Ishaq Awara 3


عشق آوارہ 3





بھابھی مجھے راستہ بتاتے ایک معیاری بک سٹور پر لےآئیں۔۔۔ نئےسال کی ڈائریاں آ چکیں تھیں۔۔۔جیسےہی ہماری نظر پڑی ہم دونوں ہی ادھر کو لپکے اور پھر خود ہی اپنی بے تابی دیکھ کر ہنس دئیے ۔۔ تمہیں بھی ڈائری لکھنے کا شوق ہے انہوں نے نقاب کے پیچھے مسکراتی آنکھیں ملاتے ہوئے کہا۔۔ بہہت زیادہ بلکہ سمجھیں میں تو سال کا خلاصہ لکھتا ہوں۔۔واااو ۔۔۔ امیزنگ۔۔ میں بھی لکھتی ہوں۔۔ ہم دونوں نے ڈائریاں لیں اور میرے اصرار کے باوجود ساری پیمنٹ انہوں نےہی کی ۔۔۔ بکس لینے کے بعد ہم سموسہ چاٹ کھانے کے لیے قریبی فوڈ کارنر گھس گئے ۔۔ لہوری تھیں ۔۔ کھانےکا چسکا شہر کی روایت ہے۔اور لہوری لڑکی چٹوری نا ہو ۔تو بھلی نہیں لگتی۔۔۔
یہ ایک سٹوڈنٹ کارنر ٹائپ فوڈ پوائنٹ تھا۔۔۔ سادہ لیکن صاف سا۔۔ تھوڑا ایک سائیڈ پر ہم دونوں ایک آمنے سامنے بیٹھ گئے ۔۔ وہاں دو چار اور بھی سٹوڈنٹس تھے۔۔ اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے تھوڑا رش تھا۔۔۔ بھابھی وہیں بے تابی سے ڈائری کو کھول کر نئے نئے خریدے فینسی لیڈیز پینسل سے ڈائری پر اپنا نام لکھنے لگیں ۔۔ چمکتی روشنائی سے چمکتا ہوا نام عمبرین رانی۔۔۔ میں نے کہا آپکی رائٹنگ بہت پیاری ہے بھابھی ۔۔ اب انہوں نے سامنے سے نقاب اتار دیاتھا اور صرف سر کے گرد سکارف تھا۔۔ سیاہ سکارف میں انکا گورا اور معصوم حسن بلکل کسی تیرہویں چودھویں کلاس کی لڑکی کی طرح کا۔۔ لگتا ای نہیں تھا کہ وہ شادی شدہ ہیں ۔۔میرےایسے بھابھی کہنے پر انہوں نے تیکھی نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا کون بھابھی ۔۔ کیسی بھابھی۔۔میں منہ کھولے انہیں دیکھنے لگا۔۔ بدھو منہ بند کرو انہوں نے اسی پنشل سے میری ٹھوڑی کو دباتےہوئے کہا اور بولیں ۔۔ خود ہی بھول گئے سٹوڈنٹس ڈیل کے۔۔ اب ایسے بھابھی بھابھی کہو گے تو کیسے میں سٹوڈنٹ لگوں گی۔۔میں نے فوری کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا سسسوری ۔۔۔ تو کیا بولوں آپکو۔۔ تب وہ کچھ پر سوچ انداز سے بولیں ۔۔ جب میں بھابھی بن کر گھر کے کام کروں گی تب بھابھی اور جب ہم سٹوڈنٹ ہونگے تو نام ۔۔ تب میں نے بھی ہمت پکڑی اور کہا پھر میں آپکو رانی کہہ کے بلاوں گا۔۔ آپکا نام بھی ہے اور مختصر بھی۔۔ عمبرین تھوڑا زبان کو گھمانا پڑتا میں شوخا بنا۔۔۔ اچھاااا جی تو میرا نام بھاری ہے مطلب مجھے تم موٹو کہہ رہے وہ بھی شغل لگاتے ہوئے بولیں۔۔اتنی دیر میں ہماری پلیٹس آ گئیں۔۔ سروس بوائے کے جانے بعد میں بولا ۔۔ نہیں تو آپ تو بہہت ہی سویٹ سمارٹ سی بلکل ٹین ایجر سی۔۔بلکل رانیوں کی طرح ۔۔۔ جسکے گرد رانیوں جیسا رعب بھی لگتا اور دلکش بھی میں نے کسی ناول سے پڑھا ڈائیلاگ مارا۔۔۔ اچھا نا بس اوور نہیں ہونا۔۔ ورنہ بھابھی بن کر کٹ لگانی تمہاری اور میں فوری ڈرنے کی ایکٹنگ کی اور وہ پھر سے شوخا نا ہوو تو کہتی سموسہ کی طرف متوجہ ہوئیں۔۔ واپسی پر راستے سے ہی ہم نے بریانی لی اور گھر کو چل دئیے۔۔جب ہم گھرمیں داخل ہوئےتو سامنے ہی برآمدے میں ناصر کی بھابھی کومل آنٹی کےساتھ گپیں مار رہیں تھیں۔۔بھابھی انکو دیکھتے ہوئے ہلکی آواز میں بولیں لو جی آگئی خالہ کی سہیلی ۔۔اور وہ سیدھے انکی طرف بڑھ گئیں جبکہ میں اوپر چھت پر ۔۔۔ آجکا دن بہت اچھا شروع ہوا تھا۔۔۔ بھابھی یعنی رانی کے ساتھ گزارے پل انکی شخصیت پسند بات کا طریقہ ۔۔ میں ایک عجیب سی کیفیت میں تھا سرشاری سی۔۔۔تھوڑی دیر بعد آنٹی کی آواز پر میں نیچے گیا۔۔۔ بریانی میز پر سج چکی تھی۔۔ بھابھی واپس گھریلو حلیہ میں آ چکی تھیں۔۔وہ ہی سنجیدہ لیا دیا انداز۔۔ آنٹی نے کومل سے میرا تعارف کرایا اور انہیں بتانے لگیں بھئی یہ نعیم کے آنے سے سمجھو گھر میں رونق لگ گئی ۔۔ماشا ءاللہ بہت اچھا لڑکا ہے سمجھو باہر کی فکر ختم ہو گئی سب سنبھال لیا اس نے ۔۔ آنٹی نے کچھ زیادہ ہی تعریفیں کر دیں ۔۔اور مجھے بتایا کہ یہ انکی پکی سہییلی تب کومل آنٹی بولیں واہ جی۔۔ شازیہ تعریفیں کر رہی ہے تو لازمی کچھ بات تو ہوگی ۔۔ ایسا کیا کر دیا بھئی انہوں نے مجھے مخاطب کیا۔۔ باتوں کے ساتھ بریانی سےانصاف رکا نہیں تھا ۔۔میں نے جھکی نظروں سے کہا جی بس کچھ نہیں ۔ آپ کو کچھ کام ہوا تو آپ بھی بتا دیجیے گا۔۔ میں نے فرمانبرداری کے ریکارڈ توڑتے ہوئے کہا۔۔ ساتھ آنٹی سے نظر بچا کر انہیں تاڑا۔۔۔ آنٹی کی طرف سے سخت تنبیہہ تھی کہ ادھر ادھر ابھی منہ مارنا منع ہے۔جب تک ٹیسٹ نا لے لیں وہ۔۔تبھی وہ ہلکا سا آگے کو ہو کر بولیں ۔۔یہ کوک تو ذرا ادھر پاس کرنا۔ انہوں نے بازو آگے کیا۔۔۔ ہلکا آگے ہونے سے انکا لاپرواہی سےلیا دوپٹہ ہلکا سا سرکہ۔۔۔دوسروں کو ڈیزائن کر کے دینے والی کا اپنا گھریلو سوٹ بھی تھوڑا فیشنی نا ہوتو کیا حاصل ۔۔ چادر ہٹنے سے میری نظر پڑی تو جیسے میں ساکت رہ گیا۔۔شرٹ کا سامنےسے سینہ بلکل فٹ چمٹا ہوا تھا اور گلے سے تھوڑا نیچے ایک چھوٹا سا دل جیسے شرٹ کے ساتھ لٹکے پھندنے ہو ۔۔ اس دل کی خالی جگہ میں انکا جھلکتا کلیویج۔۔ اور چمٹی شرٹ ۔۔ ہلکا جھکنے سے پھندنا تھوڑا ہٹ کر لٹکا ہوا تھا۔۔ ایسے میں انکے دونوں بوبز بلکل آپسی جڑے ہوئے میرا امتحان لےرہے تھے۔۔ یہ بس دو چار سیکنڈ کا نظارہ تھا جس نے میرے دل کو دھڑکا دیا۔۔۔میرے اس تاڑنے کو کسی نے محسوس نہیں کیا اور میں شکر کیا ورنہ آنٹی میری جان لے لیتیں اور رانی کیا سوچتیں۔