Ishaq Awara 2

  


عشق آوارہ  2

 

میرا تو جیسے سانس رک سا گیا ہو۔۔۔ انکی گوری چٹی ٹانگ ۔۔ چمک رہی تھی۔۔۔میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور انکے اٹھی ٹانگ کو چھوا۔۔۔ اففففف میرا ہاتھ جیسے مخمل پہ لگ گیا ہو۔۔۔۔ میں نرمگیں سے انکی ٹانگ پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔۔ انہوں نے شوخ ادا سے اٹکھلاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ کہو نا کیسی لگی استانی ۔۔ میں نے مست لہجےمیں کہا۔۔۔ بہہت ہی کمال بہت ہی سافٹ اینڈ سیکسی۔۔۔ وہ ہنسی اور کہا۔۔۔ میں سوچا پہلی کلاس ہے ۔۔ ٹیچر کا اچھا ایمیج جانا چاہیے۔۔۔۔ آل باڈی لوشن لگایا میں نے ۔۔۔ انہوں نے میرے علم میں اضافہ کیا ۔۔ میں بے تابی سے ان پر جھپٹنے لگا تو وہ جلدی سے سرک کر ذرا ہٹ گئیں اور کہا صبر کرو ۔۔ استانی جیسے جیسے کہے گی ویسے ویسے سیکھنا ہے۔۔ میں سر ہلا کر رہ گیا۔۔ جب یہ طئے تھا کہ انہیں چودنا تو لازمی ۔۔ پھر کاہے کی جلدی۔۔۔ 

مجھے یوں تابعداری سے رکتے دیکھ کر وہ میرے جی صدقے ہوگئ۔۔ ہاے اللہ صدقے جاواں ۔۔۔ اپنے فرمانبردار شاگرد تے۔۔۔ اسکے بعد وہ اٹھیں اور کہتیں تم رکومیں آتی ہوں۔۔ انہوں نے بڑی چادر اوپر لی اور باہر کو نکل گئیں ۔۔ کچھ دیر بعد جب وہ اندر آئیں تو انکے ہاتھ میں سٹیل کا بڑا گلاس تھا۔۔ جس میں بادام اور پستوں والا دودھ ۔۔۔ انہوں نے وہ مجھے دیا اور کہا ۔۔۔ لو کیا یاد کرو گے تم دودھ پی لو ۔۔ تب تک میں کچھ کام کر لوں۔۔۔ آنٹی اٹھیں اور کیبنٹ میں کچھ تلاش کرنے لگیں ۔۔ اور میں پستے بادام ملا دودھ پینے لگا اور ساتھ ٹائٹ نائٹی میں ابھری انکی گامڈ کو للچائی نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔ اتنی دیر میں خالہ پلٹیں ۔۔ انکے ہاتھ میں ایک کالا شاپر تھا ۔۔جس میں سے انہوں نے اک سی ڈی نکالی اور کہا ۔۔ تو تیار ہو کلاس لینے کے لیے۔۔ میں حیرت سے انہیں دیکھنے لگ گیا۔۔ خالہ نے ٹی وی آن کیا اور اسکی آواز کو بہت کم کر دیا۔۔۔ اور سی ڈی پلئیر میں سی ڈی ڈال کر چلا دیا۔۔۔سامنے کسی ہال کا منظر تھا۔۔ جس کی دیواریں شیشے کی بنی ہوئی تھیں ۔۔۔ ہال کےنظارےکے بعد کیمرہ جب سامنے رکھے صوفے پر گیا تو میری نظریں جم گئیں ۔۔ وہاں ایک پینتیس چالیس سالہ انگریز عورت شارٹس میں موجود تھی 

آنٹی تھی کہ سیکس بمب ۔۔۔ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے۔۔ لمبی شفاف ٹانگیں ۔۔ سرخ برا میں سفید رنگ۔۔۔ میرے خون کی حدت بڑھنے لگی اور میرے لن نے سر اٹھانا شروع کیا ۔۔۔ کیمرہ گھوما ۔ دوسری طرف ایک میری ہی عمر کا لڑکا تھا۔۔ اس نے کچھ بھی نہیں پہنا ہوا تھا۔۔ گوری نے اپنی لمبی ٹانگ سیدھی کی ۔۔۔اور پاوں کے تلوے سے اس لڑکے کے لن کو سہلانے لگیں ۔۔۔ ایسے ہی مساج کرتے کرتے گورے کالن فل کھڑا ہو گیا۔۔۔ لن اسکا بھی کافی لشششش تھا۔۔۔ بلکل گورا سا۔۔۔یہ منظر دیکھ کر میرا ہتھیار فل تن گیا۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ میرا لن بہت اکڑ چکا ہے ۔۔۔جیسے کوئی سریا ہو۔۔ میں نے ہاتھ لگایا تو حیران رہ گیا ۔۔۔ اتنا سخت پہلے تو کبھی نہیں ہوا تھا۔۔۔ آنٹی شازیہ میرے سامنے آ کر کھڑیں ہو گئیں ۔۔۔ نائٹی میں ۔۔۔ انکا حسن انکا جسم ابل ابل کر باہر آ رہا تھا۔۔۔ ادھر ٹی وی پر گوری ۔۔گورے لڑکے کے ساتھ اپنی گیم جاری رکھے تھی ۔۔ اسبار وہ گورے کے لن کو چوس رہی تھی ۔۔۔ آنٹی میرے سامنے دو کارپٹ پر بیٹھیں اور سرگوشی کی ۔۔۔ تھوڑا صوفے کے ساتھ ٹیک لگا کر ایزی بیٹھو ۔۔ کلاس شروع ہو چکی ۔ ۔۔ویسے بیٹھنے سے میرا لن کسی کھبے کی طرح بلکل سیدھا کھڑا تھا۔ آنٹی کی آنکھوں میں بلی کی آنکھوں کی طرح چمک پیدا ہوئی۔۔انہوں نے ہاتھ بڑھا کر میری شلوار کا نالہ کھولا اور۔۔۔حریصانہ لن کو پکڑ کر دیکھا اففففف ۔۔ انکے نرم گرم ہاتھوں کا لگنا تھا کہ لن کو جیسے کرنٹ لگا۔۔۔ وہ مٹھی میں لن کو آگے پیچھے کرنےلگیں ۔۔ میرا ذہن جیسے نشے میں تھا۔۔وہ ایک ادا سے اپنی ہتھیلی کو لن کی ٹوپی پر جب پھیرتی تو ٹوپی میں جیسے کرنٹ دوڑ جاتا ۔۔ ہلکا ہلکا رساو ۔۔۔لن کی ٹوپی ہلکی سی بھیگ چکی تھی وہ ہتھیلی کو گھماتے ہوئے بولیں۔۔۔ تمہیں پتہ ہے یہ مووی میرےپاس کچھ سال پہلے کی ہے۔۔۔ میں کبھی کبھی دیکھا کرتی تھی ۔۔۔ آج سوچا تمہارے ساتھ ملکر دیکھتے۔۔۔ وہ بڑے لگاو سے ہاتھ کی مٹھی کیپ پر جماتیں اور جڑ تک لیجاتی۔۔ لن گویا پھٹنے والا تھا ۔۔ میں نے انہیں اپنی طرف کھینچا ۔۔۔ انہوں نے مجھے ہاتھ سےمجھے روکا اورکہا تمہیں میں ایسا سیکس سکھاوں گی کہ جس عورت کے پاس بھی گئے وہ تمہاری دیوانی ہو جائے گی ۔۔۔ میں تمہیں بتاوں گی عورت کیسے مست ہوجاتی ۔۔ لن تو تمہارا تگڑا ہے ای۔۔ اس ہتھیار کو چلانے کی پوزیشنیں تمہیں سکھاوں گی۔۔۔ لیکن وہ ایک لحظہ رکیں ۔۔ تمہیں ۔۔۔ مجھ سے دو وعدے کرنے ہونگے ۔۔۔۔میں جانتی ہوں۔۔۔ تمہارا اور میرا جوڑ بلکل بھی نہیں ۔۔ تمہاری جوانی کا آغاز اور میرے آخری آخری جھٹکے ۔۔تم بے شک سو لڑکیوں سے تعلق رکھو لیکن ۔۔۔ تمہیں وعدہ کرنا پڑے گا کہ مجھے ہفتے میں ایکبار ضرور ملو گے ۔۔۔میں بہت تنہا رہی اب اور نہیں رہنا چاہتی ۔۔ 

