Ishaq Awara 7

 

عشق آوارہ  7




کچھ دیر بعد وہ میرے نیچے سے کھسکیں اور میرے اوپر آ کر مجھے دیوانوں کی طرح چومنے لگیں۔۔ میرے ماتھے میرے چہرے کو۔۔ اور مخمور لہجے میں بولیں مزہ آگیا قسمے۔۔ اور میرے اوپر لیٹ گئیں۔۔ شروع کے سالوں میں میرا میاں ایسے ہی جم کے چودتا تھا مجھے۔۔آج بہت سالوں بعد مزہ آیا۔۔ اسکے بعد وہ اٹھیں اور جھک کر پھنسے پاجامے سےپاوں نکالنے لگی۔۔ اففف انکی مٹکتی گانڈ کا نظارہ ۔۔ وہ واقعی پنجابی رن تھیں ۔۔پاجامہ نکال کر میرے پاس بیٹھیں اور کہا ظالما۔۔ سارے پاجامے کا ستیاناس کر دیا۔۔ میں نے ہنس کر کہا یہ تو پاجامہ ہے ابھی میں نے آپکا ستیاناس کر دینا۔ وہ ہنسیں اور بولیں۔۔۔ ہائے صدقے تو کر دے نا ستیاناس۔۔ وہ لبوں کو ہلکا دانتوں سے دبا کر بولیں۔۔ میں اوپر کوہوکر انہیں پکڑنے ہی لگا تھا تو بولیں لیکن ابھی دو منٹ سانس لینے دو۔۔ قسم سے اندر تک جا کے لگتا ہے۔۔ ویسےسواد آ گیا وہ اصیل گھوڑی تھیں۔۔تم بیٹھو میں آتی ہوں 

تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئیں۔۔ انہوں نے چھوٹے چھوٹے شیشوں اور کڑھائی والی بڑی گرم شال اوڑھی ہوئی تھی۔۔ ہاتھ میں کچھ کھانےکو تھا۔۔دروازہ بند کر کے انہوں نے گرم شال کو ایک ادا سے سرکایا۔۔۔ افففف جیسے بجلی چمکیں ۔۔ نیچے انہوں نے کچھ بھی نہیں پہن رکھا تھا۔۔ 

انکا گورالشکارے مارتا جسم ۔۔ تنےہوئےبوبز۔۔ وہ ایک ادا سے کھڑی ہوئیں اور بولیں ۔۔ کیسی ہوں میں۔۔میں نے انکے جسم کو تاڑتے ہوئے کہا بہہہت سیکسی۔ ۔۔ وہ بالوں کو جھٹک کر بولیں ۔۔ یسسس اور اس سیکسی کو تم بہت پسند آئے۔۔ اتنی سی عمر میں تمہارا ہتھیار اور انداز اچھا ہے ۔۔ میں نے مناسب موقع سمجھتے ہوئے کہا۔۔اگر اتنا راضی ہیں تو بتائیں نا انعام کیا ملنا۔۔وہ میرے تجسس پر ہنسیں اور بولا بتاتی ہو نا لیکن ایک شرط پر۔۔ یہ بات کبھی کسی سے ذکر نہیں کرنی۔۔اور جیسے میں کہا ویسے کرنا ہے۔۔ ورنہ سارا کام خراب ہو جانا۔۔ میں نےوعدہ کر لیا تب انہوں نے کہا تمہارا انعام ہے۔۔۔ رابعہ اور میرا منہ کھلےکا کھلا رہ گیا 

کیوں لگا نا جھٹکا وہ اٹھلا کر بولیں۔۔ میں نے کہا ہاں بہت زیادہ جھٹکا لیکن کیسے ۔۔ وہ میرےپاس آ کر ساتھ لیٹ گئیں۔۔ دونوں ساتھ ساتھ اور رضائی لی۔ انکا ننگا گداز جسم ۔۔ بلکل میرے ساتھ پیوست تھا۔۔ وہ بولیں ۔ یہ جو رابعہ ہے نا بے چاری کے ساتھ بہت برا ہوا۔۔۔یہ ساتھ دو گھر چھوڑکر انکاگھر ہے۔۔۔اسکا خاوند مزدور تھا۔۔ کوئی دو چار مہینے ہی ساتھ رہے پھروہ ایک دن کام پر پٹھے سے نیچےگرا۔۔ سر پر گہری چوٹ لگ گئ بس بے چارےکا بہانہ بنا اور وہ کچھ دیر بعد دم توڑ گیا۔۔۔ بےچاری نے سمجھو کچھ دیکھا ای نہیں۔۔ بندہ بھی اسکا کمزورا سا تھا۔۔۔ لوگوں نے اسکے بارے باتیں کرنی شروع کر دیں کہ بندہ کھا گئی۔۔ غریب عورت آگے کون سنبھالتا۔۔ وہیں ساس سسرکے ساتھ رہتی ۔۔ میں اسکی بچپن کی سہیلی تھی مجھ سے ہر بات کرلیاکرتی ہے۔۔ میں جانتی کہ سمجھو اسکےساتھ ابھی تک ہوا ہی کچھ نہیں ۔۔۔ اسکا بندہ دن بھر کا تھکا ہارا بس چارمنٹ میں فارغ ہو کر سوجاتا۔۔ بہت شرمیلی اورمسکین ہے وہ۔۔ اندر آگ جل رہی ۔۔ بہت لوگوں نے کوشش بھی کی لیکن اسے بدنامی کاڈر۔کہتی بیوہ ہوں اوپر سے بندہ کھانے کا الزام اب اگر کچھ ایسا ویسا پتہ چلا تو سمجھو جینا مشکل۔ایکبار ہم میکے اکھٹے ہو گئے اتفاق سے۔۔ تب ہم اکھٹی رہیں۔۔ اوپر سے میرے میاں کا فون آ گیا۔۔ ہماری باتوں سے وہ تھوڑی گرم ہو گئ۔۔ اس رات میں نے تھوڑا سا اسے چھیڑا تھا۔۔ تم سوچ نہیں سکتے کتنی آگ اسکے اندر۔ اوپر سمجھو راکھ اندر بھڑکتی آگ۔۔میں نے اس دن اسے تھوڑا ٹھنڈا کرنے کے لیے پھدی میں انگلی سے پانی نکالنے کی کوشش کی یقین کرو میری انگلی بہت پھنس پھنس کر اندر گئی تھی اب تو اس بات کو بھی سال ہو گیا۔۔ تم اسکی لو گے تو سب بھول جاو گے۔۔ لیکن اس کے اوپر سےیہ راکھ طریقے سے اتارنی۔۔اس رات جب وہ اوپر سےآئی تو پہلے کافی غصہ کیا کہ میں نے رسک لیا اور جب بہت مشکل سے اسے سمجھایا کہ تم گھر کے بندے تو کچھ ایزی ہوئی۔۔ وہ منہ سے نہیں بولی لیکن میں سمجھ سکتی ۔۔ ہمارا سیکس دیکھ کر وہ اندر سے بھیگ گئی تھی۔۔ پتہ ہے کیا کہہ رہی تھی۔۔ میں نے بولا کیا۔۔ وہ سرگوشی سے بولی کہہ رہی تھی ہاے اللہ کتنا ٹائٹ اور بڑا ہتھیار ہے تمہارے دوست کا۔۔ تمہاری ہمت ہے میں ہوتی تو میری پھٹ جاتی پوری اسکے انداز میں ڈر کے ساتھ لالچ بھی تھا کہ پھٹ ہی جاے ۔۔۔کوئی عورت جب ایسے کہتی ہے نا کہ میں ہوتی تو۔۔ اسکا دل ہوتا ہے کہ کسی طریقہ سے وہ لیکر دیکھے ۔۔۔ 

اس نے خود تو کچھ کرنے کی ہمت نہیں کرنی۔۔ میں سیٹنگ بنا کر بتاونگی کیسے کرنا۔۔اورکرنا آرام سے۔۔ سمجھو تمہارے آدھے لن سے آگے وہ کنواری ہی ہیں تم تیار رہنا اس سے اپنا بھی فائدہ ہے بتانا اس نے پہلے بھی کسی کو نہیں لیکن پھر بھی اسے ساتھ ملا کر زیادہ ذہنی سکون 

تب کیا علم تھا کہ رابعہ اور میری سیٹنگ کس ماحول میں اچانک ہونی جس میں انکاکوئی کردار نہیں ہونا تھا۔۔ انکی باتوں نے اور رابعہ میرے لن کو پھر سے جگا دیا۔۔ اوپر سے انکا ننگا جسم ۔۔ جانےوہ اور کتنی دیر رابعہ نامہ سناتی ۔۔ 