کچھ دیر بعد کومل یہ کہتے ہوئے اٹھیں کہ انکا بیٹا جاگ گیا ہونا۔۔آنٹی نے مجھے کہا تمہیں برا نا لگے تو انہیں بھی چھوڑ آو اور بائیک بھی دے آو۔۔۔ اب تم آ گئے ہو تو بائیک لے لیتے پہلے اس لیے نہیں لی کہ کون چلائے ۔۔۔ میں فرمانبرداری سے سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ کومل آنٹی بے تکلفانہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اچک کر سیٹ پہ بیٹھیں۔۔ اور ایسے بیٹھتے انکا جسم ہلکا سا میرے ساتھ ٹکرایا ۔۔ اففف بہت ہی گداز تھا انکے جسم میں ۔۔ پھریری سی آ گئی۔۔ عمبرین کے برعکس وہ بلکل ساتھ لگ کر بیٹھیں اور سارے راستے بہت کام ہے بھئی کا رونا روتی رہیں۔۔۔حالانکہ ابھی شادی میں پورا ہفتہ پڑا ہوا تھا۔۔۔انکو گھر اتار کر بائیک دیکر میں نکلنے لگا تھا تب وہ بولیں ۔۔ جتنی تمہاری شازیہ نے تعریفیں کیں ۔۔۔اب حق بنتا ہے کہ کچھ کام ہمارے بھی کرو۔۔۔ شادی پہ تیار رہنا۔۔۔ناصر کے ساتھ کافی کام سنبھالنے تم نے بھی اورمیں جی اچھا کہتے واپس بھاگ آیا۔۔ اس وقت مجھے بس رانی کا ہی خیال تھا
سردیوں کے چھوٹے دن۔۔۔ شائد تین بجے ہوں لیکن ایسا لگتا شام کا وقت۔۔سامنے ہی حلوائی کی دکان پر گجریلے کے تھال دھرے تھے۔۔۔ اور مجھے گجریلا بہت مرغوب۔۔ سردیوں میں اماں لازمی مجھے بنا کر کھلاتیں ۔۔ میں کچھ سوچا جب سے آیا تھا سب یہ لوگ کر رہے تھے یہ۔مناسب نہیں تھا میں نے تکلف کی دیوار گرانے کا سوچا اور گجریلا خرید کر گھر کو چل دیا۔۔۔ آنٹی تو تھیں ہی شکر خوری وہ تو خوش ہوئیں لیکن بھابھی نے کہا لو میرے جیسا گجریلا کون بنا سکتا بھلا۔۔۔ کیا ضرورت تھی تمہیں خرچ کرنے کی ۔۔ تب میں نے بھی اسی سنجیدگی سے کہا میں اس گھر کو اپنا گھر سمجھ کر لایا ہوں ۔۔ اب مجھےرہنا ہے یہاں اور جیسے ہم فیملی بن چکے بلکل مجھے احساس نا دلائیں کہ میں مہمان۔۔ ارے ارے میرایہ مطلب نہیں تھا انہوں نے شاپر پکڑا اور کہا تم بیٹھو میں ساتھ گرم گرم چائے بناتی۔۔ میں منہ بسورتا بیٹھا تو آنٹی نے میرا بازو پکڑ کر ساتھ لگا کر سرگوشی کی ۔۔ کون کافر تمہیں پرایا سمجھتا جتنے تم اپنے ہو اتنا کوئی نہیں ۔۔۔ اس وقت وہ بیک وقت استانی اور خالہ لگیں مجھے
سردیوں کے چھوٹے دن۔۔۔ شائد تین بجے ہوں لیکن ایسا لگتا شام کا وقت۔۔سامنے ہی حلوائی کی دکان پر گجریلے کے تھال دھرے تھے۔۔۔ اور مجھے گجریلا بہت مرغوب۔۔ سردیوں میں اماں لازمی مجھے بنا کر کھلاتیں ۔۔ میں کچھ سوچا جب سے آیا تھا سب یہ لوگ کر رہے تھے یہ۔مناسب نہیں تھا میں نے تکلف کی دیوار گرانے کا سوچا اور گجریلا خرید کر گھر کو چل دیا۔۔۔ آنٹی تو تھیں ہی شکر خوری وہ تو خوش ہوئیں لیکن بھابھی نے کہا لو میرے جیسا گجریلا کون بنا سکتا بھلا۔۔۔ کیا ضرورت تھی تمہیں خرچ کرنے کی ۔۔ تب میں نے بھی اسی سنجیدگی سے کہا میں اس گھر کو اپنا گھر سمجھ کر لایا ہوں ۔۔ اب مجھےرہنا ہے یہاں اور جیسے ہم فیملی بن چکے بلکل مجھے احساس نا دلائیں کہ میں مہمان۔۔ ارے ارے میرایہ مطلب نہیں تھا انہوں نے شاپر پکڑا اور کہا تم بیٹھو میں ساتھ گرم گرم چائے بناتی۔۔ میں منہ بسورتا بیٹھا تو آنٹی نے میرا بازو پکڑ کر ساتھ لگا کر سرگوشی کی ۔۔ کون کافر تمہیں پرایا سمجھتا جتنے تم اپنے ہو اتنا کوئی نہیں ۔۔۔ اس وقت وہ بیک وقت استانی اور خالہ لگیں مجھے
چائے گجریلہ کھاتے ہم بلکل فیملی کی طرح تھے۔۔بھابھی نے انہیں کتابیں دکھائیں قلم دکھائے ۔۔ اور پھر یہ طے ہوا کہ میں صبح کالج جایا کروں گا۔۔ اور بھابھی دوپر تک گھر کے کام کاج۔۔۔ اسکے بعد کچھ دیر ریسٹ۔۔شام کو ہم دونوں بس پڑھیں گے اور چھوٹا موٹا کام آنٹی کریں گئے۔۔۔
اگلے دن میں جلدی اٹھکر تیار ہو کر کالج کو روانہ ہونے لگا تب آنٹی بولیں۔۔ نعیم اچھے سے راستے آتے ہیں نا۔۔۔کہیں گواچ ای نا جانا۔۔ میں نے ہنس کر کہا نہیں ۔۔بے فکر رہیں اور گھر سے باہر نکل آیا۔۔۔چونکہ۔اندر رنگ و خوشبو کا سیلاب تھا۔۔ رنگ برنگے چہرے آنچل لہراتیں لڑکیاں۔۔۔ چونکہ میں پہلے سے وزٹ کر گیا تھا اسلیے کسی سے پوچھنا نہیں پڑا۔۔۔اور فول بھی نہیں بنا۔۔ہماری کلاس میں چھ کے قریب لڑکیاں اور باقی سارے لڑکے تھے۔۔۔وہ چھ لڑکیاں بھی پورا دن چند لڑکوں کی ٹولی کےساتھ ہی گپیں مارتی رہیں ۔۔کلاس میں تعارف کے دوران پتہ چلا وہ سب اس دوسرے کالج سے اس کالج شفٹ ہوئے ہیں اور انکا فرینڈ سرکل الگ سے ہے۔۔ ان میں قابل ذکر بس ایک بوٹے قد کی لڑکی تھی جسکا نام نبیلہ تھا لیکن اسے سب بیلا بیلاکہہ کر بلا رہےتھے۔۔اس نے تعارف میں اپنا شوق ٹینس بتایا آف کےبعد میں باہر نکلا تو سامنے ہی بیلا اینڈ گروپ کسی بحث میں الجھے ہوئے تھے بیلا نے سٹیپس میں بال کٹوا رکھے تھے۔۔ بلکل کچھ کچھ ہوتا ہے کی کاجل جیسا حلیہ۔۔۔ ایک ہاتھ میں ریکٹ کو اپنی ٹانگوں سے ہلکا ہلکا مارتے ہوئے وہ ایک دوسرے لڑکے کو زور و شور سے کچھ بتا رہی تھی۔۔۔پہلا دن تعارفی مراحل اور ہلے گلے میں گزر گیا۔۔۔