میں نے ہاتھ بڑھایا اور کہا ۔۔۔ وعدہ ہوا ۔۔۔ انہوں نے خوشی سے میرا ہاتھ تھاما اور میرے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھ سے گردن کے پیچھے ہاتھ کر کے نائٹی کی ڈور کو اوپن کر دیا ۔۔۔ جیسے ہی گانٹھ کھلی ۔۔۔۔ مخملیں نائٹی سرک کر جسم سے کھسکتی گئی ۔۔۔۔۔ اور نیچے انکا صاف شفاف بدن چمکتا ہوا ظاہر ہوا۔۔۔ افففف انکے تنے ہوئے بوبز اور بوبز کے موٹے نپلز ۔۔ میں نے انگشت سے انہیں ہلکا سا ٹچ کیا۔۔ موٹے نپلز ہلکا سا تھرتھرائے ۔۔۔ انہوں نے کہا کھڑے ہو جاو اور سب اتار دو۔۔۔ میں جیسے بے لباس ہوا ۔۔۔ وہ میرے ساتھ لگیں اور اپنے پاوں کو میرے پاوں سے رگڑتے ہوئے سیکسی ٹانگ میری ٹانگ پر رگڑتے ہوئے لن تک لائیں اور اپنی نرم ران سے سہلانے لگیں ۔۔۔ بے لباس دونوں کھڑے ۔۔۔ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ۔۔۔ ہلکا ہلکا سا رگڑ دے رہے ۔۔۔ پھر وہ پلٹیں اور اپنی گانڈ کو میرے لن پہ پھیرنے لگیں ۔۔ ہلکے سے۔۔۔ میں ہاتھ آگے کر کے انکے موٹے نپلز کو انگلیوں سے ہلکا سا مسلنے لگا۔۔۔وہ کسی ناگن کی طرح موج میں ۔۔۔ لن پہ گامڈ رگڑے جا رہی تھیں ۔۔۔ میں انکی گردن کے پاس جھکا اور کہا ۔۔۔۔۔آج میرا لن جیسے پھٹنے کو ۔۔۔ انکےمنہ سے نادنستگی میں نکلا ۔۔۔ دودھ میں سنیاسی کی دوائی شامل تھی ۔۔۔ تمہارے انکل لائے تھے ۔۔۔ بےچارے شوگر کے مریض ہیں ۔۔۔نا ۔۔۔ پریشان ناہو ۔۔۔ اسکو فٹ کر لیتی ہوں میں۔۔۔ 

وہ مجھے دھکیل کر صوفے پہ بٹھاتی ہوئی ۔۔۔ بولیں۔۔ میں صوفے کی ٹیک سے کمر لگائے ٹانگیں پھیلاکر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ وہ میری گود میں ۔۔۔ جیسے کرسی پر بیٹھتے ۔۔۔ انکی کمر میرے سینے سے لگ رہی تھی ۔۔۔ میرے دونوں ہاتھ ۔۔۔ انکے نپلز کے گرد۔۔۔ وہ پھدی کو لن کی ٹوپی پر جما کر بولیں۔۔۔ سبق نمبر ایک۔۔۔ اس طرح لن سہی رگڑ کر اندر تک جاتا ہے اور ہلکا سا بیٹھتی گئیں ۔۔ اور بولیں ۔۔ خبردار دھکا نا مارنا۔سامنے ٹی وی پر دونوں کی نظر جمی تھی۔۔ وہاں گورا گوری ٹنا ٹن چدائی کر رہے تھے۔۔۔ سامنے ڈریسنگ ٹیبل پڑا تھا۔۔ جس کے شیشے میں آنٹی سامنے سے نظر آ رہی تھیں اففف کیا قیامت نظارہ تھا۔۔۔انکی آنکھیں نیم مندی تھیں اور چہرے پہ جیسے چمک سی ۔۔۔ وہ لبوں کو لبوں سے مسلتے ہوئے گرم آہیں بھر رہیں تھیں۔۔۔ انکی پھدی تو لگتا ہے آج زیادہ ہی تنگ ہو گئی تھی جیسے میرا لن کچھ زیادہ ہی ٹائٹ تھا ۔۔۔ آدھے تک لن اندر پھنسا ہوا تھا۔۔کسی سرمے دانی کی طرح ۔۔۔۔ بلکل اندر جاتا لن۔۔۔ آنٹی نے اب آدھے لن پر ہی ہلکا ہلکا اوپر نیچے ہونا شروع کیا۔۔ پھدی کی گرم دیواروں کے ساتھ۔لن کے ٹوپے کی کناری رگڑ کھا رہی تھی۔۔۔۔ وہ سرگوشی سے بولیں۔۔ تمہارے لیے آج پھدی کو پھٹکڑی سے دھویا ہے میں نے۔۔۔ اس سے بہت تنگ ہو جاتی ۔۔۔۔ اففففففف وہ سسکیں ۔۔۔ اور کہا جیسے ہی میں نے کہا تمہیں اشارہ کیا تم لن کو جھٹکے سے اندر کر دینا ۔۔ اففف مجھے سہی سے رگڑ دینا۔۔۔۔ میری پھدی کے اندر تیز رگڑ۔۔۔۔ میں تو پہلے سے ہی منتظر تھا۔۔۔ پھر جیسے ہی انہوں نے میرے کندھے کے ساتھ سر لگایا اور ہاتھ سے مجھے تھپھتھپایا ۔۔ میں نے ایک ہاتھ انکے ہونٹوں پر رکھا اور انکے کندھے کو نیچے کی طرف دباتے ہوئے نیچے سے تیز دھکا مارا۔۔۔ ٹوپہ تباہی مچاتا ہوا اندر جڑ تک گھس گیا۔۔۔ آنٹی کے ہونٹوں سے تیز چیخ نکلی ۔۔ جو میرے ہاتھ کے نیچے دب گئی۔۔۔ کچھ دیر میں رکا رہا۔۔۔ اور انہیں بازوں میں بھر کر تھوڑا سا اوپر کر کے پھر چھوڑا۔۔۔ وہ اپنے گولو بدن کے وزن سے لن پر سلپ ہوتی اندر تک لیتی گئیں۔۔۔میری وحشت بھڑک چکی تھی۔۔۔ میں نے ایسے ہی انہیں بٹھائے بٹھاے اٹھا اور انکو صوفے کی طرف گھمایا ۔۔ انکے دونوں بازو صوفے کی نشست پر رکھے اور دے دھکے پہ دھکا۔۔۔ لن کسی پسٹن کی طرح باہر نکلتا اور اندر جاتا۔۔۔ وہ مست سسکیاں بھر رہیں تھیں۔۔اب لن کسی حد تک رواں ہو چکا تھا۔۔۔ شائد دودھ کا اثر تھا کہ دور دور تک میرے چھوٹنے کا نشان نا تھا۔۔۔ اب وہ صوفے پر جھکی گھوڑی بنی تھیں اور میں تیزتیز گھوڑا دوڑاے جا رہا تھا۔۔۔وہ ایک جوش میں گانڈ کو گھماتی جس سے میرا لن کسی ڈرل کی طرح گھومتا ہوا اندر تک جاتا۔۔۔۔ اااااااااااااااف انکا جسم جتنا نازک تھا اتنا ہی گداز والا بھی۔۔۔ 