انکی باتوں سے رضائی کے اندر ہلچل مچ چکی تھی۔۔ لن نے سر اٹھا کر انکی رانوں پر دستک دیکر اپنی موجودگی کا احساس دلوایا کہ ہماری بھی سنو جی۔۔ لن کی ٹھوکر نےانہیں بھی احساس دلایا کہ رات گزر رہی باتوں میں۔۔ انہوں نے ہاتھ سے لن کو پکڑا اور مٹھی میں لیکر ہاتھ آگے پیچھے کرنے لگیں ۔۔اففف انکی نرم گرم مٹھی کی جکڑ سے لن مست پھنکارا۔۔۔ہم دونوں آمنے سامنے کروٹ لیے لیٹے تھے انہوں نے لن کو دو چار بار سہلایا اور اسے ٹانگوں میں پھدی کے بلکل نیچے رکھ کر ٹانگوں کو دبا لیا۔۔ اففف انکی موٹی رانوں کالمس ۔۔ اپنے سینے کومیرے سینے سے رگڑتیں۔۔ بے تابی سے لبوں کو چوستی وہ آگے پیچھے ہو رہیں تھیں۔ لن انکی پھدی سے رگڑ کھاتا ٹانگوں میں پھنس پھنس کر آگے پیچھے ہو رہا تھا۔ اور وہ آنکھیں بند کر کے مست سریلی آہیں بھر رہیں تھیں۔۔ میں نےہاتھ انکی ننگی کمر پر رکھا اور پھیرتا ہوا ۔۔ موٹے نرم چوتڑوں تک لایا۔۔اففف ہاتھ سے دو چار بار چوتڑوں کو نرمی سے دبایا اور ہاتھ کی انگلی کو انکی گانڈ کی لکیر کے اوپر اوپر پھیرنے لگا۔۔۔ افففف وہ بلکل ساتھ چمٹ گئیں۔۔۔ جب سے انہوں نے رابعہ کا ذکر کیا تھا مجھے وہ لچکیلے جسم والی تب سے یاد آ رہی تھی۔۔نئی عورت کا اپنا ہی چارم ہوتا ہے۔۔اور اسی چارم کے ساتھ کومل کا لمسسس افففف میں مست ہاتھ سے کمر گانڈ کو سہلا رہا تھا۔۔ ایسے لن کی پھدی پر رگڑ انہیں بھی فل مست کر چکی تھی۔۔ انکے بوبز تن چکے تھے۔۔ بوبز کے نپلز اکڑ کر سینے سے لگ رہے تھے۔۔ 

اب کام فل گرم تھا۔۔ میں اٹھا۔۔ رضائی کو تہہ کر کے اسکے نیچے تکیہ ایسے رکھا کہ شہنیل کی رضائی کی ڈھلان سی بن گئی۔۔۔اس ڈھلان کومل کو لٹا کر اسکی ٹانگوں کو کھولا۔۔۔ اس پوزیشن میں انکی پھدی تھوڑی سی کھل گئی تھی۔۔ خود گھٹنوں پر بیٹھا۔۔ لن انکی پھدی کے بلکل نیچے تھا۔۔۔ میں نے لن کو پھدی کے نیچے جمایا اور ہلکا جھک کر انکے شانے پر ہاتھ رکھ کر انکو نیچے کھسکایا۔۔ شہینل کی رضائی پر انکا نرم جسم میرے ہلکےدباو سے پھسلتا نیچے کوآیا۔۔۔ انکےدباو سے لن اندر گھسا ۔۔ آدھے تک انکا جسم دباو سے آیا وہ ہلکا سر اٹھا کر نیچے کو دیکھ کر بولیں ہاے مرجانیا ۔۔ اندر تک گھسا پھر بھی آدھا باقی ہے 

میں تھوڑا اور ہوا اور انہیں کندھوں سے کھینچ کر خود اوپرکو موو کیا۔۔۔ افففففف لن رگڑ کھاتا اندر تک۔۔ انکی سریلی چیخ نکلی۔۔ اب انکی ٹانگیں میری کمر کے گرد قینچی مار چکیں تھیں۔۔ میراجسم انکی گداز رانوں سے رگڑ کھاتا اورہر رگڑ مجھے دیوانہ کرتے جاتی۔۔ انکے لب ہلکے کھلے تھے اور گرم سانسیں ۔۔۔میں اوپر کو ہوکر جھکا۔۔۔ نرم رضائی کی ڈھلان پر انکی کمر کمان کی طرح ہو چکی تھی اور میں انکے لبوں کو چوستا جا رہا تھا۔۔ ایک ہی انداز میں متواتر ۔۔ میرا لن فل اندر جاتا ۔۔ باہر نکالتا اور پھر دھکا مارتا۔۔ وہ میرے بازووں کو پیار سے سہلا رہیں تھیں۔۔پورا پلنگ چوں چوں کر رہا تھا۔۔ انکی سسکیاں میری سانسیں۔۔ دونوں مزے کی انتہاوں پر تھے۔۔ وہ عجیب و غریب الفاظ بولے جا رہیں تھیں۔۔۔ آہہہ یسس نا یسسس ایسے ہی افففف نیچے سے ہاااے رگڑ مار۔۔۔ اور میں انکے جملوں سے اور وحشی ہوتا گیا۔۔ میں نے اب جسم کو ہلکا ہلکا گھمانا شروع کیا۔۔ لن ڈرلنگ کر رہا تھا۔۔ میرا یہ وار وہ نا سہہ سکیں اور کچھ دھکوں کے بعد ہاااے مر گئی یسسسس یسسسس سپیڈ مار رکنا نہیں کرتی فارغ ہوتیں گئیں۔۔ انکا جسم مدہوش۔۔ اسی مدہوشی میں ۔۔ میں نے انہیں اسی رضائی پر پلٹایا انکی موٹی گانڈ سامنے تھی اور اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل سے لوشن لے کر اسے انکے چوتڑوں کی لکیر میں گرا کر انگلی سے مسلنے لگا۔۔ وہ سسک کر بولیں نہیں نا۔۔ پیچھے نا کرنا بہت تکلیف ہوتی ہے۔۔ میں نے انکا ماتھا سہلا کر کہا میرا مزہ رہتا نا۔۔ تھوڑا سا کروں گا بس۔۔ وہ کیا کرتیں چپ رہیں۔۔ میں نے اچھے سے انکی گانڈ کے سوراخ کو لوشن سے نرم کیا اور اپنا ایک ہاتھ آگے سے انکی پھدی پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے لن کی ٹوپی کو گانڈ کے نرم ہوتے سوراخ پر ہلکا ہلکا رگڑنے لگا ساتھ ہاتھ کی انگلی سے انکی پھدی کے دانے کو مسلنے لگا۔۔ وہ دوبارہ سے مدہوش سسکیں ۔۔میری انگلی ہلکی تیز ہوئی۔۔ جب انکا دھیان فل پھدی کی طرف چلا گیا ۔۔ لن کی ٹوپی جو گانڈ کے سوراخ کو سہلا رہی تھی پورا لن لوشن سے مکمل چکنا ہو چکا تھا۔گانڈ مارنی طے تھی لیکن اسبار انہیں مزہ دینا تھا انگلی کو ہلکا سا پھدی میں داخل کر کے انہیں فل دھیان لگا کر میں نے لن کو گانڈ کے سوراخ پر جمایا اور اوپر سے ہو کر ان پر لیٹتا چلا گیا۔۔ میرے ایسے نیچے آنے سے لن کی چکنی ٹوپی ۔۔ نرم ہوتے گانڈ کے سوراخ کو کھولتی اندر گھسی ۔ انکی ہلکی سی چیخ بلند ہوئی نعیممم وہ سسکیں لیکن میں کان بند کر چکا تھا۔۔ میں نے دباو جاری رکھا انکی ہاے واے کے ساتھ آدھا لن اتر چکا تھا۔۔آدھا لن گھسا کرمیں رکا اور کان کے پاس جا کر کہا بس چلا گیا سارا۔۔ تھوڑا سا رہ گیا۔۔ وہ قدرے خوشی سے بولیں شکر ہے اب جو باقی رہتا اسے اچانک اندر کر کے رک جانا۔۔ مجھے اورکیا چاہیے تھا میں نے آخری جھٹکا مارا اور انکی ایک تیز چیخ نکلی۔۔ میرا لن پورا اندر گھس چکا تھا۔۔۔وہ نیچے زور سے ہلیں۔۔ ااااف انکی گانڈ کی گرمی اور جکڑن ۔۔۔ میں ہلکا ہلکا سا موو کیا۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ کچھ پرسکون ہوئیں۔۔اورمیں آہستہ آہستہ پھدی میں انگلی ہلاتے لن کو تھوڑا اندر باہر کرنےلگا۔۔ اب وہ ریلیکس تھیں ۔۔ اور میرا بھی وقت قریب تھا۔۔ میں نےدوسرا ہاتھ بڑھا کر انکے لبوں کو چھیڑتے ہوے طریقے سے لبوں کو دبایا اور آدھا لن کھینچ کر اندر کو مارا۔۔ اففففف انہوں نے میرے ہاتھ کو دانتوں سے کاٹا لیکن اس چکی نےالٹا مجھے ہنٹر مارا۔۔ میں نے باہر نکال کر پھر اندر مارا۔۔ اففففف وہ زور سے ہلیں کچھ بولیں لیکن میرا وقت قریب تھا۔۔ میں نے جھٹکے جاری رکھے اور دو چار دھکوں کے بعد انکی گانڈ کو منی سے بھرتا گیا۔ افففف نشہ تھا کہ کیا تھا جسم جیسے مدہوش۔۔ فارغ ہونے کے بعد میں وہیں سائیڈ پر گرا۔۔۔تھوڑی دیر بعدکومل گانڈ پر ہاتھ رکھتے اٹھی اور مجھے لاڈ سے مارنے کو دوڑی ۔۔ میں نے انکے اٹھے ہاتھوں کو آرام سے روکا اور اپنے بازووں میں انہیں لیکر اوپر رضائی اوڑھ لی۔۔ مدہوش سونے سے پہلے انکی اتنی آواز آئی۔۔۔ افففف جتنا مزہ دیتے ہو نا اتنا ہی درد بھی ۔۔ لیکن جو بھی ہو چدائی اچھی کرتی ہو۔۔ 