گھر پہنچ کر کھانا کھا کر کچھ دیر ریسٹ کرنےکےبعد میں نیچے آیا اور آنٹی کو پہلے دن کا مختصر حال سنایا۔۔۔ تب آنٹی نے بھابھی کو جلدی سے اپنی بکس لانے کا کہا اور جیسے ہی وہ کمرے میں گئیں تو ہولے سے مجھے پوچھا۔۔۔تیرےکالج میں لڑکیاں بھی ہیں۔۔ میں نے محتاط انداز سے کہا جی ہیں تو۔۔۔ تب انہوں نے کہا دیکھو نعیم ۔۔ ان شہری لڑکیوں سے دور رہنا۔۔ یہ بیڑا غرق کر دیتی تیرے جیسے پینڈو لڑکوں کا۔۔۔ ویسے بھی تمہیں کیا ضرورت ادھر ادھر منہ مارنے کی۔۔۔ تمہارے لیے ویک اینڈ گفٹ ہےنا انہوں نے ہلکی انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔۔۔ میں نے شریفانہ انداز سےکہا کہ جی بے فکر رہیں میں دونوں وعدہ کا پابند ہوں ۔۔۔ نو مستی اور بس تعلیم ۔۔۔ اور شرارتی انداز سے کہا۔۔ ویسے بھی مجھے وعدہ پورا کرنا ہے تاکہ آپ امتحان لےسکیں ۔۔ جانے کتنی سخت پرنسپل ہو گی جس نے آپکے سکھائے کا امتحان لینا ۔۔۔ تب وہ ہنسیں اور کہا ۔۔۔ مجھے چالاکیاں نا لگا۔۔۔ نام تو تمہیں تب ہی پتہ چلنا جب امتحان ہونا۔۔۔اور ویسے بھی کیا پتہ وہ اس قابل ہی نا سمجھے تمہیں انہوں نے الٹا مجھے ستایا۔۔ اور اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا بھابھی کتابیں اٹھائے اندر سے نکلیں اور وہیں کرسی پر بیٹھ گئی۔۔ آنٹی نے کہا لو جی تم لوگ پڑھو میں پاس بیٹھی بور ہوتے رہنا یا تمہیں الٹا باتوں میں لگا دینا۔۔۔ میں جا کر ٹی وی دیکھتی ۔۔ انکے جانے کےبعد ہم دونوں کتابیں کھولے آپسی ڈسکشن کرنے لگے۔۔۔میں نے شرارتا کہا تو کہاں سے شروع کریں بھابھی اور جب انہوں نے روٹھنے کی ایکٹنگ کی تو میں فورا منانے لگ گیا کہ نہیں نہیں آپ تو سویٹ سکسٹین میں ہو کیوٹ سی رانی ۔۔۔ میرے مسکہ لگانے پر وہ شوخا کہہ کر پڑھنے لگیں۔۔۔ اگلے دو چار دن اسی روٹین میں گزرے بس اتنا فرق پڑا کہ کالج میں ایک آدھ لڑکے سے قدرے شناسائی بڑھی ۔۔ انہی دنوں کالج کے آرٹس اور سپورٹس شعبے نے دو اہم اعلان اناونس کیے اناونس کیے پہلا دس جنوری سے سپورٹس میلہ اور دوسرا کالج میگزین کا اجرا۔۔۔کرکٹ تو خیر میرا شوق تھا ہی اور میں ٹینس بال کا اچھا پلئیر تھا میری بیٹنگ لائن اور ٹائمنگ کافی اچھی تھی۔۔ لیکن جانے کیوں میں میگزین کے لیے کوئی افسانہ لکھنے کے لیے بھی اپنا نام دے آیا۔۔۔ میری کلاس سے بس دو لوگ ہی سپورٹس میں حصہ لے رہے تھے۔۔ ایک میں کرکٹ میں اور دوسری بیلا ٹینس میں ۔۔۔ پتہ چلا وہ اچھی پلئیر ہے اور سکول لیول سے ٹینس کھیل رہی ہے۔۔پچھلےکالج میں اسکے ٹینس کے جھنڈے گڑے تھے لیکن جانےکیوں اچانک اس نے کالج بدل لیا۔۔۔
گھر آ کر پڑھائی کےدوران میں نے بھابھی یعنی رانی کو بتایا کہ میں یہ نام لکھوا بیٹھا ہوں اور اب پھنس گیا کہ افسانہ کون لکھے ۔۔ تب وہ قدرے جھکیں ۔۔ انکے بالوں کی مہک اور انکے جسم کی مدھر خوشبو جیسے ہر طرف موتیے کی مہک۔۔ انہوں نے کہا سمپل تم نقل کر لو۔۔ میں بولا لیکن کس کی۔۔ تب انہوں نے رازدارانہ لہجے میں کہا۔۔۔ میں لکھوں گی نا۔۔ یسسسس میں بےساختہ اونچی آواز میں بولا اور انکے گھرکنے پر پھر سے منہ بند اور انہوں نے عادتا مجھے پھر شوخا لڑکا نا ہو تو کہہ کر بات بدلتے ہوئےکتاب نکال لی
دو دن گزرے تھے کہ ایڈمن ہیڈ کا ہارٹ اٹیک سے اچانک انتقال ہو گیا ۔۔ پورے کالج میں افسردگی کا سماں ہو گیا پرانےسٹوڈنٹس اور سب ٹیچرز انکے آبائی علاقے اطلاع انکی لاش کی منتقلی اجتماعی سفرکی تیاریاں کرنےلگ گئے جمعرات آ گئی میری چونکہ ان کےساتھ بس دو چار دن کی شناسائی تھی وہ بھی بس مجھے انکا نام معلوم تھا اور انہیں بس میرے نیو سٹوڈنٹ کا۔ ویسے بھی سال کا آغاز تھا ابھی کلاسز سیٹ ہو رہیں تھیں تو باقاعدہ چھٹی نا ہونےکے باوجود کالج سمجھو دو تین دن کے لیے بند ہی ہو گیا اور میں جلدی گھر آیا تو آگے عمبرین اور انکی سہیلی نائلہ کہیں سے بس واپس آئی ہی تھیں ۔۔ انکا لایا سامان ابھی وہیں برآمدے میں بکھرا پڑا تھا۔۔۔ مجھے دیکھ کر آنٹی نے جلدی آنے کی وجہ پوچھی اور وجہ سن کر کچھ دیر افسوس کیا اور عجب منطق سے کہنے لگیں چلو یہ بھی اچھا ہی ہوا کالج کچھ دن بند رہے گا۔۔ آج جمعرات ہے اور اتوار کو نائلہ کی بارات۔۔ نائلہ آج سے گھر پکا بیٹھ جائے گی ۔۔ شادی سر پر آ گئی سو کام ہونگے تم بھی آج شام کو جا کر کوئی کام اپنے ذمہ لے لینا۔۔۔ نائلہ اور عمبرین ہم سے لاپرواہ کسی اہم پریشانی میں مشغول تھیں۔۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ نائلہ بی بی سوٹ ٹیلرسے لانا بھول ہی گئیں ۔۔میں نے شغلیہ انداز میں کہا گڈ ہوگیا اب دنوں فٹا فٹ جائیں اور لے آئیں ۔۔ میں تو اوپر میں کھسکنے لگا تھا کہ بھابھی نے مجھے کہا رکو رکو ذرا ۔۔۔ تم جا رہے ہو نائلہ کے ساتھ ۔۔ میں نفی میں سر ہلانے ای لگا تھا کہ انہوں نے ایسے بےچارگی سے مجھے پھر پلیز کہا کہ میں تو جیسے کھو گیا ۔۔ اتنے میں نائلہ بولی تم جاو نا ہمارے گھر سے بائیک لے آو اور خبردار جو انہیں کچھ بتایا ۔۔۔ اماں پہلے ہی بہت غصے کہ میں گھر سے باہر جا رہی۔۔۔ جب میں نے انکے گھر کا کی بیل بجائی تو ناصر کے ابا نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھ کر اندر آنے کا بولتے واپسی غڑاپ گم ہو گئے۔۔ پتہ چلا اندر لڈو کی گیم چل رہی تھی ۔۔میں نے بائیک مانگی ۔۔ چابی پکڑ کر سپیڈو سپیڈ واپس جانے لگا تو کچن اسے کومل آنٹی باہر آ رہیں ۔۔ بائیک کی چابی دیکھ کر کہنے لگیں پھر سونپ دیا شازیہ نے کوئی کام ۔۔ بھئی کوئی ہماری مدد بھی کرئے ۔۔سب لڈو کھیل رہے اور ہم کچن میں سڑ رہے۔۔ اوہو تو آپ کو لڈو سے باہر ہونے کا دکھ ہے یا کچن میں کام کا۔۔ مجھے نکلنے کی جلدی تھی۔۔دل تھا کہ جلدی سے سب کام ختم ہوں ۔رانی ہو میں ہوں اور وہ کمبائن سٹڈی ۔۔ ہاں ہاں اڑا لو تم بھی مذاق ۔۔۔انہوں نے روہانسے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔اتنا بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ بولیں کوئی کام میں کر دوں گا۔۔ اچھا جناب آپ جذباتی نا ہوں میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپکا کہا کام لازمی کروں گا ہیلپ کروں گا۔۔ اس وقت مجھے کیا پتہ تھا کہ وعدہ جلد ہی نباہنا پڑ جانا۔۔ٹیلر سے بھاگم بھاگ سوٹ لیکر جب واپسی بائیک پہنچانے گیا تو سب لوگ سامنے ہال میں براجمان صلاح مشورے کر رہے تھے۔۔ ناصر ٹینٹ والوں کے پاس گیاہوا تھا میرے پوچھنے پر اسکی اماں بولیں میں واپس مڑنے لگا تو بولیں بیٹا ایک تو اگر فرصت ہو تو شام کو عمبرین کے ساتھ تم بھی آجانا ۔۔ یہاں صلاح دینے والے بہت اور کرنے والا ایک ۔۔۔ دوسرا اوپر سٹور میں پیٹیوں پر بڑا سوٹ کیس پڑا ہو گا وہ تو نیچے لا دے میرا پتر۔۔۔میں جی اچھا کہتے ہوئے تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر گیا اور جیسےہی سپیڈ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا مجھے لگا جیسے کسی نے میرے سر پر لٹھ دے ماری ہو۔۔۔ سامنے کوئی خاتون اپنی شرٹ چینج کر رہی تھیں ۔۔ اسکے دونوں بازو اوپر تھے اور چہرہ شرٹ میں گم تھا۔۔ گورا چٹا لشکارے مارتا جسم ۔۔ قدرے بھاری لیکن تنے ہوئے بوبز پتلی کمر۔۔بازو اوپر ہونے کی وجہ سے بوبز فل تن کر ابھرے ہوئے تھے ۔۔۔ افففففف میری ساری تیزی ہوا ہو گئی اور میں جیسے جم کر رہ گیا۔۔ یہ بس تین چار سیکنڈ کا سین تھا ۔۔۔ جس نے میرے ہوش اڑا کر رکھ دئیے ۔۔ ادھر خاتون بھی دروازہ اچانک کھلنے سے وہ بھی سٹپٹا چکیں تھیں شائد انہوں نے تیزی سے اتارتی شرٹ کو تیزی سے واپس گھسیٹا اور جب میری نظر انکے چہرے پر پڑی تو میری سٹی گم ہو گئی۔۔ وہ کومل آنٹی تھیں۔۔۔میں تیزی سے واپس پلٹا اور سب بھول کر گھر کو دوڑا۔۔۔۔شکر ہے گھر میں سب بزی تھے اور میں اوپر چھت پر جاکر آنکھیں موندے لیٹ گیا۔۔۔ میرا دل ابھی تک دھک دھک کر رہا تھا۔۔ اور آنکھوں میں وہ ننگا جسم ۔۔ ننگا تنا ہوا سینہ۔۔۔ گوری بے داغ کمر۔۔آنٹی شازیہ کا جسم گولو اور سینہ بھاری اور ڈھلکا ہوا تھا لیکن کومل کا جسم جیسے فل کھنچا ہوا۔۔ عمر بھی تو تیس سال کے آس پاس تھی۔۔۔ افففف جانے اب وہ کیا سوچیں گی ۔۔شازیہ آنٹی کو ہی نا شکائت لگا دیں۔۔ وہ تو سمجھیں گی میں جان بوجھ کر کیا مجھے متضاد خیالات گھیر رہے تھے





کچھ دیر کے بعد میں نے خود کو تسلی دی کہ کون سا مجھے پتہ تھا یا کون سا میں نے پھر بدتمیزی کی۔۔بتاتیں ہیں تو بتائیں آنٹی شازیہ کو۔۔ انہی سوچوں میں جانے کتنا وقت گزر گیا مجھے ہوش تب ٰآیا جب انٹرکام کی بیل بجی۔۔۔ دوسری طرف عمبرین تھیں۔۔ انہوں نے مجھے کہا کہ جلدی سے نیچے آ جاو۔۔۔ نائلہ گھر جانا ہے ادھر ڈھولکی رکھی ہے آج۔میں انگڑائی لیتا ہوا اٹھا ۔۔۔ جسم ہلکا بوجھل تھا۔۔ میں واش روم گیا ۔۔ گرم پانی سے نہایا اور تیار ہو کر نیچے آ گیا ۔۔۔ بھابھی اتنی دیر میں دوبارہ بلا چکیں تھیں۔۔ ہم تینوں پیدل چلتے انکے گھر گئے تو بےچارہ ناصر اکیلا ہی صحن میں کھڑ لائٹنگ والوں سے بحث کررہا تھا لیڈیز ساری اندر باتوں تیاریوں میں بزی تھیں آنٹی اور بھابھی اندر چلی گئیں اور میں ناصر پاس رک گیا۔۔مجھے دیکھ کر وہ خوشی بولا شکر ہے بھائی آپ آ گئے۔۔ اب جلدی سے میری مدد کروائیں۔۔یا تو لائٹنگ والے کے ساتھ لائٹیں لگوائیں یا پھر بازار جائیں ۔۔اتنی دیر میں ناصر کی اماں نے کہا لو ۔۔ اس کو کیا پتہ لہور کے بازاروں کا اور دکانوں کا تم جاو اور اسکے ذمہ لائٹنگ لگا دو۔۔ناصر مجھے پورے گھر کی سیٹنگ بتاتا تیزی سے باہر کو نکلا اور کہا میں بس آیا گھنٹے تک ۔۔ اسکے جانے کے بعد میں نے لائٹنگ والے سے کہا کہ ایسا کرتے

ہیں سارا سامان پہلے اوپر پہنچا آو۔۔ تب پھر ڈیزائن کرتے کیسے لگانی۔۔میں اسکے ساتھ اوپر کھسکنے لگا تھا کہ مجھے آنٹی شازیہ کی آواز آئی رکو ذرا تم سے ایک بات کرنی ۔۔ ججی مجھے لگا کہ جیسے شکائت ہو گئی آنٹی مجھے ایک سائڈ پر لیجا کر بولیں خو سامان نا اٹھانا ۔۔ کمی تھوڑی ہو شہزادے ہو ہمارے اور پہلے اندر آکر چائے پی لو پھر اوپر جانا میری سانس میں سانس آئی ۔۔ اندر کمرہ لیڈیز سے پر تھا۔۔ یہ دیکھ کر میں مجبورا پلٹنے لگا کہ آنٹی نےپھر سے کہا چلو تم کچن میں جا کر وہیں پی لو چائے اور میں سر ہلاتے کچن کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔سامنے ہی کومل بھابھی ساتھ ایک اور خاتون کو لگائے کچن میں بزی تھیں۔۔ ہماری نظریں ملیں انہوں نے مجھے دیکھا ۔۔ایک لمحہ ہماری نظریں ملیں انکے چہرے پر سنجیدگی تھیکچھ دیر کی سنجیدگی کے بعد اچانک وہ مسکرائیں اور بولیں ادھر بیٹھ جاو چائے یہیں پی لو۔۔۔ اسی بہانے ہمارے لیے وقت تو نکالا نا
مجھے تسلی ہوئی اور بولا چلیں کسی دن وقت نکالتے آپ کے لیے بھی