۔انکا سر صوفے سے ٹکرا رہا تھا ریشمی بال الجھ کر بکھر چکے تھے۔۔۔ گانڈ پر میرے ہاتھوں کے نشان ۔۔۔ اور انکی آہ آہ کی تیز سسکیاں ۔۔۔ انہی سسسکیوں میں انکی آہیں شدید ہوتی گئیں اور ایک جھٹکے سے وہ فارغ ہونا شروع ہو گئیں۔۔۔میں نے باہر نکالا ۔۔ میرا لن بلکل تنا تھا ۔۔۔ انکے پانی سے چمک رہا۔۔ اور وہ مدہوش صوفے پر۔۔۔ اس رات وہ تین بار فارغ ہوئیں۔۔ تب جا کرمیں فارغ ہوا۔۔۔ یہ سب انکے دودھ کاکمال تھا۔۔۔ ساتھ ساتھ وہ مجھ عورت کی کمزوریوں۔۔۔ نپلز ۔۔ کان کی لو۔۔ گردن ۔۔بوبز ۔۔۔ پاوں کا تلوہ ۔۔۔ پھدی کا دانہ ۔۔۔ایک ایک مقام کی حساسیت بتاتی گئیں ۔۔۔ 

 

صبح کا اجالا پھیلنے سے پہلے میں اوپر اپنے کمرے میں آ کر بے سدھ لیٹ گیا۔۔۔حیرت کی بات یہ تھی کہ ایک لمبی چدائی کرنے کے باوجود لن میں ہلکی سی اکڑاہٹ موجود تھی ۔۔ یہ سب اس دودھ کا کمال تھا۔۔اپنی جوانی کے آغاز میں ۔۔میں ناصرف سیکس کر چکا تھا بلکہ ایک ایسی آنٹی سے کر چکا تھا جو فل ٹرینڈ تھی اور جو مجھے اور پالش کرنے کے لیے مکمل تیار تھیں۔۔۔ اور میں تو تھا ہی الہڑ جوان جب ایسی باتیں ہی بھاتی ہیں۔۔اگلے دن میری آنکھ پھر انٹرکام کی گھنٹی سے کھلی ۔۔۔دوسری طرف جب میں نے آواز سنی تو میں حیرت سے ششدر رہ گیا۔۔۔ اور جمپ مار کر نیچے اترا جلدی سے منہ پر دو چھپاکے مارے اور سیڑھیاں پھلانگتا ہوا نیچے کو گیا ۔۔ سامنے ہی برآمدے میں اماں موجود تھیں۔۔۔ میں کسی بچے کی طرح انکے گلے سے جا لگا۔۔۔ اور وہ میرا منہ ماتھا چومتے ہوئے بولیں۔۔۔ بہت ہی نالائق ہو تم۔۔ چار دن ہو گئے ۔۔ تم نے فون تک نہیں کیا۔۔۔شہر میں آکر بھول گئے ۔۔۔ میں شرمندہ سا ساتھ لگا رہا۔۔۔ وہ مجھے ساتھ بٹھاتے ہوئے بولیں ۔۔ مجھے بڑی فکر تھی تیری۔۔۔ چار دن نہیں چار سال گزر گئے ۔۔ آج میں نے تیرے ابا سے کہا جو بھی ہے مجھے آج لے جائے ملانے ۔۔۔میں دلار سے انکے ساتھ لگ گیا۔۔باہروالی بیٹھک میں سے ابا بھی میری آواز سن کر نکل آئے۔۔۔ اور مجھ سے ملتے ہوئے کہا۔۔۔ تمہاری اماں مجھے سویرے سویرے لے آئی ۔۔۔کہتی شام تک واپسی کے لیے سویرے سویرے نکلتے ہیں۔۔یہ سن کر کچن سے آنٹی نے کہا ۔۔۔ لو آئے ہیں نہیں اور جانے کو جلدی ۔۔ نا باجی ۔۔ اتنے وقتوں بعد ملی ہو میں آج کوئی نہیں جانے دینا۔۔۔ میرا پتر دلاور ابھی سکولے جاتا تھا تب ملاقات ہوئی تھی۔۔۔ میں اور ابا انکی آپسی نوک جھونک سے ہنسنے لگے۔۔۔ اماں بولیں ۔۔ تم ہنس لو۔۔ گیارہ بجے میں آئی تھی ۔۔تب تک تم سو رہے تھے ۔۔ ساری رات کونسے ہل جوتتے رہے ہو۔۔اماں نے ممتا بھری خفگی سے مجھے کہا۔۔ ہل جوتنے والی بات پر میری اور آنٹی کی نظریں آپس میں ملیں اور دونوں نے جھینپ کر نگاہیں پھیر لیں۔۔ اماں کو کیا ہتہ تھا میں ساری رات ہل ہی جوتتا رہا تھا۔۔تھوڑی دیربعد ہم سب اجتماعی ناشتہ کرنے لگے ۔۔ بھابھی تو چپ دیوی تھیں ای ۔۔ خلاف توقع آنٹی بڑی چادر میں لپٹی اماں کے ساتھ ای مگن تھیں۔اور میری طرف سے مکمل لاپرواہ سی۔۔۔ ایسے ہی باتوں میں دن گزر گیا۔۔۔ آنٹی نے اماں کو واپس نہیں جانے دیا 