اگلی صبح انہوں نے ہی مجھے پیار سے کسی بیوی کی طرح جگایا۔۔ جلدی جلدی کپڑے پہنے۔۔ انہوں نے محلے کے کسی لڑکے ساتھ مجھے بائیک پر گجرات اڈے کے لیے روانہ کیا۔۔۔ گیارہ کے آس پاس میں لاہور پہنچا۔۔۔ کالج کی پہلی دو کلاسز تو مس ہو ہی گئیں تھیں میں نےپوری چھٹی کا ارادہ کیا ویسے بھی جو نشہ مجھے لگ چکا تھا پڑھائی میں کہاں دل لگنا تھا۔۔ بس یہ عادت اچھی تھی کہجب پڑھتا تھا تو پورے دھیان سے پڑھتا تھا۔۔ اور جب چودتا تھا تب بھی پورے دھیان سے۔۔۔گھر پہنچا۔۔ انکل اور عمبرین کچن کا سامان لینے گھر سے باہر تھے۔۔آنٹی مجھے دیکھتے ہی کھل اٹھیں۔۔ اور زور سے گلے لگایا ۔۔اور اچانک پیچھے ہٹ کر مجھے دیکھا پھر گہرا سانس لیا اور ہنس کر بولیں کومل کو چودا یے نا رات کو۔۔ چودائی والے جسم کی سمیل آ رہی۔۔ واقعی وہ استانی تھیں۔۔ میں کھلکھلا کر ہنس پڑا۔۔۔انکا ارادہ شائد کچھ اور ہو جاتا لیکن اچانک انکے موبائل کی بیل بجی۔۔ کوئی انجان نمبر تھا۔۔ آنٹی نے مجھے موبائل دیکر کہا دیکھو کون بھلا نیا نمبر ہے۔۔ جب میں نے ہیلو کی تو آگے سے زنانہ آواز گونجی۔۔ نعیم سے بات ہو سکتی کیا۔۔ 

میں چونک کر بولا جی نعیم بات کر رہا ہوں ۔۔ آپ کون۔۔میرا نام سنتے ہی آواز نے یکدم تہذیب والا انداز بدلا اور چلاتے ہوئے آواز میں بولی اوے ن غنہ آج کالج کیوں نہیں مرے تم۔۔کہاں دفع تھے۔۔ یہ بیلا تھی۔۔میں نے حیرت سے پوچھا تم آنٹی کا نمبر کہاں سے لیا۔۔ اس نے اطمینان سے جواب دیا ایڈمن آفس سے۔۔ عارضی رہائش لاہور کے ساتھ فارم پر درج تھا یہ نمبر۔۔ شیطان کی بچی تھی پوری۔۔ اس نےپھر پوچھا آئے کیوں نہیں۔ پاوں کیسا چل تو رہے نا۔۔ گھر جا ڈیٹول وغیرہ سے دھویا تھا۔۔ امید ہے نہیں دھویا ہوگا۔۔ اسے کیا پتہ میں کب کا کانٹے کو بھول چکا تھا ۔۔اس نے فوری اگلا حکم صادر کیا تم ابھی کے ابھی ایڈمن آفس پہنچو۔۔ ابھی ساڑھے بارہ بجے کیا کرنے آوں کالج۔۔ اب تو ایک پیریڈ رہ گیا دفع کر میں رات بھر کا تھکا ٹالنا چاہا۔۔ ہر گز نہیں اور کان کھول کر سنا کرو ایڈمن آفس کہا ہے کالج نہیں ۔ میں نے ٹالنا چاہا تو اس نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ وہ اورمیڈم رفعت انتظار کر رہیں۔۔ ایک ارجنٹ کام ہے۔۔۔ اب یہ آفیشل آرڈر سا ہو گیا تھا۔۔ آنٹی میری طرف دیکھے جا رہی تھیں۔۔میں نے بتایا کہ کالج سے بلاوا ہے کھیل کے لیے۔۔ انکا موڈ غارت ہو گیا۔۔ وہ تو انکل اور عمبرین کی غیر موجودگی میں کچھ مستی پروگرام میں تھیں ۔۔ اب انہوں نے امید سےپوچھا۔۔میں نے بہانہ کیا مجبوری ہےآنٹی ایڈمن نے بلایا۔۔ آنٹی منہ بناتی رہ گئی اور میں منہ ہاتھ دھو کر جلدی سے کالج کو چلا گیا۔۔ایڈمن اور کلیرکل آفسز کالج کے ایک طرف تھے ۔۔ میں سیدھا ادھر ہی گیا۔۔ آگے بیلا اور میڈم رفعت میرا ہی انتظار کر رہی تھیں۔۔ انکے چہرے ہلکے پریشان سے تھے میں نے بیلا کو کہنی مار کر پوچھا کیا ہوا۔۔۔ اسکی بجائے میڈم رفعت کی آواز آئی۔۔ نعیم بات پریشانی کی ہے بھی اور نہیں بھی ۔۔ ابھی سارےشہر کے کالجز کی لسٹ جب مجھے ملی جس میں تمام کالجز کے کھلاڑیوں کے نام اور شیڈول درج تھے۔۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ دیال سنگھ کالج سے کاشف عرف کاشی بٹ ریس میں حصہ لے رہا ہے۔۔ کاشی بٹ فیصل آباد سے ابھی ہی مائیگریٹ ہوا ہے ادھر۔۔ اور لاسٹ دو سال سے یونیورسٹی و ڈویزن کا ونر ہے ۔۔ میں نے اطمینان سےسانس لیا اور بولا تو کیا ہوا۔۔۔ بندہ ہی ہے نا کتا تھوڑی جو ساتھ بھاگنے سے کاٹ لے گا۔۔ میری ایسی بےساختگی سے میڈم کھلکھلا کر ہنس پڑیں ۔۔ اففف ان کی ہنسی۔۔ میں اسی ہنسی کے اثر میں جانے کب تک رہتا جب بیلا نے میرے شانے پر ہاتھ مار کر کہا۔۔۔ مسلہ یہ ہےبکہ وہ کتا ہوتا تو مسلہ نہیں تھا وہ چیتا ہے ۔۔۔ اسکی سپیڈ آوٹ کلاس ہے ۔۔۔ اس کا ہونا مطلب ہارنا۔۔ اور ہارنا میری لغت میں نہیں ۔۔ میں سمجھ رہا تھا جو لفظ اسکی لغت میں نہیں وہ میری میں اس نے رہنے نہیں دینا تھا۔۔۔ اب مجھے سنگینی کا احساس ہوا اور بولا تو اب ۔۔۔ بیلا بولی اب۔۔۔ آج سے تمہارا کالج سے گھر جانا بند۔۔ سونےتک تم نے بس پریکٹس کرنی ۔۔ اسکی بات سن کر میرے اوسان خطا ہو چکے تھے۔۔ گھر نا جانا مطلب عمبرین سے دوری۔۔ مطلب میرا دل بند 

