایسے مجنوں تھے ۔۔۔ اتنے بےدرد ۔۔۔ میں نے کہا درد میں مزہ بھی تو تھا۔۔۔
وہ مسکرائیں ۔۔۔ کہتی تم کمال رومانٹک ہو۔۔۔ لیکن ابھی تجربے کی کمی لگتی ۔۔۔ کل تو میں برسوں بعد مرد کے قریب آئی تو مدہوش ہو گئی۔۔۔اب وقت کےساتھ ساتھ تمہیں فل تجربہ کار بناوں گی ۔۔۔ ایسا مرد بناوں گی کہ جس عورت کے بھی پاس گئے وہ یاد رکھے گی ۔۔۔میں نے خوشی سے انکے ہونٹوں کو چوما اور کہا ۔۔ بس آپ آج سے میری استانی ۔۔
وہ کھکھلا کر ہنسیں ۔۔۔ اور کہا ڈن ہو گیا۔۔۔ لیکن میں پڑھاتی نہیں ۔۔۔میں نے حیرت سے کہا تو۔۔ کہتیں پریکٹیکل کر کے سکھاتی ۔۔میں نے انہیں پاس کھینچا اور کہا ۔۔۔میں سیکھنے کوتیار۔۔۔ کہتیں ۔۔۔ تو داخلہ پکا۔۔۔میں نے کہا فل پکا۔۔۔ تب وہ بولیں تو ٹھیک ہے ۔۔ ابھی میں جاتی ہوں ۔۔۔میں نے کہا کدھر ۔ وہ آنکھوں کو مٹکا کر بولیں ۔۔ جنہوں نے سیکھنا ہوتا ہے وہ استانی کےپاس آتے ہیں ۔۔ میں نے کہا نیچے ۔۔ وہ کہتیں ہاں ۔۔ میں بولا بھابھی ۔۔۔ کہتیں میں برآمدے کا بلب بند کر دوں گی ۔۔ بس کم از کم آج تمہیں میرے کمرے میں آنا ہے ۔۔ میں نے کہا ایسا کیا خاص ہے ۔۔ کہتیں بس ہے نا خاص۔۔۔ انکے جانے کے بعد میں نے جلدی سے سادہ شرٹ اور ٹراوز پہنا ۔۔ کپڑے جتنے کم اتنے اچھے ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد نیچے بلب بند ہو گیا اور صحن اندھیرے میں ڈوب گیا ۔۔۔ میں آرام سے چلتا ہوا ۔۔۔آنٹی کے کمرے کی طرف چلا گیا ۔۔ بھابھی کا کمرہ بند تھا اور اندر مکمل خاموشی اور اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔۔۔ آنٹی کا کمرہ برآمدے کے آخر میں تھا ۔۔۔ بیچ میں دو کمرے اور ایک لاونج سا آتا تھا۔۔۔ میں دبے پاوں جیسے ہی آنٹی کے کمرے میں داخل ہوا تو کمرہ ہلکی سبز روشنی اور ہلکی خوشبو سے مہک رہا تھا۔۔۔سامنے بستر پر آنٹی کمبل اوڑھے لیٹیں تھیں ۔۔۔ میں نے کہا واہ جی ۔۔ ہمیں بلا کر خود سو بھی گئیں۔۔۔ کمبل کے اندر سے آواز آئی سوئی نہیں دروازہ لاک کر کے کمبل ہٹا کرسرپرائز دیکھو۔۔۔ میں دروازے کو چٹخنی لگا کر جلد سے آیا اور جیسے ہی کمبل کو سرکایا میرا دل جیسے اچھل کررہ گیا۔۔۔۔کمبل کے نیچے بال کھولے ۔۔۔ ہلکی سی لپس ٹک لگائے ۔۔۔ اسی نائٹی میں سیکسی انداز میں لیٹی ہوئیں تھیں ۔۔ انکی موٹی گانڈ جیسے اوپر کو ابھری ہوئی تھی اور نائیٹی برا سے جھلکتے بوبز۔۔۔ میں بیڈ کے بلکل پاس ہوا۔۔۔انہوں نے اپنی سفید چکنی ٹانگ کو اٹھایا اور اپنے پاوں کے انگوٹھے سے میرے سینےکو کو ہلکا سا ٹچ کیا اور کہا ۔۔ کیسی لگی استانی ۔
0 Comments