رات کے کھانے کے پر آنٹی نے پرتکلف اہتمام کیا اور کھانے کے بعد بھابھی عمبرین نے سب کو اسپیشل سبز چائے بنا کر دی۔۔۔۔ابا سحر خیز آدمی تھے۔۔۔ وہ جلد ہی چائے کے بعد لیٹنے چلے گئے ۔۔ اب ہم چار بیٹھے باتیں کیے جا رہے تھے اصل میں تو اماں اور آنٹی ہی جانے کس زمانے کے قصے چھیڑ رہی تھیں۔۔باتوں میں اماں بتانے لگیں کہ میرا پتر بہت فرمانبردار ہے۔۔۔ آنٹی کو تو موقع چاہیے تھا وہ بھی کہنے لگیں باجی سچی نعیم بہت چنگا منڈا ہے۔۔ہمارے لیے بڑی آسانی ہو گئی بہت دل لگا رہتا ہے ۔۔ بس شرماں والا بہت ہے ۔۔ میں نے چونک کر دیکھا تو آنٹی نے مجھے آنکھوں سے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔اور کہنے لگیں ۔۔ میں کتنا کہتیں ہوں کم از کم کچھ دیر میرے پاس بیٹھا کر ۔۔۔تمہاری آنٹی ہوں تم بھانجے ہی لگتے میرے۔۔ اماں نے فورا ہاں میں ہاں ملائی اورمجھے حکمیہ کہنے لگیں کہ تم نے روز اپنی خالہ کو وقت دینا ہے جیسے سونے سے پہلے مجھ سے باتیں کرتے تھے بلکل ویسے ۔۔ میری بھولی اماں کیا جانتی تھیں ۔۔کہ آنٹی زمین بنا رہیں ہیں ۔۔۔ اماں سب کو میرے اچھے نمبروں کا بتانے لگیں میرے کتابوں کے شوق کا ۔۔خلاف معمول بھابھی بھی اماں سے باتیں کر رہی تھیں ۔۔ ورنہ میں جب دیکھا کم بولتےہی دیکھا تھا۔۔۔ جب انہیں پتہ چلا میرے کافی اچھے مارکس تھے اور میں ذہین منڈا تھا تو انکی نگاہوں میں ستائش ابھری۔۔ کہتیں خالہ میری میٹرک میں فرسٹ پوزیشن تھی میں آگے کالج پڑھنے کی تیاریوں میں تھی کہ اماں ابا کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا۔۔ اور خالہ مجھے اپنے پاس لے آئیں ۔۔۔ یہاں انہوں نے بہت کہا لکن پھر میرا دل نہیں مانا۔۔چند دن پہلے نعیم کے کمرے میں بکس دیکھیں تو میرا دل کیا اورمیں ایک ناول لے آئی۔۔۔ اسکی باتوں پر خالہ کی تو سمجھ آئی میری اماں کیوں جذباتی ہو گئیں سمجھ نہیں آئی تو کہتیں ہاں تو نعیم ویر ہے تمہارا۔۔۔ تم جب چاہے کتاب مانگ لینا۔۔۔ اماں کے ویر کہنے پر میرے دل پر آریاں چل پڑیں ۔۔تب آنٹی بولیں ویسے ایک آئیڈیا اور بھی ہے ۔۔۔۔تم اگر پڑھنا چاہو تو پرائیویٹ پڑھ لو۔۔۔ نعیم تمہاری مدد کر دے گا تم آرام سے اس کے ساتھ گھر میں پڑھ لینا۔۔کیوں باجی ۔۔ پہلے تو میں کسی ماسٹر کو بلا نہیں سکتی تھی ۔۔ جوان بچی کو ایسے کیسے کسی ماسٹر کے پاس بٹھا دوں اب نعیم تو گھر کا فرد ہر وقت ساتھ رہتے تو پڑھ بھی لو اسی سے۔۔۔ اماں فورا بولیں ۔۔ ہاں ہاں کیوں نہیں ۔۔بھابھی گویا بات نکالکر پھنس گئیں اور آخر مان گئیں کہ ٹھیک ہے آگے کا سوچتی ہوں۔اور میں اسی خوشی میں نہال ۔۔۔اگلے دن اماں اور ابا واپس چلے گئے۔۔۔ انکے جانے کےبعد بھابھی نے آنٹی سے کہا کہ خالہ ۔۔وہ نائلہ کے سسرال والے آج سامان لینے آ رہے ۔۔ چھ دن بعد تو بارات ہے۔۔۔اگر آپ اجازت دیں تو میں ادھر چلی جاوں ۔۔ کافی کام ہے انکے ہاں ۔۔ کپڑوں کو پیک کرنا سارا سامان دکھانا وغیرہ ۔۔۔ آنٹی نے کہا ہاں ہاں تم ہو جاو تیار نعیم تمہیں چھوڑ آتا ہے۔۔۔ اور ہاں جاتے ہوئے راستے سے کوئی اچھا سا گفٹ لے لینا ۔۔۔ جو کل دینا ہے آج دے دو جہیز میں لگ جاے گا سبکو پتہ بھی چل جاے گا کہ خالی سہیلی نے کہا بن کر بھی دکھایا ہے ۔۔۔ویسے تو میں کچھ رقم پہلے دےآئی تھی کہ میری ہی بچی جیسی ہے۔۔۔ آنٹی خالص زنانہ سوچ سے پلان کیا۔۔۔ بھابھی نے جی اچھا کہا اور تیار ہونے چلی گئیں۔۔۔ انکے جانےکےبعد میں کوئی شوخ جملہ مارنے ای لگا تھا کہ انہوں نے سنجیدگی سے کہا جاو تم بھی منہ دھو کر تیار ہو جاو۔۔ میں چپ اٹھ کر اوپر آ گیا۔۔۔ تیار ہوکرہم دونوں گھر سے نکل پڑے ۔۔۔ میں نے بھابھی سے پوچھا کہ گفٹ کہاں سے لینا ہے ۔۔ انہوں نے بتایا کہ مین بازار سے سڑک کی اس طرف۔۔۔راستے میں چلتے چلتے میں نےخاموشی توڑی اور کہا ۔۔۔ پھر کیا سوچا ہے آپ نے پڑھنے کے بارے میں۔۔۔ وہ جیسے کسی سوچ سے باہر آئیں اور بولیں ابھی کچھ نہیں۔۔۔ میں نے کہا ہیں ۔۔۔۔وہ بولیں اب کیا پڑھنا ۔۔ بس بات منہ سے نکل گئی اور پکڑائی ہو گئی۔۔ لیکن یہ تو اپنی ذہانت کو زنگ لگانے والی بات ہے نا۔۔ 

وہ عذر بناتیں گئیں اور میں آگے سے سو جواب دیتا گیا۔۔۔ انہی باتوں میں بازار پہنچ گئے۔۔ وہاں سے بھابھی نے ڈنر سیٹ خریدا اور کہا یہ سہی ہے میں اسکے کان میں بات ڈال آئی تھی کہ میں اچھا سا پتھر کا سیٹ گفٹ کروں گی ۔۔ سیٹ لینے کے بعد واپسی پر بھی یہی بات ہوتی رہی آخر زچ ہو کر وہ بولیں ۔۔تم بہت تیز ہوں ۔۔ اب بس اس موضوع پر سوچوں گی میں ۔۔ انہوں نے نیم اثباتی کا اظہار کیا۔۔میرے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے ۔۔۔ مجھے ان سے عجیب انس سا محسوس ہوتا تھا۔۔۔آنٹی میں مجھے شکارنی کا احساس ہوتا تھا اور بھابھی کو دیکھ کر کسی ہرنی سا ۔۔ کچھ ہم عمری بھی تھی۔۔انہیں چھوڑ کر جب میں واپس آیا تو آنٹی خلاف توقع برآمدے میں نارمل حلیہ میں موجود تھیں ۔۔ میں انکے پاس گیا اور کہا جی اب کیا کروں استانی صاحبہ ۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولیں۔۔چپ کر کے بیٹھ جاو۔۔۔ 