بہرحال ایک طویل بحث کے بعد یہ طئے پایا کہ پہلے تین اہم اور مشکل پیریڈز کے بعد میں اور بیلا آف کر جائیں گے کالج کی اجازت سے اور سیدھا بیلا کے گھر۔۔ اگلے چار پانچ دن کے بعد سنڈے تک میری گروتھ ریٹ چیک کی جاے گی اور اتوار کو سوئمنگ کا ٹیسٹ۔۔انہی باتوں کے بعد ہم باہر نکل آئے ۔۔ بیلا مجھے سامنے پڑے بینچ تک لے آئی۔۔اور غصے سے بولی کل آئے کیوں نہیں اور آج بھی جب میں کال کی تب تک آدھا دن گزر چکا تھا۔۔ پاوں کیسا۔۔ اسکے لہجے میں غصہ ہمدردی پیار توجہ فکر سب کچھ تھا۔۔میں نے بہانہ بنا دیا کہ جن کے گھر رہتا انکاکام پڑ گیا تھا۔۔ 

وہ بولی دیکھو نعیم ۔۔ مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ تم نے جیتنا ہے۔۔ اور اس کاشی سے تو لازمی ہی جیتنا ہے تم نے ۔۔ مجھے پتہ ہوتا تو کبھی بھی تمہارا نام شامل نا کرواتی۔۔ اس ک سنجیدگی کو دیکھ کر میں نے کہاکیا ہے یار۔۔۔ بندہ ہی ہے نا ۔۔یارتم سمجھ نہیں رہے ۔۔۔ وہ پروفیشنل سمجھو ۔۔ ڈیلی کی پریکٹس۔۔ اسکا اعتماد اور اسکے جملے ۔۔۔ وہ ساتھ بھاگتے بندے کو ایک جملہ مار کر اسکا سارا مومینٹم توڑ دیتا ہے ۔۔ بہت ہی اکھڑ سا۔۔ میرےساتھ اس نے ایکبار بدتمیزی کی تھی ۔۔ حالانکہ ہماری فیلڈ الگ تھی لیکن صوبائی مقابلوں کے درمیان اس سے ملاقات ہوتی رہی۔۔ اسکی ایک گرل فرینڈ بھی ہوتی تھی ان دنوں ۔۔ وہاں اس نے بہت واہیات ہوٹ کیا تھا مجھے ۔۔ بس تم اسے ہرا دو تم نے اسے ہرانا ہے وہ میرے ہاتھ تھامے بچوں کی طرح ٹھنک رہی تھی۔۔ میں جانتا تھا اسکو۔۔ جب تک وہ بدلہ نا لیتی اسے سکون نہیں آنا تھا اور اس سے بڑھ کر بدلہ کیا ہو سکتا تھا کہ اسے اسکے میدان میں ہرایا جائے۔۔اور اس کام کے لیے میں موجود تھا نا اسکا گھوڑا۔۔اسے تسلی تشفی اور کل سے سط اوکے کے وعدے کرتا میں گھر پہنچا تو سب چائے پی رہے تھے۔۔ انکل کافی خوش تھے ۔۔پوچھنے پرپتہ چلا کہ جس وجہ سے ٹرک پھنسے ہوئے تھے وہ کام ہو گیا ہے۔۔ اب سکون ہے۔۔ انہوں نے دلاور کو کہ دیا تھا کہ وہ دونوں ٹرک کلیر کروا کر ۔۔ ساتھ دوسرے ڈرائیور کو لیکر خود ہی واپس آ جاے ۔۔گپ شپ کے دوران میں نے طریقہ سے آنٹی کو بتایا کہ کل سے میں لیٹ آیا کروں گا۔۔اور وجہ پتہ چلنےپر آنٹی تو غصہ ہی ہوئیں لیکن انکل نے کہا اچھا ہے نا کیا پتہ جیت جاو انعام۔شنام ملے۔۔اسکےبعد وہی عام سی باتیں پھر کھانا اور میں اوپر چھت پر۔۔رات دس کےبعد میں نے ہلکی سی بپ دی۔۔ کچھ دیر بعد ہم دونوں بات کر رہے تھے۔۔ عمبرین نے جب مجھ سےپوچھا کہ کل کیسا سفر رہا ۔۔ رات سہی نیند آ گئی مجھے مس کیا ۔۔ تو مجھے اتنی شرمندگی ہوئی کہ کیا بتاوں اسے کیاپتہ ۔۔ میں کل اس وقت کیسی نیند لے رہا تھا۔۔مجھے بہت گھن آئی ایک طرف لگن دل میں دوسری طرف آوارگی ۔ ایسا ہی ہوتا تھا جب بھی میں عمبرین کو سوچتا مجھے شدت سے دکھ ہوتا کہ میں ان کہے وعدوں کو توڑ رہا ہوں۔۔ لیکن جیسے ہی میں کومل یا آنٹی کے پاس ہوتا میرے اندر کا آوارہ جاگ جاتا۔۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ ایسے میں پریکٹس کیا کروں گا ایڈمن کے ساتھ جا کر بیلا کے گھر اسکے ابو کے ساتھ۔۔ بے شک میرا بیلا کے ساتھ ایسا ویسا کچھ نہیں تھا۔۔لیکن میں نہیں چاہتا تھاکہ انہیں ہلکا سا بھی برا لگے۔۔انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ سپورٹس کے بھی مارکس ہوتے شیلڈز کا فائدہ ہوتا ہے۔۔لیکن میں تومر گیانا۔۔ یہاں سے کالج کالج سے گلبرگ پریکٹس کے لیے۔۔ وہاں سے پھر یہاں شاہدرے اتنا سفر اور لہور کی ٹریفک۔۔وہ بولیں اسکا ایک حل ہے ۔۔اگر تم مان جاو تو اور کسی سے ذکر نا کرو تو کسی مطلب آنٹی کے علاوہ کسی سے ۔۔ میں نے کہا بولو کیا۔۔ کہتیں تم بتایا تھا ان کا گھر فردوس مارکیٹ کے پاس۔۔میں نے کہا ہاں۔۔وہ بولیں میرا گھر بھی گلبرگ تھری میں ہی ۔۔میں تمہیں چابی دے دونگی ۔۔تم ریسٹ روم میں آرام سے ریسٹ کرنا دھیان سے پریکٹس کرنا اور جیت کر واپس آنا۔۔۔ ویسے بھی دو چار دن تک دلاور آ رہا ہے۔۔ اس کے ہوتے گھر میں سکون نہیں ہوتا۔۔وہ ایک طرف مجھے بھیج کر میرے لیے فکرمند تھیں تو دوسری طرف دلاور کی فکرمندی میں۔۔لیکن میں اتنے دن آپ سے بات نا کی آپ کودیکھا نا تو۔۔ میں نے ہزار عذر تراشے۔۔ اور سب عذر انکی ایک بات سے ختم ہو گئے جب انہوں نے کہا تم میری بات نہیں مانو گے کیا۔۔ اور میرے گھر جا کر تم وہاں کی دیواروں میں مجھے محسوس کر لینا نا۔۔انکی یہ ادا مجھے لے ڈوبی۔۔ میں نے ہار مانی ۔ اسکے بعد وہ کافی دیر مجھے اپنے اس گھر کی باتیں بتاتی رہیں ان گلیوں کی اپنے بچپن کی۔۔ انکی مدھر سرگوشیاں اور انکا احساس 


جیسے رات کی رانی کی مہک کا سحر۔۔ ایسے ہی رضائی میں منہ دیے انکی سرگوشیوں کا دلکش احساس۔۔جادوئی طلسماتی لمحات۔۔ وہ کہنے لگیں۔۔ بلکہ یہ زیادہ اچھا ہے تم ادھر رہو۔۔ میرے بابا نے بہت شوق سے بنوایا تھا گھر۔۔ باقاعدہ انیکسی بنی ہوئی ۔۔ آپ وہاں رہنا۔۔ اندر والے کمرے تو مدت سے بند ہیں۔۔ انیکسی کبھی کبھی پھر بھی آباد ہو جاتی ۔۔ وہیں ہماری جو ماسی تھی نا وہ پچھلی طرف کوارٹرز میں رہتی ہے۔۔اس کا بتا دونگی میں بلکہ رقعہ لکھ دونگی ۔۔ وہ صفائی ستھرائی کر دے گی۔۔سمجھیں ماسی نہیں ۔۔ آیا تھی میری وہ۔۔ بچپن سے والدین کی وفات تک انکے ساتھ ہی رہی۔۔ اب بھی کبھی کبھی ملاقات ہو جاتی 