بتاوں گی ابھی تو تم چائے پیو اور جاکر لائٹنگ دیکھو۔۔ شام کا دھندلکا پھیل چکا تھا۔۔ میں اسی سٹور کی چھت پر بیٹھا لڑیاں پھیلا رہا تھا۔۔ اور لائٹنگ والا انکو کنیکشن کے لیے نیچے گیاہوا تھا۔۔ میں اپنے کام میں مگن تھا جب مجھے لگا کوئی مجھے گھور رہا ہے میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو نیچے صحن میں کومل آنٹی اپنے بچے کو لائٹنگ دکھا رہی تھیں اور وقفے وقفے سے نظر اٹھا کر مجھے دیکھ رہیں تھیں۔۔۔ میرےاندر ایک مستی سی طای ہو گئی ۔۔ کافی دن ہو گئے تھے عورت کو چھوا تک نا تھا۔۔ آنٹی شازیہ نے مجھے جو لت لگائی اب وہ نشہ بن رہی تھی۔میں نے اوپر سے اترتے ہوئے کہا۔۔۔ اسکے پاپا نہیں آئے بہن کی شادی پر ۔۔وہ افسردگی سے بولیں نہیں آئے ۔۔۔ پچھلی بار بھی بچے کو دیکھنے آئے تب میں میکے تھی چلہ کاٹنے ۔۔سو باتیں کرنی ہوتیں ۔۔ لیکن اب یہ شادی ۔۔ وہ آتے تو اتنا خرچہ ہو جاتا ٹکٹ وغیرہ کا۔بس دوسروں کی خوشیوں کا سب کو ہے میرا کسی کو نہیں۔۔وہ روہانسی ہوئیں۔۔۔ میں ادھر ادھر دیکھا اور بولا ۔۔میں انکے تھوڑا قریب ہوا اور منڈیر سے نیچے جھانکا ۔۔۔ناصر اور اور اسکے ابا گلی میں سٹریٹ لیمپ لگوا رہے تھے۔۔ سکون ماحول دیکھ کر میں نے ہمت کرتے ہوئے کہا۔۔۔ہم نے عرض کی نا۔۔ آپ کو جو کام ہو مجھے بتادینا آپ۔میں بہت خوشی سے آپکاکام بھی کر دوں گا اور کسی کو ہو نا ہو مجھے ہے نا آپکا احساس۔۔۔ میرے جملوں نے انہوں مسکرانےپرمجبور کر دیا اور بولیں چلو دیکھتے ہیں نا ۔۔ میں نے بات بڑھائی۔۔ سب لوگ تیار ہو رہے آپ نہیں ہوئی تیار دوسروں کو ڈیزائن کر کے دیتی ہیں اور خود تیار ای نہیں ہوئی۔۔ وہ بولیں بس ایسے ای ۔۔ ویسے تمہیں کیا لگتا کونسا ڈریس اچھا لگنا مجھ پہ انہوں نے آنکھیں مٹکاتے سوال کیا۔۔۔میں کچھ دیر چپ رہااور ہمت کر کے کہا۔۔ مجھےتو آپ آج سٹور والے لباس میں قیامت لگیں تھیں۔۔ وہ یکدم سرخ ہوگئیں اور بولیں بہت بدتمیز ہو تم ۔۔ میری ہی غلطی ہے جو لاک نہیں لگایا تھا۔۔۔ میں نے بات سنبھالی ارے نہیں جو شرٹ آپ پہن رہی تھیں اسکا کہا تب وہ معنی خیز انداز میں بولیں پتہ ہے پتہ ہے مجھے ۔۔۔کیا پسند تمہیں۔۔انکےرسپانس کو دیکھتے ہوئے میں نے تھوڑا قریب آتے ہوے کہا ۔۔ جب پتہ ہے تو پھر سے دکھائیں نا تب تو حادثاتی دیکھا تھا ۔۔ وہ بلکل چپ ہو گئیں ۔۔مجھے لگا کہ جلدبازی نے بات بگاڑ دی ۔۔۔۔میں چہرےپر مسکینی لا کر سوری کرنے ہی لگا تھا کہ وہ بولیں ۔۔۔ کبھی دکھاوں گی ۔۔ اگر تم نے میرا خیال رکھا تو۔۔۔ میرا دل یوں اچھلا جیسے کسی ننگے تار کو چھو لیا۔۔ میں مسرت سے اچھلا اور کہا وعدہ ۔۔ تب وہ مجھے ستاتے ہوئے بولیں۔۔تم بڑے تیزہو ویسے لگتے نہیں ۔۔۔ چلو کہا ہے نا وعدہ اب چلو جاو تم بھی ۔۔میں بھی نکلتی ۔۔۔ اور میں بھی موقع کی مناسبت دیکھتے ہوئے وہاں سے کھسک گیا
اگلے دو دن ایسے ہی شادی کےکاموں میں بزی رہے یہ ہفتے کی دن کی بات ہے۔۔۔ آج نائلہ کی مہندی تھی ہر طرف مہمانوں کی ریل پیل۔۔ آج عمبرین نے پیلے رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا اور آفت لگ رہیں تھیں۔۔ پیلے سوٹ ۔۔ کانوں میں آویزے ۔۔ جیسےاپسرا کوئی۔۔ انکا تو مقام ہی الگ تھا نا۔۔۔ وہ جیسے جھیل کا صاف پانی ۔۔۔جھلمل کرتا ہوا ۔۔ جنہیں دیکھ کر ہوس نہیں بلکہ چاہ ابھرتی تھی۔۔۔میں نے انہیں دیکھا ۔۔ اور آنکھوں سے دوست کو سراہا اور کہا بس ایک چیز کی کمی ہے وہ بولیں کونسی ۔۔۔ میں نے کہا بس لاکر دوںگا تو دیکھ لینا۔۔۔اچھا جی وہ بولیں چلو دیکھتے نا۔۔۔ میں بہانےسے نکلا اور باہر سے موتیےکے گجرے اخبار میں لپیٹ کر واپس آیا۔۔اور جب انہیں دئیے تو وہ بلکل ٹین ایجر لڑکیوں کی طرح خوش ہوئیں اور کہا ۔۔ ہاے اللہ تمہیں کیسے پتہ چلا۔۔ انہوں نے فورا اپنے کلائی اور بالوں پر گجرے سجاتے ہوئے کہا ۔۔ بس آپ دوست ہیں اور دوست کو کیا پسند خبر ہوتی ۔۔انکی آنکھیں خوشی سے جھلملا اٹھیں اور کہا یہ بات نا۔۔ دوست وہی جو بنا کہے جان جائے ۔۔۔اتنی دیر میں باہر سے شور اٹھا کہ لڑکے والی مہندی لیکر آ گئے ۔۔بھابھی بھاگم باہر کو نکلیں۔۔ اور میں انکےعکس انکی چوڑیوں کی چھن چھن میں کھوتا گیا۔۔باہر شدید رش تھا ۔۔ میں اندر ہی دبکا رہا اور جب باہر لگا کہ سب بیٹھ گئے ہونے میں آرام سے باہر نکلا اور چھت پر جاکر کچھ دیر سستانے لگا۔۔ نیچے ہلکی ہلکی ڈھولک کی آواز آ رہی تھی ۔۔ اور اس ڈھولک میں ایک دلکش آواز گونجی ۔۔۔بلاشبہ وہ عمبرین تھیں۔۔۔ میں حیران رہ گیا ۔ ہر قدم پر وہ حیران کرتی جا رہیں تھیں۔۔میں ہلکے قدموں سے صحن کی طر منڈیر پر آیا ۔۔۔ اور نیچے جھانکا۔۔۔سب عورتوں کے جمگھٹے میں بھابھی آنکھیں موندے پنجابی ٹپے گا رہی تھیں ۔۔۔ انکی آواز کی گونج جیسے سات سر۔۔۔ میں عجیب سی کیفیات کا شکار تھا۔۔ ایک طرف بھابھی سے ہوس کے بنا بڑھتا لگاو اور دوسری طرف لت لگنے سے جسم کی طلب اور نشہ ۔۔اتنے میں کوئی بچہ کہیں سے مٹی کا گھڑا لے آیا اور بھابھی چمچ سے اس گھڑے کو بجانے لگیں۔۔۔ ہلکا جھک کر وہ چمچ سے گھڑا بجاتیں ۔۔۔ ٹپہ سناتیں اورپھر دوسری پارٹی یعنی لڑکے والوں کو موقع دیتیں کہ وہ برابر کا ٹپہ گا سکیں۔۔۔ لڑکی والوں کی طرف سے بھابھی لیڈ کر رہی تھیں۔۔۔ ہلکا سا گھڑے پر جھکنے کی وجہ سے میں اوپر سے انکا لشکارے مارتا حسن دیکھ سکتا تھا۔۔ وہ بہت ہی مناسب کباس پہنتیں تھیں لیکن اسوقت زنانہ ماحول میں انکا دوپٹہ ایک طرف تھا ۔۔ جوش سے چہرہ لال اور ہلکے کھلے گلے سے جھلکتا ہلکا شانہ بیوٹی بون اور وہ سرخ تل ۔۔۔ اورمیں جیسے ساکن۔۔اور آخر ایک شور کے ساتھ لڑکی والوں نے لڑکے والوں کو ناک آوٹ کر دیا ۔۔ عمبرین کا چہرہ تمتما رہا تھا۔۔ کھانا وغیرہ کھانے کے بعد ۔۔۔ باقاعدہ مہندی لگانے کی رسم شروع ہوئی ۔۔۔ ناصر مجھے بھی کھینچتا ہوا لے گیا کہ چلو بھائی ۔۔ باجی نائلہ کی ایک نند ہے دولہا بھیا کی کزن۔۔ مجھے بہت اچھی لگتی آپ کو دکھاتا