کچھ دیر بعد وہ بولیں ۔۔۔ مجھےتم سے ضروری بات کرنی ہے 

رات تمہارے جانے کے بعد میں تمہاری اماں مجھے تمہارے بارے میں اپنے خواب سنا رہی تھیں تو مجھے احساس ہوا کہ تمہیں کچھ دھیان اپنے کالج پہ دینا چاہیے ۔۔۔ کب سے کھل رہا ہے تمہارا کالج ۔ جی پرسوں شیڈول لگے گا۔۔ وہ پوچھتیں گئی میں بتاتا گیا۔۔۔ پھر کہنے لگیں دیکھو نعیم اب جو میں بات کرنے لگی ہوں اس میں ہم دونوں کا فائدہ ہے۔۔۔ جو رشتہ ہم دونوں کے بیچ بن چکا ہے وہ ہم ہفتے کی رات رکھ لیں گے ۔۔۔ ہر ہفتے کی شام پہلے میں تمہارے کالج کی رپورٹ لوں گی اسکے بعد رات کو استانی بن کر ویک اینڈ نائٹ پہ سویٹ سا نیا سبق دوں گی ۔۔۔۔اگر عمبرین مان جاتی ہے تو تم اسکی مدد کر دیا کرنا۔۔۔ انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔۔ تمہاری اماں مجھے کہہ کر گئی ہیں میرے بچے پر نظر رکھنا اور میں وعدہ کر چکیں ہوں ۔۔۔ تعلیم تمہارا مقصد ہے سیکس سیکھنا نہیں ۔۔۔۔ آنٹی نے پہلی بار سمائل دیکر کہا۔۔۔ مجھے بھی کچھ کچھ شرمندگی تھی کہ میں جب سے آیا بس جسم پڑھ رہا تھا کتاب نہیں ۔۔۔ میں نے کہا اوکے ڈن ۔۔۔۔۔۔۔ باقی تم نے یہاں رہنا ہے اب ۔۔ محلے میں تم میرے بھانجے ہو بس بات ختم ۔۔ یہاں دوستی وغیرہ کرو بےشک گھومو کھیلو ۔۔ وہ تمہاری مرضی لیکن سٹڈی پر نو سمجھوتہ ۔۔ میں نے کہا جی ڈن ہو گیا۔۔۔ اب تم جاو ۔۔ انہوں نے کہا اور مجھےرکا دیکھ کر کچھ بات کرنی کیا ؟ ،،،میں نے شرارتی انداز میں کہا جی وہ پوچھنا تھا آج بھی ہفتہ ہے تو آج رات پھر سویٹ سبق کی امید رکھوں۔۔۔ وہ کھکھلا کر ہنسیں اور کہا بہت تیز ہو تم ۔۔ کالج تو پرسوں سوموارسے کھلیں گے اصولا ویک اینڈ والی بات اگلے ہفتے سے بنتی ہے ۔۔۔ میں نے انکی بات کاٹی اور کہا دیکھیں اب دل نا توڑیں ورنہ میں اماں سے شکائت کر دوں گا میں نے جوابی بلیک میل کیا وہ اور ہنسیں اور کہا اچھا بھئی ۔۔۔ تمہارے لیے آج رات ایڈوانس سویٹ سبق ۔۔۔ نئے سفر سے پہلے ایک پیاری سی رات۔۔۔ پچھلا سبق سنوں گی اور اگلا سناوں گی۔۔۔ اب بھاگو۔۔۔ اور میں کودتا اوپر کمرے میں 

شام کو آنٹی مجھے کہنے لگیں چلو ایکبار شادی والے گھر سے ہو آتے ہیں۔۔ شادی کا جہیز پھیلا رہے ۔۔ ویسے تو سب دیکھا ہوا لیکن اچھے تعلقات ہیں ۔۔ روایتی طور پر جانا چاہیے۔۔ کچھ دیر بعد آنٹی اور میں تیار ہو کر شادی والے گھر کو چل دیے۔۔۔ آنٹی تو اندر زنان خانے میں گھس گئیں اور میں باہر ۔۔ اتنی دیر میں ناصر بھی نظر آگیا۔۔۔اسنے مجھے دیکھ کرخوشی کا اظہار کیا اور شکوہ کیا کہ مجھے امید تھی آپ بھابھی ساتھ رکیں گے۔۔۔ سامان کو ادھر ادھر لیجانے میں مدد کریں گے لیکن کہاں جی۔۔۔ میں نے شرمندگی سے معذرت کی تب وہ میرے شانے پر ہاتھ مار کر بولا چلیں جو ہونا تھاہو گیا۔۔اب چلیں میرے ساتھ تھوڑی مدد کر دیں ۔۔اور میں اسکے پیچھے پیچھے چل دیا۔۔کچھ دیر کے بعد بھاری سامان لوڈ ہونے لگااور میں ناصر کے ساتھ اٹھوا اٹھوا کر باہر ٹرک تک لانے لگا بیڈ ڈریسنگ شوکیس وغیرہ رکھا جا چکاتھا۔۔ ناصر ٹرک پر چڑھا سامان ایڈجسٹ کر رہا تھا میں نیچے سے ۔۔۔اچانک ناصر کو کچھ یاد آیا اور وہ ماتھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔۔ بھائی آپ اوپر چھت پر بھاگھم بھاگ جائیں اور اوپر والے سٹور میں بیڈ کے گدے نے نیچے بچھانے والی لکڑی کی لڑیں اٹھا لائیں ۔۔ بھولنے لگے تھے ۔۔ اسکی بات سن کر میں سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا۔۔ سٹور کا دروازہ نیم وا تھا اور میں اپنی جلدی میں تیزی سے جیسے ہی اندر داخل ہوا مجھے شدید جھٹکا لگا۔۔سامنے ایک چارپائی پر بھابھی عمبرین ایک اور لڑکی کے چہرے پر سکرب کر رہیں تھیں۔۔غضب ڈھانے والا انکا حلیہ میرے سامنے تھا۔۔۔ وہ اپنے دھیان میں انکےدونوں ہاتھ سکرب والے تھے انکا دوپٹہ سائیڈ پر پڑا تھا۔۔۔ بالوں کی لٹ سامنے چہرے پر جھول رہی تھی۔۔۔ اور انکے سینے کا وہ سرخ تل ۔۔۔ بلکل کنواری لڑکی کی طرح کا تنا ہوا سینہ۔۔ مجھے ایسے اچانک دیکھ کر وہ سٹپٹا اٹھیں۔۔دوسری لڑکی چہرے پر سکرب کی وجہ سے پوری بھوتنی لگ رہی تھی ۔۔ میں خجل ہو کر جلدی سے دو لروں کو گھسیٹتا ہوا باہر نکالنے لگا۔۔ میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔۔بھابھی میں عجیب مقناطیسیت تھی ۔۔۔ سادگی میں عجب سا بانکپن ۔۔ایک عجیب مقناطیسی ہالہ تھا انکے گرد۔۔ٹرک کو روانہ کرنے کے بعد ناصر مجھے لیے لیے پھر اوپر آگیا۔۔ اوپر سٹور والی پیٹی سے رضائیاں نکالنی تھیں۔۔۔ اسکی دو پھپھو آج سے ہی آ گئیں تھیں۔۔۔ اسبار میں نے مہذب بنتے ہوئے زور سے کھانسا۔۔ اتنی دیر میں سکرب دھل چکا تھا۔۔۔ بھابھی اسبار دوپٹہ اوڑھ چکیں تھیں۔دوسری لڑکی جو انکی سہیلی ناصر کی بہن اور اس شادی کی دلہن نائلہ تھیں اسبار سکرب اترنے سے اسکا اصل چہرہ دیکھا۔۔بھابھی کے ببرعکس وہ مجھے تھوڑی تیز ہشیار لگی اس نے مجھے پر شوق نظروں سے دیکھا اور ہولے سے کچھ بات کی بھابھی سے مجھے اندازہ ہوا کہ اس نے تصدیق کی کہ میں ہی انکے گھر ٹپکا بھانجا ہوں۔۔ناصر ہنس ہنس کر بہن اور بھابھی سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔نائلہ نے مجھے سپیشل کہا کہ شادی پر وقت دینا ۔۔ سو کام ہوتے ہیں ۔۔ عمبرین کے دیور ہو ۔۔ تومیرا حق بنتا۔۔۔ میں جی ضرور کہتا ہوا چپ ہو گیا۔۔۔ ان لوگوں کے پر ضرور اصرار پر وہاں سے ای کھانا کھا کر ہم تینوں واپس آئے ۔۔۔راستے میں میڈیکل سٹور کے پاس سے گزرتے ہوئے خالہ نے اچانک سے کہا ارے رکو ۔۔ میں نے دوائی لینی ہے۔افففف خالہ آج پھر آپ نے بدہضمی کر لی نا ۔۔۔ بھابھی نے تشویش سے کہا اور آنٹی ہمیں رکنے کا کہہ کر اندر چلی گئیں۔۔۔ہم دونوں باہر کھڑے سٹور کی جلتی بجھتی بتیوں میں بھابھی کا جھلملاتا چہرہ۔۔۔ شیشے والے دروازے سے اندر خالہ کاونٹر پر انتظار کر رہی تھیں۔۔۔ دونوں میں کتنا فرق تھا ایک سورج جیسی جھلسا دینے والی دوسری چاند جیسی ٹھنڈک لیے۔۔۔ تھوڑی دیر بعد آنٹی باہر نکلیں اور ہم گھر کو چل دیے ۔۔۔ 