انکی باتیں میری ہمت بندھا رہیں تھیں۔۔ یہ انکی دوستی کی عزت کا سوال تھا کہ میں یہاں سے کامیاب واپس جاتا۔۔ وہ کہہ رہیں تھیں کہ میری خوشی اسی میں کہ میں کامیاب ہوں تب ہی وہ میری دوست میری سہیلی ورنہ شکوہ انکا۔۔صبح اٹھ کر انکل اور آنٹی سے بہانہ بنا کر بہت مشکل سے اجازت ملی وہ اس شرط پر کہ چھٹی کا دن میں گھر گزاروں گا اور جیسے ہی مقابلے ختم ہوئے میں واپس آ جاوں گا۔انہیں اتنا پتہ تھا کہ میں سپورٹس کیمپ میں رہوں گا۔۔۔ضروری سامان کی پیکنگ کر لی۔۔ دل بہت اداس تھا۔۔جیسے کچھ کھو چکا ہو 

بہت ضروری سامان لیکر میں بوجھل دل اور بہت ہمت جمع کرکے گھر سے نکل آیا۔۔۔ ابھی اتوار میں چار دن باقی تھے اور چار دن عمبرین سے جدائی۔۔ حالانکہ ابھی میں نے ان سے باقاعدہ اظہار محبت نہیں کیا تھا۔۔ اور شائد انہیں مجھ سے محبت نہیں بس لگاو تھا سب بس اشاروں میں باتوں کے انداز میں چھپا ہوا تھا۔۔ چھپی ہوئی محبت جیسے دل کی زمین کے اندر پنپتا شجر محبت ۔ جو ابھی زمین سے باہر نا نکلا تھا بس اندر ہی اندر ہلکی حرکت تھی دل کی زمین اندر سے نرم ہو چکی تھی ۔۔انہی سوچوں میں بیگ اٹھائے جا رہا تھا جب کسی نے یکدم مجھے آواز دی 

میں نے مڑ کر دیکھا وہ ناصر تھا۔۔میں نے اسے بتایا کہ میں کچھ دنوں کے لیے ہاسٹل شفٹ ہو رہا ہوں گیمز کے لیے۔وہ بہت خوش ہوا اور رشک بھری نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔۔اور بولا قسمت ہے بھئی ۔۔ ہمیں کھیلنےپر ڈنڈے پڑتے آپکو سراہا جا رہا۔۔میں مسکرا دیا۔۔ کہتا آپ سے زیادہ بات نہیں ہو پائی لیکن بہت اچھا لگا ۔۔ دلاور بھائی کے برعکس وہ تو سمجھو ہر وقت عجیب موڈ میں رہتے دل نہیں کرتا تھا ۔۔ میں نے کہا اچھا یار مجھے نہیں علم ۔ 

میری ان سے بس سرسری سی ملاقات۔۔اچھا ہے نہیں ملاقات ۔۔ آپ یقین کریں عمبرین بھابھی جتنی اچھی جتنی نرم دل وہ اتنا ہی عجیب ۔ اسکا چہرہ عجیب سے تاثرات سے بھرا۔۔ جیسے کوئی تلخ یاد آ گئی ہو۔۔ پتہ ہے ایکبار میرے سامنے انہوں نے بھابھی کو سیڑھیوں سے دھکا دیا ۔۔شکر ہے بچت ہو گئی ورنہ چہرے کا کباڑہ ہو جانا تھا۔۔ وہ اپنی جھونک میں بولی جا رہا تھا اور عمبرین کے دھکے انکے گرنے کا سن کر میرا جیسے انگ انگ کٹ کر رہ گیا۔۔ مجھے لگا کہ ناصر کو اس معاملے میں کریدنا چاہیے اسکے لیے ضروری تھا کہ اس سے دوستی کو بڑھایا جاے۔۔میں نے ادھر ادھر کی باتوں کے بعد اسے کہا ۔۔ اگر اسے بھی گیمز کا شوق تو جسے ہی واپس آتا ملکر کھیلیں گے۔۔ وہ بہت خوش ہوا۔۔ 

لاہوری بچہ تھا ۔۔ابھی انٹر میں تھا لیکن کافی ہوشیار تھا۔۔ ورنہ مجھے تو اصل چالاکیاں لاہور ہی آ کر پتہ چلیں 

میں نے پوچھا اور سناو ٹرپ کیسا رہا۔۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھا اور بولا کہ بہت مزہ آیا ۔ میں نے بےتکلفی کو بڑھانے کے لیے اگلا سوال کیا ۔۔ اور تمہاری گرل فرینڈ کیسی۔۔ وہ جھینپ کر بولا ٹھیک ہے اس سے ملنے کو دل کرتا ہے لیکن جگہ نہیں ملتی ۔۔ میرے ذہن میں اچانک بجلی کوندی اور میں نے بولا اگر جگہ کا ارینج ہو جاے تو۔۔ تو موجاں ہی موجاں اس نے چہکتے ہوے کہا۔۔ میں نے کہا اچھا ۔۔ چلو تم اس سے بات کرو میں جگہ بنا دوں گا۔۔ لیکن ۔۔ اسکا چہرہ جو خوشی سے جھلمل کر رہا تھا اچانک سنجیدہ ہوا اور بولا لیکن۔۔میں نے کہا لیکن یہ ہمارے درمیان پکا راز رہے گا۔۔ 

اس نےہاتھ ملا کرپکی دوستی کا وعدہ کیا۔۔۔ اور میں ذہن میں اگلے منصوبے بناتا کالج کو روانہ ہوگیا۔ شیڈول کے عین مطابق ایڈمن و سپورٹس انچار ج میڈم رفعت نے بارہ بجےکے بعد ہماری لیوو کنفرم کر دی۔۔ اور ہم دونوں کالج سے نکل کر کالج وین سے گلبرگ کو نکل پڑے۔۔ راستے میں اسے میں نے بتایا کہ میرا گلبرگ میں ہی قیام ہو گا۔۔وہ سن کر بہت خوش ہوئی اور پوچھا کہاں۔۔ میں نے جیب سے عمبرین کا دیا ایڈریس اسے دکھایا۔۔ واوو یہ تو قریب ہی ہے ہمارے گھر کے ۔۔ ہمارے گھر والے سگنل سے رائیٹ جاو تو تھوڑا آگے 

گلبرگ فروس مارکیٹ اتر بیلا نے مشورہ دیا کہ ابھی دن کا وقت ہے جا کر ایک بار تمہاری قیام گاہ دیکھ لیتے ہیں۔۔ میں نے پہلی بار پورےدل سے اسکی حمایت کی ورنہ اکثر اسکی دھونس مجبوری بنتی تھی۔۔وہ گلبرگ کی پیداوار تھی تھوڑی دیر میں ہم عمبرین کے گھر کے سامنے کھڑے تھے۔۔ گھر کے باہر نیم پلیٹ پر آشیانہ لکھا ہوا تھا۔۔ یہ ایک چھوٹا سا بنگلہ ٹائپ گھر تھا جسکی بیرونی دیواروں کا عدم توجہ سے پینٹ اتر چکا تھا۔۔ ایک یاسیت تھی اس گھر کےدرو دیوار پر ۔۔ جیسے کسی کا آشیانہ آندھیوں میں بکھر چکا ہوا ویسی یاسیت۔۔۔ میں نے جیب سے چابی نکالی اور دروازہ کھول کر اندر چلے گئے۔۔ اندر وہ ہی حال تھا جو ایسے گھروں کا ہوتا۔۔ لان کی بڑھی ہوئی گھاس۔۔ سامنے گیراج اور چھوٹے سے برآمدے میں اڑتے پتے اور مٹی۔۔۔ ہم نے گھر کا اندرونی بیرونی جائزہ لیا۔۔۔۔ گھر بہت معیاری بنا ہوا تھا۔۔ مین دروازے کے آگے ہال و لاونج تھا۔۔۔سامنے ڈرائنگ روم ۔۔ہال سے اوپر کوسیڑھیاں جاتیں۔۔۔ اوپر رہائشی کمرے تھے۔۔۔ ہر طرف ہلکی گرد اور عرصہ بند رہنے والی باس تھی۔۔۔ ہاں یہ عمبرین کا گھر تھا۔۔۔ جہاں اس نے اپنے بہترین دن گزارے ۔۔ جہاں وہ زندگی کو انجوائے کیا۔۔ یہ گھر اسکی اچھی بری یادوں کا مسکن تھا۔۔۔ہم دونوں واپس باہر آ گئے۔۔ اور باہمی فیصلے سے سوچا کہ اوپر بہت سناٹا اور باس سی۔۔ اسکے برعکس ۔۔ گھر کا نچلا حصہ اور انیکسی کافی حد تک بہتر تھیں۔۔ جہاں بقول عمبرین کے کبھی کبھی صفائی ستھرائی ہو جاتی تھی۔۔اس دن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بیلا میں کسی حد تک لڑکیوں والی روح موجود۔۔۔ اس نے انیکسی میں تھوڑی سی جھاڑ پونچھ کی۔۔۔ کھڑکیاں کھولیں۔۔ مجھے بھیج کر ائیر فریشنر منگوایا۔۔۔ گھر کی لائٹس وغیرہ چیک کیں۔۔ شکر ہے سب چالو تھا۔۔ یقینا عمبرین اس گھر کے بلوں سے غافل نا تھی۔۔ آخر اسکا میکا تھا یہ ۔۔ میکا جو مان ہوتا ہے سب لڑکیوں کا 