ناصر مجھے لیے لیڈیز میں گھستا دلہن والے صوفہ کے پاس لے گیا۔۔ جہاں نائلہ مایوں کے سوٹ میں بیٹھی ہوئی تھی۔اور اسکے گرد اسکے سسرالی اور صوفہ کے پیچھےمیکے والے آپسی شغل مستی میں مصروف تھے۔۔۔ وہ جو ریڈسوٹ میں ہےنا وہ ۔۔۔ اس کے اشارے پر میں نےدیکھا تو وہاں ایک الٹرا ماڈرن سی لڑکی تھی ۔۔ جو اس سردی میں بھی ریشمی سوٹ پہنے ہوئے کم از کم مجھے تو عجیب ہی لگی۔۔ لیکن میں نے ناصر کو کافی اچھے الفاظ سےرائے دی۔۔۔ اب شائد لڑکی کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ ناصر مجھے اسکا بتا رہا ہے۔۔ اسنے ناصر کو سمائل پاس کی۔۔۔ ناصر تو جیسے اسکی سمائل سے ہی بےسدھ ہوگیا اور قریبی ایک کرسی پر بیٹھ کر اسے تاڑنے لگا۔۔ اور میں نائلہ کے سسرالیوں میں گھرا ہوا باہر نکلنےلگا تھا کہ مجھے آنٹی نے اشارے سے پاس بلایا۔۔اور میں مختلف آنٹیوں لڑکیوں کی گانڈوں اور بوبز کے درمیان پھنستا بچتا صوفے کے پیچھے انکے پاس چلا گیا۔۔۔ کہتیں ادھر ہی رک۔۔۔ دیکھ کتنے کنجوس ہیں نائلہ کے سسرالی۔۔۔ ہزار ہزار دے رہے صرف مہندی لگاتے انکی زنانہ حس جاگی ہوئی تھی میں نے انکی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔کچھ دیر گزری کہ اچانک لائٹ چلی گئی آنٹی لو دسو۔۔ پرے ہونا ۔۔۔ ہر طرف ہڑبونگ سی مچ گئی ۔۔سب واپڈا کو کوسنے لگ گئے اور جنریٹر والے کو جنریٹر چلانے کے لیے اوپر چھت پر جانے کی کسی مرد نے آواز لگائی۔۔۔اسی ہڑبونگ میں مجھے تھوڑا سا دھکا لگا اور میں آنٹی سے تھوڑا پیچھےکو دیوارکےساتھ لگا۔۔کچھ ہلچل کے بعد اچانک مجھے عجیب سا احساس ہوا۔۔کوئی انتہائی نرم سی گانڈ بلکل میرے ساتھ لگی تھی۔ میں سمجھا آنٹی ہی ہیں۔۔ میں تھوڑا پیچھےکوکھسکا اور انہیں جگہ دی۔۔ اتنے رش میں میرے ذہن میں اس وقت تک کچھ خیال نا تھا ویسے بھی آج تو ویک اینڈ تھا۔۔ پھر کاہے کی جلدی۔۔ جیسے ہی میں پیچھے کھسکا رش سے وہ گانڈ دوبارہ سے میرے سامنے آئی لیکن یہ زاویہ خطرناک تھا۔۔ اب اسکی گانڈ بلکل میرے لن کےسامنے تھی سامنے کیا ہلکی چھو رہی تھی ۔۔۔ اتنی دیر میں کہیں سےآواز آئی ۔۔ سارے نالائق ہو تم لوگ ۔۔ جنریٹر کے لیے پٹرول کس کنجر نے لانا تھا۔۔۔ پھر سے اک شور مچا لو جی ۔۔۔ اسی مرد کی آواز دوبارہ آئی ۔۔دس منٹ تک آیا پٹرول بس۔۔۔ گیا ہے ناصر۔۔۔اوئےہوئے جگہ دینا ذرا ۔۔ میرا سانس گھٹ رہا اب تو۔۔ ایک نخریلی سسرالی عورت کے نکلنے سے آنٹی بلکل میرے لن کے ساتھ پریس ہوئیں ۔۔ اففففف انکا لمس اورگداز ۔مجھے پھریری سی آ گئی میرے لن نے ہلکی سی انگڑائی لی اور جیسے ہی اس کی انگڑائی کا احساس اگلی خاتون کو ہوا وہ جیسے کسمسائیں انکے ایسے کسمسمانے سے انکی ہپ جیسے رگڑکر پھری ۔۔۔۔ یہ جیسے آگ پر پٹرول کی دھار۔۔ میں جو سانس روک کر لن کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا اس حملےسےسانس چھوڑ بیٹھا ادھر میری گہری سانس انکی گردن سے ٹکرائی۔۔۔ اور سانس کا گردن پہ کیا احساس ہوتا ہے یہ بہت بعد تجربوں سے پتہ چلا۔۔ ابکے وہ تھوڑا سا آگے کو ہوئیں معمولی سا جھری برابر فاصلہ بنا ۔۔ پٹرول کی اس دھار اور کسمساہٹ نے جو میرے لن کو آگ لگائی تھی اس سے لن اکڑنے لگا اور یہ ابھار جھری کو چیرتے پھر سے انکی ہپ سے ٹکرایا۔۔۔ پٹرول کا سنکر مجھے بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ دس منٹ تو گولی کرائی گئی ہے سیدھی سیدھی۔۔۔بیس منٹ تو پکے۔۔۔مجھے شرارت سوجھی ۔۔۔ ویک اینڈ تھا تھوڑی مستی بنتی تھی ۔۔۔ سویٹ سبق سے پہلے تھوڑی سی سپیشل تیاری کی طرح۔۔۔ میں نے جان بوجھ کر ابھار کو انکی گانڈ پر دائیں بائیں پھیرا اور ساتھ ہاتھ کو ہلکے سے انکے بوبز کو چھوا۔۔۔ میری اس حرکت نے شائد ادھر ایسی ہی دھار کا اثر کیا۔۔ آنٹی نے گہری سانس سی بھری ۔۔ میں نے ہاتھ سے لن کو پکڑا ۔۔۔ وہ تو جیسے منتظر تھا ایسا کوئی سین بنے آخر پورا ہفتہ گزر چکا تھا۔۔میں نے کیپ کو سیدھا کیا اور مارکر کی طرح ہپ کی لائن میں پھیرا۔۔ آنٹی کانپ کر رہ گئیں۔۔ انہی کے بتائے سبق انہی پر آزما رہا تھا۔۔میں نے ہاتھ کو ہلکا سا دائیں والے دودھ کے ساتھ مساج کے انداز میں پھیرا ۔ وہ پھر کانپیں اگلی بار جیسے ہی میں نے یہ حرکت کی انکی گانڈ نے ویل کم کیا۔۔۔انہوں نے گانڈ کی گرپ سے لن کی ٹوپی کو تھوڑا سا بھنچا اففففف جیسے ہی انہوں نے ایسا کیا میرا حال برا ہو گیا ۔۔۔ لن فل سیدھا ۔۔۔نیا نیا ٹرینڈلن تھا۔۔ کچھ دیر انتظار کے بعدجب وہ ایسےہی رہیں تو میں نے ہاتھ آگے کیا اور بوبز سے سیدھا کلیویج پر ہلکا ہلکا مساج کرنے لگا میری ہتھیلی انکی کلیویج اور پورے سینےپر رگڑ کھاتی یہ جیسے اور پٹرول۔۔۔آس پاس کیا ہو رہا تھا خبر نہیں ادھر جیسے عجیب سا ماحول تھا اسی نشے میں میں نے شرٹ کے اوپر سے ہی انکے نپلز کو مسلنا شروع کر دیا۔۔وہ جیسے میرے ساتھ لگ گئیں ۔۔ میں نے انکا ہاتھ پکڑکر اپنے لن پر رکھا تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے میں سبق کے لیے تیار۔۔۔ جیسے ہی انکا ہاتھ میرے لن پر لگا اور لن پر پھرا انکےمنہ سے گہری آہ جیسی سانس نکلی۔اور ان کا ہاتھ کانپا ۔۔ لن فل تنا انکے لرزتے ہاتھ سے کرنٹ کھایا۔اور مٹھی میں لیکر ہاتھ سے جیسے دبا کر سختی چیک کی۔۔۔ کچھ دیر ہاتھ روکنے کے بعد انہوں نے خود ہی لن کو اپنی ٹانگوں میں رکھ کر دبا ہی لیا اففففف مجھے لگا جیسے میرا لن کسی دہکتی بھٹی میں آگیا انکی پھدی فل تپ رہی تھی۔۔ میں نے مستی سے نپلز کو فل مساج کرنے لگے کلیویج پر ہتھیلی پھیر کر انگلی نیچے لائن تک ۔ اور ہلکا ساہلا لن بھٹی کے نیچے سےرگڑ کھائی۔۔ افففف آب وہ بھی ہلکا ہلکا دبا کر ہلنے لگیں ۔۔۔ شلوار کے اوپر سے ہی انکی فلویٹنس لن پر محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ انکی پھدی کی گیلی ہو چکی تھی۔۔ایسے ہی وہ دبا کر بھنچ رہی تھیں کہ آگیا پٹرول کی آواز آئی اور آنے والا بھاگتا سیڑھیاں چڑھا۔۔۔ یہ آواز ہمیں ہوش میں لائی۔۔ انہوں نے طریقے سے میرا ہاتھ بوبز سے ہٹایا اور تھوڑا آگے کو ہوئیں۔۔ تاکہ شک نا ہو۔۔ لیکن کتنا آگے جا سکتی تھیں پھر وہی جھری برابر فاصلہ۔۔ میں نے لن کو اپنی ٹانگوں میں بھنچا تاکہ کسی اور سے نا جا ٹکرائے۔۔۔ ساتھ ہی بجلی آئی۔۔۔ ادھر بجلی آئی تو سمجھو جیسے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔۔ روشنی آتے ساتھ ہی اس عورت نے