گھر پہنچ کر آنٹی ہم دونوں کو لیے کمرے میں آ گئیں ۔۔ آج صبح سے آنٹی کافی سنجیدہ سنجیدہ سی تھیں ۔۔۔ آنٹی نے بھابھی کو چائے بنا کر لانے کا بولا ۔۔ اور مجھ سے کالج شیڈول کی باتیں کرنے لگ پڑیں۔۔۔ جیسے ہی بھابھی کمرے سے نکلیں ۔۔میں بے تابانہ سویٹ سبق کا پلان پوچھا۔۔۔ انہوں نے مجھے گھرکا اور کہا جب کہہ دیا تو کہ دیا نا کہ سبق ملے گا۔۔مجھے یاد رہتا ہے۔۔ اب میری بات سنو۔۔ جو جو میں بولی تم نے طریقے سے تصدیق کرنی ہے اسکی ۔۔۔میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔کچھ دیر بعد بھابھی واپس آئیں ۔۔۔تو آنٹی نے کہا۔مجھے تم دونوں سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔ ہم دونوں سنجیدگی سے ان کی طرف دیکھنے لگے ۔۔۔ وہ بولیں۔۔۔ کل جب عمبرین نے میری مرحومہ بہن کا ذکر کیا اور اپنے پڑھنے کا خواب بتایا تو ساری رات میں ڈسٹرب رہی۔۔۔ اب میں چاہتی ہوں کہ تم پرائیویٹ پڑھو۔۔ بال بچہ تو ہے کوئی نہیں کہ ڈسٹربنس ہو تمہیں۔۔۔نا خاوند گھر کے اسکے کام۔۔ اتفاق سے نعیم بھی ہے تمہاری مدد کو۔۔بھابھی کچھ بولنے لگیں تو آنٹی نے اسے گھرک کر کہا۔۔ بس چپ۔ پھر آنٹی نے مجھے بتایا کہ بھابھی فرسٹ ائیر آدھا سمسٹر اٹینڈ کیا تھا۔۔ تم تو تیرہویں میں ہو گیارہویں کی تیاری کرا سکو گے۔۔ میں بھلا کیسے منع کر سکتا تھا۔۔بھابھی بس چپ سر ہلاتی رہیں جیسے ماضی میں گم ہوں ہلکی سی اداسی انکے چہرے پر چھا چکی تھی۔۔۔بھابھی کا موڈ دیکھ کر آنٹی بولیں ۔۔ اب جو میں نے کہا ہے اس پر عمل ہونا چاہیے ۔۔ نعیم کا کالج کھل لے اسکے شیڈول کے ساتھ ٹائم ٹیبل بنا لینا۔۔۔ اور اب ساری رات پرانی باتوں کو یاد کر جاگتی نا رہنا۔۔۔ سو جانا۔۔بلکہ تم آج میری گولی کھا لو ۔۔ اعصاب ریلیکس ہو جائیں گے۔۔میں آنٹی کے پلان کو سمجھ رہا تھا میں بھی فوری بولا بلکل ۔۔ ایزی ہو جائیں ۔۔ آپکو خوش ہونا چاہیے کہ آپکی اتنی اچھی ساس۔۔۔ تب آنٹی نے بھابھی کو ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔۔ یہ میری بہو نہیں بیٹی ہے بھانجی ہے میری بہن کی نشانی ہے اور میری سہیلی بھی ہے۔۔ مجھے اسکے اندر کے ہر دکھ کا پتہ ہے ۔۔۔بھابھی نے چونک کر آنٹی کو دیکھا۔۔۔ کچھ تھا جسکی پردہ داری تھی لیکن میں چپ رہا ۔۔۔ آنٹی نے اپنے سامنے انہیں گولی کھلائی اور ہم دونوں کو جانے کا کہا۔۔۔ ہم نکلنے لگے تو آنٹی بولیں ۔۔ نعیم اگر زحمت نا ہو تو کوئی اچھا سی مووی مجھے بھی دے جانا سنا ہے تمہارے پاس اچھی کلیکشن ہے بکس اور موویز کی۔۔ میں بات سمجھتت بولا جی کچھ دیر تک دے جاتا ہوں۔۔ باہر نکل کر ہم دونوں خاموشی سے بھابھی کے کمرےتک آئے ۔۔ میں نے انہیں کہا ۔۔ زندگی بار بار موقع نہیں دیتی ۔۔ آپ کو زندگی موقع دے رہی ہے۔۔ ہمت کریں اور اپنی زندگی کو بدل کر دیکھیں ۔۔ انہوں نے ہلکی سمائل دی اور کمرے میں چلی گئیں ۔۔ اوپر آ کر میں فریش ہوا اور سویٹ سبق کے لیے ذہن اس طرف لیجانے لگا۔۔۔ کچھ دیر بعد جب مجھے لگا اب نیچے بھابھی لیٹ چکی ہوں گی میں صحن میں آیا ۔۔ نیچے ابھی تک بلب روشن تھا۔۔ کچھ دیر گزری تھی کہ صحن کا بلب بند ہو گیا۔۔۔ یہ نشانی تھی کہ ماحول صاف ہے اور میں ہلکے قدموں سے سیڑھیاں اترتا آنٹی کے کمرے میں داخل ہوگیا 