اور جب بیلا سب کاموں سے فارغ ہوئی تو اسے دیکھ کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔ اسکا چہرہ باب کٹ بال سب گرد سے اٹے تھے۔۔۔ مجھے ہنستا دیکھ کر وہ ٹھٹھکی پھر سامنے شیشے میں دیکھ کر سمجھی اور رک نواب نا ہو تو۔۔ تیرے کام میں ذلیل ہوئی ورنہ میں کبھی گھر داری نہیں کی یہ کہتی میری طرف لپکی۔۔ میں باہر کو بھاگا۔۔ لان میں ادھر ادھر۔۔ لیکن وہ بیلا تھی ۔۔ اسے میں نے وہ جھکائیاں دیں جو دے سکتا تھا لیکن اس نے ہر جھکائی سے سنبھل کر مجھے اڑنگا لگایا اور میں سیدھا لان کی گھاس پر۔۔اور بنا سوچے سمجھے پہلوانوں کی طرح میرے اوپر آ بیٹھی اور گلا دباتے ہوئے بولی اب ہنسو۔۔ بولو۔۔ وہ بلکل عام لڑکیوں سے ہٹ کر مردانہ انداز والی لڑکی تھی۔۔ جب میرا گلا زیادہ دبنے لگا تو میں نے جوابی زور لگایا۔۔۔ جو بھی تھی آخر کو لڑکی تھی۔۔ میں اسے نیچے گرا کر اسکے اوپر ٹانگ رکھ دی جیسے پہلوان داو لگاتے۔۔ وہ زور سے چیخی اففف مر گئی۔۔ پرے مرو پینڈو توبہ کتنا وزن تمہارا میں شوخی میں تھوڑا اور اوپر آیا۔۔۔ اسکا چہرہ وزن سے لال ہو چکا تھا۔۔ تھی بھی تو نکو سی لڑکی 

ہم دونوں کو خبر نا تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔۔ میں تھوڑا جھکا اور کہا ہونہہ بڑی بنتی تھی پلئیر اب بولو۔۔ ایسے جھکنے سے میری گرم سانسیں اورمیرے کولون کی مہک یقینی اسے محسوس ہوئی ہوگی۔۔اچانک اسکا چہرہ جیسے گھبرایا جھجھکا۔۔اس نے آہستگی سے بازو چھڑانے چاہے۔۔ میرے اندر بلکل کسی طرح کی ہوس نا تھی اور نا ہی مجھے اس میں کبھی لڑکیوں والا کچھ فیل ہوا۔۔میں نے ویسے ہی مستی میں بازو ہلکے سے دبائے اور کہا نہیں چھوڑتا میرا آئیڈیا تھا کہ وہ کوشش کرے گی ۔۔ ہمت نہیں ہارے گی لیکن جانے کیوں اسے نے پھر کمزور سے انداز میں مزاحمت کی اور روہانسے انداز میں بولی نعیم چھوڑو نا۔۔اسکے چہرے ر گھبراہٹ نمایاں تھی جیسے رو پڑے گی۔ میں جلدی سے اترا اور کہا کیا ہوا یار۔۔اس نے کہا کچھ نہیں بہت بدتمیز ہو تم۔۔۔ میں نے منہ بناتے ہوئے کہا تمہی نے بنایا ۔۔گاوں سے تو سیدھا سادھا آیا تھا۔۔ وہ پھر بولی اسی لیے شریف بھی ہو اسی لیے دوست بھی۔۔ شریف اور دوست کہتے اسکے چہرے پرہلکی سی لالی اور اعتماد کہتے فخریہ مسکان ابھری۔۔اب اٹھو چلو اس نے کھڑا ہوتے ہوے کہا۔۔ تمہاری ساری مستی فٹ کرتی پریکٹس میں۔۔ میں نے بیٹھے بیٹھے نارمل ہاتھ بڑھایا اور کہا اٹھانا یار۔۔ اس نے کہا جی نہیں اٹھو مرو خود ہی خلاف توقع اس نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔۔ جو اسکی عادت کے خلاف تھا۔۔ وہاں سے اسکے گھر پہنچ کر اس نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔۔ کچھ دیر بعد آنٹی نے جوس لا کر دیا اور کہا لنچ تیار ہے۔۔۔ تم لوگ لنچ کرلو پھر کرتے رہنا جو کرنا 

کچھ دیر بعد انکل بھی آ گئے۔۔ انکل کا بچپن بھی گاوں میں گزرا تھا پڑھنے کا شوق تھا لیکن اس سے بڑھ کر کھیلوں کا شوق تھا۔محنت کی۔۔ اور آغاز میں عام سکول کوچ سے پہلی جاب کی ۔۔اور ہوتے ہوتے سپورٹس گورنمنٹ جاب میں چلے گئے اور سال بھر پہلے صوبائی لیول کے آفیسر کی پوسٹ سے ریٹائر ہوئے۔ انکے ساتھ گاوں کی گاوں کے میلوں ٹھیلوں کی کھیلوں کی۔۔ انہوں نے مجھےپوچھا تم کونسے کھیل کھیلتے رہےہو۔۔ میں نےسادگی سے بتایا جی کرکٹ پٹھو گول گرم ۔۔اور بنٹوں میں تو میرا کوئی ثانی ای نہیں۔۔ میرا نشانہ بہت پکا۔۔ وہ زور سے ہنسے اور بولے اچھا۔۔میں بھی بہت کھیلتا تھا بنٹے۔۔ کسی دن کھیلیں گے تمہارے ساتھ۔۔ کیا کھیلیں گے بھئی اوپر سے بیلا نازل ہوئی۔۔ اسنے چینج کر لیا تھا اور نارمل ٹراوز شرٹ میں ملبوس تھی 

لنچ کےبعد انکل اورآنٹی اچھا بچو تم لوگ باتیں کرو کہتے نکل گئے۔۔میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔ اب وہ بلکل پرانے انداز میں تھی۔۔۔ اس نے گردن پر انگلی پھیرتے ہوئے اشارے سے قتل کرتے ہوئے کہا۔۔ اب تمہیں دوڑانا میں نے بس دیکھتے جاو تم تو گئے ۔۔ چلو۔۔ ہم دونوں نیچے بیسمنٹ میں آ گئے ۔۔ وہ مجھے لیے ایک سائیڈ پر پڑی سیٹس کی طرف لے کر آئی۔۔ اور بیٹھتے ہوئے بولی بدھو کھانے کے کچھ دیر بعد ریسٹ کرتے۔۔دوسرا تم سےایک بات بھی کرنی تھی۔۔ 

میں نے بولا جی ارشاد۔۔ وہ بولی لیکن یہ بات ایک راز ہے۔۔ آج تک کسی کو نہیں بتائی میں نے۔میں نےکہا تمہیں پتہ نا میں بہت ضدی ہوں۔۔ میں نے کہا جی آ کوئی شک۔۔ وہ بولی اور میں بہت عجیب سی بھی لگتی ہوں بقول تمہارے نون نبیلہ۔۔ نون نمونی ۔۔ 