بھی فورا پیچھے
دیکھا۔۔

وہ کومل بھابھی تھیں۔۔ میں ساکت سن سناٹا ۔۔۔ انہیں شائد اندازہ تھا کیونکہ میں سب میں سے گزر کر ادھر آیا تھا۔۔ انکی آنکھیں لال ہو رہیں تھیں۔۔ میں جو پہلے نیم بے ہوش تھا میرے اصل ہوش تب اڑے جب میری ان کے آگے ہماری طرف دیکھتیں آنٹی شازیہ پر پڑی۔۔ انکی تجربہ کار نگاہوں نے ہماری حالت پوزیشن اور رنگت سے کافی اندازہ لگا لیا تھا۔۔ انکے چہرے پر ہلکے غصے کی لہر دوڑی جیسے وعدہ خلافی کا دکھ۔۔جیسے میرے ہوتے دوسرےپر لائن کی جلن۔۔انہوں نے مجھ اشارے سے بلایا۔۔ میں جل توجلال تو کا ورد پڑھتے ہوئے انکی طرف بڑھا وہ مجھے لیے باہر کو نکلیں میں مرے مرے قدموں سے انکے پیچھے چلا ۔۔ انہوں نے مجھے کہا بائیک پکڑ گھر تک جانا ہے جلدی کر۔۔۔ میں جو کچھ اور سمجھا تھا ایمرجنسی سمجھ کر جلدی سے سامنے ناصر کی بائیک پکڑی اور فوری گھر کو روانہ آنٹی گھر کا دروازہ کھولتے سیدھی کمرے میں گئیں میں حیرت سے باہر برآمدے میں کھڑا رہ گی تب انکی آواز آئی اندر نا آنا میں آئی بس۔ کچھ دیر کے بعد وہ آئیں اور سکون سے کرسی پر بیٹھیں ۔۔ میں نے کہا خیر تو ہے نا کیا لینا تھا۔۔۔ وہ اکتا کر بولیں لینا تو آج رات کچھ اور تھا لیکن ماہواری ہو گئی اچانک۔۔۔ پیڈ پہننے آئی تھی ۔۔ اوہ میں نے سوچا لو جی اب پڑا سیاپا۔۔۔ لن کھڑا کر گئی کومل ادھر ان سے سبق لینا تھا یہ بھی گئیں ۔۔ میرے مایوس چہرے کو دیکھ کر بولیں کیوں تمہیں کیا ہوا ہے منہ کیوں لٹکا لیا۔۔ میں نے کہا وہ سبق ۔۔۔ وہ ہنس کر بولیں سبق نہیں کہو سیکس کی طلب۔۔ اور اس طلب کے لیے تم وعدہ خلافی کر چکے ۔۔۔ توبہ بھئی مجھے یہ تو پتہ تھا کہ کومل بہت گرم مال۔۔ دو سال سے کیا بھی کچھ نہیں۔۔ پچھلی بار بندہ آیا تو اسکی نئی نئی ڈیلیوری ہوئی تھی لیکن ایسے سب میں۔۔۔ توآپ کو پتہ چل گیا میں نے تھوڑاساشرمندگی سے کہا۔ اور انہیں بتانے لگا کہ سب کیا اور کیسے ہوا۔۔ چلو پھر تمہاری غلطی نہیں ہے لیکن اسکی تو ہے نا اس کو خیال کرنا چاہیے تھا۔۔ اب کیا ملا سوائے اور گرمی کے ۔۔۔ تب میرے دماغ نے کام کیا اور میں نے کہا ۔۔۔ اسے سزا بھی مل سکتی ہے اور مجھے ویک اینڈ کا گفٹ بھی ۔۔ دیکھیں نا میں گیا نا کالج تین دن ۔۔ اب آگے ایڈمن والا مر جاے یا آپکو ڈیٹ ہو میرا کیا قصور۔۔کیا مطلب میں سمجھی نہیں۔۔آنٹی نے پوچھا۔۔ اور میں نے انہیں اپنا پلان سمجھایا۔۔ خلاف توقع وہ مان گئیں لیکن شرط رکھی کہ وہ یہ سب لائیو دیکھیں گی ۔۔۔ انہوں نے بتایا کہ جب انکل باہر تھے اور جب وہ آتے ۔۔ یعنی سال دو سال بعد پہلا ملن ۔۔ انکی حالت بہت مستانی ہوتی تھی ۔۔۔ وہ دیکھنا چاہتی تھیں کومل کیا ری ایکشن دیتی۔۔ واپس جا کر حسب معمول آنٹی شازیہ نے بہترین طریقے سے پلان بنا لیا۔اب عمبرین جو نائلہ کے پاس اس گھر میں شادی سے پہلے کی آخری رات ملکر گزارنا چاہتی تھیں۔۔اور خالہ کی وجہ سے اسے واپس جانا تھا اب ادھر ہی رکیں گی۔۔۔آنٹی ۔۔ کومل بھابھی اور کچھ دوسرے شہر کےمہمان ہم اپنے گھر لیجائیں گے۔۔۔ البتہ کومل بھابھی کو منصوبے کا بلکل اندازہ نہیں تھا۔۔ میں حسب پروگرام اس دوران منظر سے غائب رہا۔۔ میں منصوبےکے مطابق سب کے سامنے وہیں رکا۔۔ اور جب سب اپنے اپنے بستر میں سردی اور تھکن سے نڈھال گرے میں چپکے سے وہاں سے کھسک آیا۔۔۔ ڈپلی کیٹ چابی سے دروازہ کھولا اور اندر چلا آیا۔۔۔ہر طرف سکون ماحول تھا۔۔ میں سیڑھیاں چڑھتا ہوا چھت پر آیا۔۔میرے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی اور سامنے آنٹی بیٹھیں تھیں جیسے ہی میں اندر داخل ہوا اور کومل سے میری نظر ٹکرائی۔۔۔انکا ایکبار رنگ اڑا پھر جیسے وہ سنبھلیں اور ہلکا سا جھجھک کر بولیں تم بھی ادھر ہی ہو میں سمجھی ناصر ساتھ۔۔۔میں نے مسکرا کر کہا جی ایسا ہی تھا لیکن بس مجھے وہاں نیند نہیں آ رہی تھی تو چلا آیا۔۔ آپکو برا لگا۔۔۔ نہیں ویسےہی وہ مسکرائیں۔۔۔ آنٹی کام بہت کروائے آج اور چائے بس ایک کپ پلائی آپکی سہیلی کومل نے میں نے ماحول کو ایزی کیا۔۔ اور کہا پلیز مجھے چائے بنا دیں۔۔ آنٹی شازیہ چائے کے لیے جانےلگیں تو کومل بھی فورا ساتھ اٹھیں ۔۔ آنٹی نے اسے اٹھتے دیکھ کر بولا لو تم بیٹھو ادھر باتیں کرو ۔۔ کھا تھوڑی جاے گا۔۔ کہتی آنٹی یہ جا وہ جا۔۔۔انکے جانے کے بعد گھور خاموشی ۔۔۔ آخر میں نے چپ توٰڑی اور اٹھ کر تھوڑا انکے پاس فاصلے پہ بیٹھا۔۔ انہوں نے گھبرا کر کہا پلیز نعیم ۔۔ شازیہ آ جاے گی ۔۔۔میں ایسی نہیں ہوں بس ۔۔ تھوڑا بہک گئی۔۔ وہ بے ترتیبی سے گھبرا کر بولیں۔۔ انکی بات سےخوف جھجھک جھلک رہاتھا بدنامی کا ڈر۔۔ شازیہ آنٹی کے آنے کا دھڑکا اور مجھ سے تنہائی میں جھجھک۔۔میں نے کہا۔۔ میں آپکو کب برا کہا یا ایسا ویسا کہا۔۔۔ آپ میرےلیے بلکل پہلے کی طرح باعزت ہیں۔۔ اور وہ بات۔۔ ہماری دوستانے کی ہے آپ ڈریں مت ۔۔دوست ہیں نا ہم ۔۔ میں نے ادھر اعتماد دیا انہیں ادھر دوستی کا جال پھینکا۔۔۔وہ مسکرا کر بولیں شکریہ ۔۔ تب میں نےکہا اب جب دوست ہیں ۔۔تو یہ بتائیں مزہ آیا نا۔۔ وہ شرما گئیں ۔۔اور سر جھکا کر بولیں ہمممم۔۔۔ یہ ہممم کیا ہوتا ہے ۔۔ تب وہ ہلکے سے بولیں بہہت۔۔ میں نے کہا مجھے بھی بہت آیا۔۔ میں یقین نہیں کر سکتا کہ میں آپ جیسی خوبصورت لڑکی و چھوا۔۔ آپ واقعی کومل ہیں۔۔۔ وہ جیسے میری تعریف سے کھل اٹھیں۔۔ میں تھوڑا ایزی ہوا اور ٹانگون کو تھوڑا پھیلایا۔۔ اور ان سے ہلکے پھلکے سوال کرنے لگا تھوڑی دیرتک آنٹی چائے لائیں ۔۔ وہ دونوں پی چکیں تھیں۔۔ میں چائے پیتے کومل سے باتیں کر رہا تھا۔۔ جب آنٹی جان بوجھ کر بولیں ۔۔اگر تم لوگوں کو باتیں کرنی ہیں تو باہر جا کر گپیں مارو میرا تھکن سے برا حال۔۔ درد ہو رہی کمر میں۔۔ نہیں نہیں ہم سوتے ہیں کومل نے ٹالنا چاہا لیکن میں نے آخری داو مارا۔۔۔ ہاں جی اتنی کہاں قسمت کہ اتنی اچھی دوست ملی اور ابھی کچھ بتانے لگا تھا کہ وہ سونے لگیں ۔۔ میں نے کچھ بتانے کا کہہ کر انکی زنانہ سسپنس کو چھیڑا۔۔۔ اور انہوں نے دانہ چگ لیا۔۔۔ کیا بتانے لگے تھے۔۔ میں نے ہاتھ بڑھایا اور کہا آئیں بتاتا ۔۔ بات تھوڑی لمبی ہے۔۔۔ اسبار وہ تھوڑا سا جھجھک کر ہاتھ پکڑتے ہوے بولیں چلو کیا یاد کرو گے۔۔ میں انہیں
لیے ساتھ والے ہال نما کمرے میں لے آیا۔۔۔۔ اور نارمل انداز سے ہاتھ پکڑے انہیں صوفہ کم بیڈ پر بٹھا کر کہا آپ رکیں میں لاتا ۔۔۔ اور انہیں سمجھ آنے سے پہلےواپس اپنےکمرے آیا۔۔آنٹی انکے بچے کو کھانسی کا سیرپ پلا کر سلا چکیں تھیں میں نے انہیں لائیو آنے کا بولا۔۔ اب انہوں نے ہال نما کمرےاور میرے کمرے کے درمیانی باتھ روم سے سب دیکھنا تھا۔۔۔ فورا واپس آیا ۔۔کومل صوفہ پر بیٹھی باہر کو دیکھ رہی تھیں۔۔ جلدی بتاو نا کیا بتانا ہے ۔۔ وہ بے صبری سے بولیں۔۔ میں نے کہا آپ کو پتہ ہے مجھےکیا محسوس ہوا اسوقت۔۔۔ وہ جھجک کر بولیں کیا۔۔ میں نے کہا جیسے کوئی خوابوں کی ملکہ آپ کے پاس۔۔۔ وہ سرخ ہوئیں میں نے انکے ہاتھوں کو پکڑ کر ہلکا سہلانا شروع کیا اور کہا آپکو پتہ ہے آپ بہت خوبصورت ہیں ۔۔ جب سے سٹور میں آپکو دیکھا ہوش گم تھے۔۔ اوور۔۔ وہ سرخ آنکھوں سے گھورتے بولیں اووور۔۔۔ میں نے کہا اور آپکا فگر قیامت ہے یہ جو کلیویج ہے نا۔۔ میں نے تیزی سے ہاتھ بڑھا کر انکے کلیویج کو انگلی سے چھیڑا۔۔ وہ جیسے کانپ گئی۔۔ اور کہا نا کر نا ۔۔۔ شازیہ جاگ گئی تو۔۔ گویا انہیں شازیہ کا ڈر تھا صرف۔۔ میں تھوڑا اور پاس کھسکا اور جھکتے ہوئے سرگوشی کی وہ دوائی لیکر سو چکیں۔۔ لللیکن وہ بولنے لگیں تھیں جب میں نے فائنل راونڈ کھیلتے ہوئے انکے لبوں پر انگلی رکھ کر انہیں کہا بسسسس چپ نا۔۔ سنیں نا۔۔ ہلکے سے انگلی کو لپس پر پھیرا وہ گہرا سانس لیکر سسکیں۔۔ میں نے کہا میرا پتہ کیا دل کیا اس وقت۔۔ وہ مدہوش بولیں۔۔ میں نے کہا میں کلیویج کو لبوں سے چھو لوں پتہ کیسے۔۔۔ وہ ٹرانس میں بولیں کیسے انکا دھک دھک کرتا سینہ میرے سامنےتھا ۔ لیکن اسبار میں بتانے کی بجائے ایسے کہتا ہوا اچانک جھکا اور لبوں کو دائیں بوب کے اوپر رکھ کر کلیویج تک پھیرا۔۔ اس کام نے گویا پٹرول کی پوری بوتل چھڑک دی ہو۔۔ انہوں نے بے تابی سے میرے بالوں میں ہاتھ پھنسا اور گہری آہ بھری ۔۔ کمرے میں ہلکا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔ باہر سے آتی روشنی ۔۔ اور سامنے باتھ روم کی جھری سے جھانکتی آنٹی شازیہ ۔ وہ جیسے بلکل پسپا ہونے والی تھیں میں نے لبوں کو فل دوسرے بوب تک پھیرا اور۔ہلکی سی لپ بائٹ کی۔۔ انہوں نے مدہوش اپنا سر پیچھے صوفہ سےٹکادیا۔۔ میں کسی فاتح کی طرح لبوں سے فصیل جسم کو گراتا گیا میرے ہونٹ بوبز سے انکی دراز ہوتی گردن۔۔اوپر نیچے ہوتے سینے ۔۔ پر گھوم رہے تھے۔۔ میں نے زبان ی نوک سے کلیویج لائن کو ہلکا سا چاٹا۔۔اور ایسے ہی جب میری کھردری زبان نے انکی گردن کو چھوا تو وہ کانپ کر مجھ سے لپٹ گئیں ۔۔ میں نے انہیں فل بازووں میں سنبھالا اور انہیں صوفہ کم بیڈ پر گراتا گیا ۔۔ وہ مست ناگن کی طرح سسک رہیں تھیں مچل رہیں تھیں انکے کھلتے بند ہوتے ہونٹ میں جھکا اور نچلے ہونٹ کو لبوں میں لیکر گھمانے لگا۔۔۔وہ جیسے صدیوں سے پیاسی تھیں۔۔گول گول زبان میرےلبوں میں پھیرنے لگیں ۔۔ میرے ہاتھ انکی کمر پر بہکتے ہوئے نیچے تک آئے اورمیں نے کمر سے ہاتھ شرٹ میں ڈالا جیسے ہی میرے ہاتھ کا لمس انکی کمر سے لگا افففف جیسے تیز کرنٹ انکا لمس انکا جسم جیسے نرم آگ سی۔۔۔وہ آہ ہاے کرتی سسک رہی تھیں میرے بالوں میں انگلیاں چلا رہیں تھیں۔۔ میں نے ہاتھ انکی پوری کمر تک پھیرنا شروع کیا اور ایسے ہی گھماتا سامنے پیٹ پر لایا اور ہاتھ پھیرتا انہیں تڑپاتا برا تک آیا۔۔ انکے بوبز برا کی قید میں پھڑک رہے تھے۔۔نئے فاتح نے جھٹکے سے قیدیوں کو آزاد کیا اور شرٹ کے نیچے سے ہی برا اوپر کر دی اور انگلیوں میں نپلز کو مسلنے لگا وہ مکمل خود سپردگی میں مدہوش ۔۔سپر ڈالی مفتوح پر فاتح پیٹ سے بوبز تک لبوں سے مہریں لگاتا گیا اور ہر ہر مہر پر انکا آتشیں جسم ہلکی مزاحمت اور اس سے زیادہ اکسانے والی سسکیاں بھرتا گیا۔۔۔ میں نے انکے ساتھ لیٹتے ہوے انکے ہاتھ کو اپنے ہتھیار پر رکھا۔۔۔ ہتھیار فل جوبن پر تھا۔۔ انکے منہ سے ہاے مر گئی نکلا....

Post a Comment

0 Comments