آنٹی نے مسکرا کر مجھے دیکھا ۔۔ پورے دن کے بعد پہلی بار۔۔۔ آنٹی نے میرا ہاتھ پکڑا اور بیڈ پر ساتھ بٹھاتے ہوئے بولیں ۔۔ آج میں بہت خوش ہوں نعیم ۔۔۔۔مجھے کبھی کبھی یہ احساس ہوتا تھا کہ عمبرین کے ساتھ زیادتی ہو گئی ۔۔ میرے میاں کے ڈرائیور ہونے کی وجہ سے دلاور شروع سے ہی سمجھو ٹرک پر پلا بڑھا۔۔سکول بھی چار جماعتوں کےبعد چھوڑ دیا اس نے۔۔۔عمبرین کے والد نے پسند کی شادی کی تھی ۔۔۔ اسکے گھر والے اس سے ناراض ہی رہتے تھے بس کبھی کبھی کا ملن تھا وہ بھی بس اسکے ابو کا۔۔۔ میں اسے اپنے گھر لے آئی۔۔۔ اسکے ماں باپ کا گھر گلبرگ میں ہے ۔۔۔ میرے میاں نے بہتیرا چاہا ہم وہاں رہیں لیکن بس میرا دل نہیں مانا۔۔۔ اپنے طور تو میں اسے اپنے سامنے رکھنے کے لیے اسکی شادی دلاور سے کی لیکن بہت جلد مجھے احساس ہو گیا کہ دلاور تو بہت ہی اجڈ اور بد تمیز ۔۔۔ اور یہ صابر بچی۔۔۔ تم حیران ہو رہے ہو گئے آج میں کیسے باتیں کر رہی ۔۔۔ میں ایسی ہی ہوں ۔۔ ہمارا وہ تعلق بس ایک سیکڑٹ بات ہے سب سے الگ۔۔ سمجھو اگر تمہارے انکل کو شوگر نا ہوتی تو شائد ہمارا یہ تعلق نا بنتا۔۔۔بےشک پیاس ہے لیکن عمر ڈھل رہی۔۔۔ تم مجھ سے وعدہ کرو جب تک یہاں ہو میری مدد کرو گے ۔۔ سبق پڑھنے میں بھی اور عمبرین کو پھر سے واپس لانے کے لیے اور خود بھی اچھے سے پڑھو گے ۔۔۔ میں نے فورا ہاتھ بڑھا کر وعدہ کر لیا۔۔۔ جیسے ہی وعدہ کیا آنٹی نے مجھے ساتھ لگایا اور بولیں تھینک یو نعیم۔۔ افففف انکا ساتھ لگنا تھا سمجھو جیسے بجلی کی دو تاریں آپسی ٹچ ہو گئیں ۔۔۔ میں نے انکا ہاتھ پکڑا اور انہیں صوفےپر بٹھا کر خود سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔۔۔ اور اپنا پاوں دراز کر کے انکی ٹانگوں میں رکھ دیا۔۔۔ وہ ادا سے بولیں ۔۔ ہم تمہاری استانی ہیں ۔۔ مشرقی بیوی نہیں جو پاوں دابیں گے۔۔ میں ہنسا اور کہا ارے نہیں ہماری کیا مجال۔۔۔ ہم تو بس سبق سنانے لگے اور کل کا بدلہ چکاتے ہوئے اپنے پاوں کا تلوہ انکی پھدی پر رکھا جیسے گاڑی کا کلچ ۔۔۔اورہلکے سے کلیچ کو چھیڑا ۔ افففف انکی رانوں کا نرم گرم لمس۔۔۔ میں انگوٹھے سے انکے پھدی کے اوپری دانے اور لبوں کو کریدنے لگا۔۔ آنٹی کو جیسے کرنٹ لگا اور بولیں بڑے ہی ذہین شاگرد ہو۔۔۔ تمہیں تو سارا علم دینا پڑے گا ۔۔۔میں ایسے ہی کریدتا گیا اور وہ آہستہ آہستہ مست سسکیاں لیتی لیتی صوفہ پر نیم دراز ہو گئیں ۔۔۔۔پھدی فل گیلی ہوچکی تھی ۔۔ اب انہوں نے بھی اپنا پاوں میری گود میں رکھ دیا اور پاوں سے لن کو سہلانے لگ گئیں ۔۔۔میں پاوں کے انگؤٹھے کو گول گول گھمانے لگا ہلکے سے لٹو کی طرح ۔۔ دونوں آمنے سامنے بیٹھے سرخ بہکتے ہوئے پاوں سے ایک دوسرے کو مست کر رہے تھے یسسسسس۔۔۔ ایسے ہی انگوٹھے کو ذرا دبا کر نیچے فل لائن میں کھینچو انہوں نے مجھے اور اکسایا۔۔۔ ہم دونوں ایک عجیب ماحول میں جا چکے تھے۔۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھیں اور مجھے اپنے اوپر کھینچا۔۔لبوں کو سیٹی کی طرح گول سکیڑ کر میری گردن اور سینے پر پھیرنے لگیں اففففف۔۔۔ میرا انگ انگ تڑپ اٹھا۔۔ دوسرے ہاتھ سے وہ شلوار کے اندر ہاتھ کر کے لن کو پکڑ کر اسے سہلاے جارہی تھیں ۔۔۔اور لن فل جوبن پہ آ چکا تھا۔۔۔ لبوں کو گھماتے وہ سرگوشی کرتی گئیں۔۔ میرا یہ روپ بھی تمہارے انکل کی مہربانی ہے۔۔۔ یہ پہلے یورپ تھے ۔۔ اس زمانے میں جب کوئی کوئی جاتا تھا۔۔۔ وہاں ڈرائیوری کرتے تھے ۔۔ ٹیکسی چلاتے تھے ۔۔ بہت رنگین مزاج ۔یہ جب آتے مجھےوہاں کے قصے سناتے گوریوں کے ۔۔ مسافروں کے اور مختلف طریقوں سے مجھے ساری ساری رات چودتے تھے۔۔۔ یہ تو دلاور کی پیدائش کے بعد مسلہ بن گیا ورنہ ہمارے کم سے کم نو بچے ہوتے ۔۔ وہ ساتھ ساتھ لن سہلاتیں ۔۔میری شرٹ کو اتارتے سرگوشی میں بتا رہیں تھیں۔۔۔ انہوں نے کافی پیسہ کمایا گھربنایا ۔۔ پہلے اور کام کیالیکن اسکا تجربہ نا تھا سو پھر یہاں ہی ٹرانسپورٹ میں چلے گئے کہ یہی کام آتا ہے یہی کرتے ہیں ۔۔۔ ہم پھر سے پاکستان میں رہتے مہینوں کے لیے دور ہو گئے ۔۔ انہوں نے میرے سینےپر فل زبان گھماتے سبق سکھایا اور اسکا فائدہ بتایا ساتھ ہی بولیں۔۔۔ یہاں کی ڈرائیوری نے انہیں جلد ہی کھوکھلا کر دیا۔۔۔ میں بھی ڈھل چلی تھی لیکن عادتیں بگڑ چکی تھیں۔۔۔ ہماراتعلق اسی لیے بنا کہ ان دنوں وہ آئے ہوئے تھے تمہیں یاد ہے نا۔۔۔ تین مہینے بعد آئے اور مجھے ادھورا چھوڑ کر خود تھک جاتے۔۔۔ جنہوں نے مجھے بگاڑا خود کتنے بگڑے ہونگے سوچو ۔۔ اسلیے پاس بھی آتے اور چھیڑ چھاڑ کر کے مجھے ادھورا چھوڑ جاتے ۔۔ اسی متواتر چھیڑ چھاڑ سے ہی میں فل گرم تھی ۔۔ لہو کی تاپ کا بہانہ تھا میں گرم تھی ۔۔ تم سے تب جھوٹ بولا تھا۔۔۔ سنیاسی نے ہی مجھے بتایا تھا کہ گرمی نکالو۔۔۔ تم آسان ہدف تھے چھوٹے تھے میں بہک گئی۔۔۔خود غرض ہو گئی۔۔۔ اگر تمہاری اماں نا آتیں تو مجھے احساس نا ہوتا ۔۔اس رات مجھے احساس ہوا جب انہوں نے مجھے تمہاری ذمہ داری سونپی خالہ سمجھ کر۔۔ ہماراتعلق بن چکا تھا۔۔وقت واپس نہیں جا سکتا تھا۔۔ اسلیے میں سارا دن سوچ کر پھر تمہیں سمجھایا۔۔ بس چھ دن میں تمہاری آنٹی اور ایک دن استانی ۔۔ انہوں نے میرے ننگے لن پر اپنی گانڈ کا کٹاو رگڑا اور کہا ۔۔۔ اب رہ بھی نہیں سکتی نا ۔۔۔ اب خالہ مجھے جسمانی رموز بتانے لگیں۔۔ انکے خاوند کے سکھائے ہوئے۔۔۔تجربے کے رموز۔۔ کیسے عورت کو مست کرتے ۔۔۔ کہاں کیسے ٹچ کرتے ۔۔ انکی سرگوشیاں بتاتی گئیں اور ہاتھ ہونٹ عمل کر کے بتاتے گئے اور میں سیکھتا سمجھتا محسوس کرتا رہا۔۔۔ اب میری بس ہو چکی تھی۔۔۔ میں وہیں آنٹی کو نیچے کو لایا اور خود اوپر ۔سے بہکتے ہاتھوں سے اپنی شرٹ کی طرح انکی شرٹ اتارنے لگا اور وہ پاگلوں کی طرح مجھے اکسانے لگیں ۔۔۔۔میں اوپر ہوا ۔۔۔اور انکے بتانے کے مطابق انہیں صوفہ پر سیدھا ایسے لٹایا کہ انکی ہپ صوفے کے بازو پر پر جمی ۔۔ باقی آدھاجسم سر صوفہ پر ۔۔ انکی ٹانگیں میری کمر کے گرد تھیں ۔۔ اس پوزیشن میں انکی پھدی کو اوپر کو بلکل میرےلن کی سیدھ میں تھی۔۔۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں تمہیں قینچی میں سنبھال کر رکھوں گی ۔۔ تم دونوں ہاتھوں سے نپلز کو مسلو گے ۔۔ اور اوپر سے سیدھا نیچے 