یہ جو کاشی ہے نا اس نے میری انسلٹ کی تھی۔۔ بھرے میدان میں سب کےسامنے ۔۔ایسے الفاظ بولے تھے کہ میں آج تک بھول نہیں سکی۔۔ گیم ہے یار ۔۔ اپنے کھلاڑی کو سپورٹ کرو ہوٹ کرو لیکن انسلٹ نہیں۔۔ اسکی آنکھیں بھیگ سی گئیں۔۔ میں اس کے پاس کھسکا اور کہا مجھے بتاو کیا بولا تھا اس نے۔۔ وہ بولیں نہیں بس رہنےدو۔۔ میں نے کہا بتاو نا میں اسکا وہ حشر کرتا کہ دیکھنا۔۔۔ اس نے کہا نہیں نا۔۔ بس تم اس بات کو چھوڑو بس اب قسمت سے موقع ملا اسےہرانےکا اس پر توجہ دو۔۔ میں شائد اور ضد کرتا جب ہمیں آواز آئی اچھا تو یہ پریکٹس ہو رہی ہے ۔۔ ہم نے پلٹ کر دیکھا تو حیران رہ گئے۔۔ وہ میڈم رفعت تھیں۔۔ بیلا خوشی سے کدکڑے مارتی انہیں ویل کم کیا۔۔ وہ بتانے لگیں کہ سوچا پہلا دن ہے کچھ ٹپس بھی دے آوں ۔۔اور نعیم جب تک رننگ کرے گا تمہارے ساتھ ایک گیم بھی لگا لوں ۔۔ جب سےتم جیتی تب سے انتظار میں کہ بدلہ اتارنا۔۔ آج وہ مکمل فارم میں تھیں۔۔ ٹراوز شرٹ جیسا ہی شلوار کرتا۔۔ کرتےکا گلہ ہلکا سا کھلاتھا لیکن سیدھے کھڑی پوزیشن میں مناسب تھا۔۔ دوپٹے کی جگہ سٹالر۔۔ اور کھلے بالوں کو اس سٹالر کے نیچے مکمل کور کیا ہوا۔۔ میں تو انکی گریس ہی دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔وہ دونوں مجھے رننگ مشین پر لائیں اور بتایا کہ کیسے بھاگنا۔۔ یہ دو مشینیں تھیں آمنے سامنے۔۔ایک پر بیلا گئی اور دوسری پر مجھے آنے کا کہا گیا۔۔ جیسے ہی بیلا کے کہنے کے مطابق میں نے بٹن ایڈجسٹ کر کے مشین کو رن کیا۔۔ شائد سپیڈ زیادہ رکھ دی میں نے۔۔ یا یکدم مشین بیلٹ سرکنے سے میں لڑکھڑایا۔۔ اب میرے ساتھ وہ ہی ہوا جو گاڑی سے چھلانگ لگانے والوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔۔ نیچے بیلٹ چل رہی تھی اور میں قدم جما ہی نا سکا اور اپنی جھونک میں سیدھا آگے کو جا گرا۔۔ بیلا جب تک مشین کو روک کر اترتی ۔۔ میڈم رفعت بے ساختگی سے اوہو دیکھ کر کہتے مجھے اٹھانے جھکیں۔۔۔ افففف انکا اس ہلکے کھلے گلے والی شرٹ کے ساتھ جھکنا مجھے جو پہلے تارے نظر آ رہے تھے اب اور اڑ گئے۔۔ گلے کے اندر سے انکا سانولا مقناطیسی حسن۔۔ سنولاہٹ والی پوری کشش لیے ۔۔ بوبز سامنے تھے ۔۔ میں جیسےساکت۔۔ میڈم آخر میڈم تھیں زمانہ شناس انہیں اپنی پوزیشن کا فوری اندازہ ہوا اور وہ سیدھا ہو بولیں اٹھ بھی جاو۔۔ چہرے پر انہوں نے کمال مہارت سے سنجیدگی لائی۔۔ اور میں شرمندہ ہو کر دوبارہ سے مشین پر آنےکو تیار۔۔۔ ۔ کچھ بیس منٹ کی محنت اور راہنمائی کے بعد میں مشین پر بیلنس رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔۔ تب بیلا نے مجھے ہینڈ فری کے ساتھ ایم پی تھری دیا اور کہا بس اس میوزک کے ساتھ بھاگتے رہو۔۔ میوزک تمہیں جوش دے گا۔ میں نے بھاگنا شروع کیا ۔ لیکن میوزک کی بجائے میرا دھیان میڈم کے جلوے کی طرف تھا تب مجھے ایک بلنڈر کا احساس ہوا۔۔ میں انڈر وئیر پہننا بھول گیا تھا۔۔۔ اور جب کسی بات کی طرف دھیان چلا جائے تب ادھر ہی رہتا۔۔ میرا ذہن شیطانی ہو چلا تھا سمجھیں میری آوارگی والی کیسٹ سٹارٹ۔۔لن نے ہلکی سی انگڑائی لی جسے میں نے سانس روک کر منت کی کہ بھئی بیٹھ جا۔۔ اور ساتھ الٹی گنتی پڑھتے ہوئے ذہن بدلا ۔۔ لیکن لا حاصل۔۔ کچھ دیر بعد میں نے نظر دوڑائی تو میڈم سامنے سیٹ پر بیٹھی میری ہی طرف دیکھ رہی تھیں۔۔ خدا خدا کر کے میرے تین کلومیٹر پورے ہوے اور میں ہانپتا نیچے اترا۔۔میرے سانس لینے جوس پینے کے دوران ۔۔ وہ دونوں بیڈ منٹن سٹارٹ کر دی۔۔۔ افففف جیسے ہی میری نظر دوبارہ میڈم پر پڑی۔۔ ٹائٹ شلوار قمیض کے اندر قید انکے بوبز ادھر ادھر مچل رہے تھے۔۔ جب وہ شاٹ کے لیے بھاگتی جھکتی۔ ہلکا ہلکا جلوہ ۔۔ جیسے انکی برا کا رنگ سیاہ تھا۔۔ میرے ہتھیار کو ستا رہے تھے اور میں اسے ٹانگوں میں دبائے بیٹھا۔۔ اس بار بھی گیم بیلا ہی جیتی تھی۔۔پریکٹس کے بعد ہم اوپر آئے ۔۔ اور میں نے بھی اجازت چاہی کہ میں جاتا ہوں ابھی کافی سیٹنگ کرنی دیکھنی۔۔ تب میڈم کو پتہ چلا ۔۔ اور وہ بولیں واہ۔۔ کیا قسمت ہے بھئی ۔۔۔ اسبار انکی اس دن والی پسینے کی مہک دوبارہ محسوس کرنے کے لیے ان سے ریکویسٹ کی مجھے بھی میں سگنل تک چھوڑ دیں گی۔۔ ہم نکلنے لگے تو بیلا کی ماما کہنے لگیں نعیم جب تک تم یہاں ہو باہر سے کچھ نا لینا۔۔ ڈنر تمہیں بھجوا دونگی اور میرے عذر کے باوجود انکی ماوں جیسی شفقت اپنی بات منوا گئی۔۔ واپس اسی کار میں وہی ہلکا اندھیرا اور انکی مہک ۔۔ میرا انگ انگ نشیلا ہو چلا تھا۔۔لیکن افسوس آج سگنل پر اترنا تھا۔۔ دو منٹ ہی خمار رہا۔۔ جب میں اترنے لگاتو میڈم بولیں نعیم رکو۔۔ ایک بات کہوں اگر برا نا مانو یا غلط نا سمجھو۔۔ میں بولا جی میڈم۔۔ وہ بولیں بطور سپورٹس انچارج تمہیں نصیحت کر رہی ہوں ۔۔بدھو لڑکے رننگ مشین پر آنے سے پہلے انڈر وئیر لازمی پہنتے ہیں۔۔۔ اور میں شرم سے لال ۔۔ وہ مسکرائیں اور کہا ڈونٹ وری ۔۔ اور گاڑی آگے چلا دی۔۔ میں انکی بات انکی نظر انکے جلووں پر غور کرتا جب عمبرین کے گھر کے پاس آیا تو باہر گیٹ کے پاس کوئی کھڑا تھا۔۔ کون یہاں آ سکتا ؟؟     

میں تیز قدموں سے چلتاہوا نزدیک آیا تو حیران رہ گیا۔۔ وہ ناصر تھا۔۔ مجھےدیکھ کر بولا بس بھائی آپ سے شکوہ مجھے ۔۔ میں نے کہا شکوہ جائز لیکن تم یہاں کیسے۔۔اور دروازہ کھولتے اسے اندر لیتا آ گیا۔اندر اتے ہی وہ بولا ۔۔ مجھ سے جھوٹ بولا آپ نےلیکن دیکھ لیں۔ میں شرمندگی سے بولا یار عمبرین نےمنع کیا تھا۔۔ خیر بتاو ادھرکیسے۔۔وہ بولا پتہ جب عمبرین بھابھی یہاں نئی نئی آئی تھیں پانچ چھ سال پہلےمیں ساتویں میں تھا۔ 