کو فل سٹروک مارو گے۔۔ لیکن پہلے آرام سے آدھا اندر کر کے ۔۔ اس طریقے سے لن عورت کے بلکل اندر تک جاتا ہے اورجسم فل ساتھ لگ جاتا ہے۔۔ میں نے استانی کی ہدایت کے مطابق کیا۔۔۔ انکی اٹھی کھلی پھدی کے لپس پر لن کی ٹوپی رکھی ۔۔ افففف دہکتے لپسسس۔۔۔ فل گیلے ویل کم کو تیار۔۔ ہلکا سا پش کیالن باآسانی سے اندر گیا۔۔ تھوڑا آگے کر کے میں رکا اور جھک کر انکے نپلز کو مسلتے ہوے تیز جھٹکا مارا۔۔ لن پھدی میں ہھسلتا غڑاپ تقریبا سارا اندر۔۔۔ انکی تیز سسکاری نکلی ۔۔۔ہاااااے اممممی جی ۔۔اندر تک وڑگیا ای۔۔۔ میں رکا اور رہا سہا لن بھی اندر اتار دیا۔۔ ہم فل ساتھ جیسے ٹچ بٹنوں کی جوڑی۔۔۔ میں ہیچھے ہٹتا ۔۔ اور زورسے دھکا مارتا۔۔ وہ اور اکساتی ۔۔ یسسسسسس ایسے ہی۔۔میں باہر نکال کر پرانی حرکت کی ۔۔۔ پاس جو بھی کپڑا تھا اس سے لن کو صاف کیا اور فل اندر تک گھسا مارا۔۔۔ وہ اور ساتھ لگیں۔۔ اور کہنے لگیں اب اندر تک کر کے میرے ساتھ لیٹ جاواوپر۔۔ میں انکے اوپر ۔۔ لیٹ گیا لپس میں لپس۔۔ لن فل اندر اور انکی ہدایت کےمطابق ہلکا ہلکا ہلنے لگا جیسے سرمہ دانی میں سرمچو ہلاتے اور وہ اپنے ہاتھوں سے میری کمر کو سہلاتی ۔۔ ناخن چھبوتیں میری ہپ پر شاباشی جیسے تھاپڑے لگاتیں رہیں۔۔ انکا جوش بڑھتا رہا اور انہوں نے مجھے فل ساتھ چمٹا لیا وحشیوں کی طرح میرے لبوں اور زبان کو چوسنے لگیں ۔۔ پھدی کی دیواریں تیزی سے رگڑ کھا رہی تھیں ۔۔ اور کھل بند ہو رہیں تھیں انکی آنکھیں بند تھیں اور موٹر چلی ہوئی تھی ۔۔ دو چار تیز سسکیوں کے ساتھ انہوں نے پانی چھوڑ دیا۔۔۔ میں بھی آج بنا دودھ پیے تھا۔۔۔اور فل ٹوکن پر تھا ۔۔ انکے مدہوش چہرےکو چومتا میں نے دو چار تیز دھکے مارے اور انکی پھدی میں ہی چھوٹتا انکے اوپر گر گیا۔۔۔ کچھ پندرہ بیس منٹ بعد ہمیں ہوش آئی اور میں انکے اوپر سے ہٹ کر بیڈ پر جا گرا۔۔۔تھوڑی دیر بعد وہ بھی اٹھ کر ایسے ہی ننگی حالت میں چلتے ہوئے کیبنٹ تک گئیں ۔۔۔ انکی گوری ٹانگیں چمک رہیں تھیں اور کھڑا ہو کر چلنےسے پھدی انکا اور میرا رس واپس باہر پھینک رہی تھی ۔۔ کیبنٹ کھول کر ایک کپڑا نکالا۔۔ اپنی ٹانگوں کو صاف کیا اور میرے پاس آ کر لن کو صاف کرنے لگیں ۔۔ اففف مزہ آ گیا تم ہونہار شاگرد ہو۔۔بہت جلد سب سکھا دونگی ۔۔۔پھر جس عورت کے پاس بھی گئے وہ یاد رکھے گی۔۔۔ میں تو دو سال تک شائد ڈھل جاوں لیکن اگلی نسلوں کا بھلا کر جاوں گی انہوں نے میرے لن اور ٹانگوں کو صاف کرتے ہوے کمینی ہنسی میں کہا۔۔ اسکے بعد روم فریج سے دو جوس کے ٹن نکالے اور ہم وہ پینے لگے۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ میرے ساتھ لگ کر پیارسے مجھے بتانے لگیں کہ عورت کو عزت احترام کے ساتھ اچھے سیکس کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے خاوند کم ملتے جو دونوں کام کرتے ہوں ۔۔ تم عورت سے عزت احترام سے لازمی پیش آنا باقی سیکس۔۔۔ تو مجھے تمہارے لن اور اپنی تعلیم پہ اعتبار ہے۔۔ ایسے ہی وہ مجھےعورت کے ذہنی جسمانی اطمینان کے گر بتانے لگیں۔۔۔اور پھر کہا۔۔۔ تعلیم کے بعد تمہارا امتحان بھی ہو گا۔۔ اوور یہ امتحان سکول کا نہیں بورڈ کا ہوگا یعنی۔۔ تمہارا ٹسٹ کوئی اور لے گا۔۔میں یہ سن کر ششدر رہ گیا۔۔ میں نے کہا کیا مطلب۔۔وہ بولیں بس اس بات کو چھوڑو۔۔۔ تمہیں بتایا اسلیے کہ تم زیادہ جذب سے سیکھو۔۔۔ تمہارا امتحان ہو گا تو ساتھ نیا جسم نئی عورت بھی تو ملے گی ۔۔ تمہیں اسے مطمئن کرنا ہو گا۔۔ آنٹی کی بات نے مجھے بیک وقت شدید خوشی اور حیرت میں ڈال دیا۔۔ خوشی کہ یسسسس بہت جلد ایک اور عورت۔۔۔ حیرت کہ ۔۔ کون ہوگا ؟؟؟ 

جاری ہے 

 

 

Post a Comment

0 Comments