سمجھیں بڑی آپا میری۔۔ نائلہ کی طرح۔۔ابھی انہوں نے مجھے بلایا اور چپکے سے ایک چیز بھجوائی آپکے لیے یہ لیں۔۔ اس نے بیلٹ کے ساتھ ایک بند لفافہ جیب سے نکال کرمجھے دیا۔ ساتھ بتانے لگا کہ دوست ساتھ بائیک پر آیا ہوں اسے میں مارکیٹ پر روکاہے وہ انتظار کرتا ہو گا اور ہاں آتے ہوئے میں بھابھی کی آیا کے گھر پیغام دے آیا ہوں اسکا بیٹا ملا تھا۔۔ادھرسے کوئی نا کوئی بندہ آ جاے گا آپ کے پاس پھر جیسے آپ شیڈول بنایا۔۔ اور آپ بے فکر ہو کر انسے بات کر لینا ۔۔ آیا اور اسکا میاں ۔۔ عمبرین بھابھی کے ساتھ سالوں سے ساری تفصیل آ کر بتاوں گا۔۔ کافی کیا انہوں نے ان لوگوں کے لیے بس سمجھیں جیسے ہم اور بھابھی لوگ فیملی ویسےوہ ملازم ہو کر فیملی سے۔۔ اسکے ساتھ ہی ناصر پھر آنے کا کہتا نکلنے لگا۔۔ میں نے کہا اب جگہ تو تم نےدیکھ لی نا۔۔ کسی کو بلانا ہو تو یہ کمرہ میرج ہال کے کمرے سے زیادہ اچھا ہے۔۔ وہ کھلکھلا کر ہنسا اور بولا آوں گا کل یا پرسوں۔۔ اور بتاوں گا کہ کیا سٹوری۔۔ وہ بلکل گیارہویں بارہویں والے نوعمر لڑکوں کی طرح تھا۔ چمکتی آنکھیں ۔۔ ہلکی سی آتی مس۔اور نیا نیا دنیا سے تعارف 

اسکے جانے کے بعد دروازہ لاک کر کے میں واپس پلٹا۔۔ شام کا دھندلکا پھیل چکا تھا۔۔ یہاں اندرون شہر والی رونق اور شور شرابا نہ ہونے کی وجہ سے ہر طرف سکوت تھا۔۔ ساتھ ساتھ گھر لیکن سب گھروں میں۔۔اندر آکر میں نےفورا عمبرین کا بھیجا لفافہ کھولا۔۔ انکی خوبصورت تحریر۔۔ ویسے ہی گول گول نقطے ۔۔ سادہ سا انداز بیان لیکن ایک ایک لفظ میں ہزار جذبے۔۔ لکھاتھا نعیم ۔۔ تم اسوقت وہاں ہو گئے جہاں میری یادیں بکھری ہیں۔۔ تم گئےہوتو شدت سے میرا دل اس گھر کے لیے اداس ہو گیا۔۔ اپنے والدین کے لیے وہاں کی زندگی کے لیے۔۔ میں وہاں نہیں جاتی تھی کہ دل بہت اداس ہو جاتا تھا اور میں یہاں کے مسائل میں بہت مشکل سے ایڈجسٹ ہوئی۔۔اوپر والے پہلے کمرے میں ٹیلی فون لگا ہوا ہے۔۔سب کمروں کی چابیاں کچن کے اوون میں پڑی ہیں۔۔ تم اوپر جا کر دس بجےکے قریب انتظار کرنا۔۔ میں کوشش کرونگی تمہیں ادھرسے کال کرنے کی۔۔کیا ہے نا ۔۔ بہت دل اداس ہے نائلہ بھی نہیں تم بھی نہیں۔۔ تمہاری دوست عمبرین 

افففف انکی تحریر کا لفظ لفظ اداس تھا۔۔ انکے اندر کا دکھ۔ میں انکے بارے سوچتا اٹھا اور کچن میں اوون کو کھول کر چابیاں نکالیں اور پہلا کمرہ کھولا۔۔ بہت نفیس اور سادہ سا کمرہ۔۔سامنے دیوار پر ایک تصویر ٹنگی تھی۔۔ ایک گریس فل کپل اور انکے ساتھ پندرہ سولہ سال کی عمبرین۔۔ سکول یونی فارم میں۔۔ بلکل ٹین ایجر اور معصوم ۔۔بیڈ کےساتھ ہی پی ٹی سی ایل فون تھا۔۔ خوش قسمتی سے اس میں ٹون آ رہی تھی 

کچھ دیر بعد ڈور بیل بجی۔۔باہر ایک پچاس ساٹھ سالہ مرد اور اسکے ساتھ اسی ایج کی ایک بزرگ خاتون تھیں۔۔ میں سمجھ گیا کہ یہ آیا ہیں۔۔۔وہ واقعی عمبرین کی آیا تھیں مجھےایسے ملیں جیسے میں انکا بیٹا ہوں۔بہت شفقت سے۔۔ کافی دیر وہ عمبرین کےوالدین کے احسانات گنواتے رہے 

انہوں نے بتایاکہ عمبرین کی پیدائش انہی کے ہاتھوں میں ہوئی۔۔اتنی دیر میں باہر پھر بیل بجی ۔۔ اسبار بیلا کےگھر سے ڈنر آیا تھا۔۔۔ وہ لوگ غصہ کرنے لگے کہ زندگی میں پہلی بار صاحب مرحوم کے کسی مہمان کی خدمت کا موقع ملا اور میں کسی اور سے ڈنر منگوا لیا۔۔بڑی مشکل سے انہیں منایا کہ یہ دوست کا کام ہے ۔۔ اور اس بات کا وعدہ لیا کہ اب کچھ بھی چاہیے ہوگا تو انہیں کہوں گا۔۔ رات کا دھندلکا پھیلنے کو تھا۔۔ جب وہ لوگ رخصت ہوئے اورجاتےہوئے انکل زبردستی مجھے ضروری چیزیں دودھ پتی چینی نمکو چپس وغیرہ لیکر دے گئے کہ رات کو بھوک لگی تو دودھ چائے کے ساتھ کھا لینا ۔۔ انکے جانےکے بعد میں نےڈنر وغیرہ کیا۔۔ ابھی صرف ساڑھے آٹھ بجے تھے۔۔کچھ دیر کالج کی پڑھائی کرنے کے بعد میں ہوا خوری کےلیے باہر لان میں ٹہلنے لگا۔۔ لان میں ٹہلتے ٹہلتے میری نظر سامنے والے گھر پر پڑی۔۔ پہلی نظرمیں مجھے لگا کوئی مجسمہ ہے لیکن نہیں وہ کسی لڑکی کا ہیولہ تھا۔۔وہ سامنے والےگھر کی گیلری میں کھڑی سامنے جنگلے پر کہنیوں پر جھکی مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ میں نے زیادہ توجہ نادی اور کچھ دیربعد اندر آ گیا ۔۔ وقت جیسے تھم چکاتھا۔۔میں نے کچن میں جا کر چائے بنائی اور اوپر کمرے میں آکر فون کا انتظار کرنے لگا۔۔ ہلکی ہلکی سردی بند کمرے میں بھی آرہی تھی۔۔ میں وہیں بیڈ پر فون پاس رکھ کر نیم دراز لیٹ گیا۔۔ سامنے عمبرین اور اسکے والدین والی تصویر لگی تھی۔۔ میں بغور عمبرین کے نقوش کو دیکھنے لگا۔۔انکے چہرے پر نوخیز جوانی رنگ نمایاں تھے۔۔ بڑی چمکتی آنکھیں جن میں اب اداسی جم کی تھی ۔۔ انکے دلکش ہونٹ اور انکے مسکرانے سے رخساروں پر پڑتے ڈمپل جو میں نے آج ہی دیکھے تھے۔۔ انکے چہرے میں ایک عجیب کشش تھی اپنی طرف کھینچتی تھی۔۔وہ کشش آج بھی ویسےہی تھی ۔۔ وہاں وہ کلی تھیں اب وہ پورے جوبن پر تھیں ۔۔لیکن شائد انکے آس پاس ہر طرف خار مزاج لوگ تھے وہ پورے من سے کھل نا سکیں ۔۔اپنے ہر رنگ کی پنکھڑی نا پھیلا سکیں۔۔ اور مجھے وہ پنکھڑیاں کھولنی تھیں۔۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ بیل بجی۔۔۔ میں نے بے تابی سے فون ریسیو کیا۔۔ کیسے ہو انکی بوجھل سی آواز آئی۔۔ میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں ۔۔ میں بھی ٹھیک ہوں۔۔کیا کر رہے تھے۔۔ آپ کو دیکھ رہا تھا میں نے کہا۔۔ ہیں وہ کیسے ۔۔ آپکی تصویر دیکھ رہا تھا۔۔ اوہ وہ ہلکا سا کچھ شوخ بولیں تو کیسی لگی میں۔ آپ جیسے کھلتا ہوا گلاب ہممم اچھا وہ ہلکا سا چپ ہوئیں۔۔ میں نے کہا پتہ ہے میں یہاں آپکے گھر ہوں ان دیواروں میں آپ سی اپنائیت ہے ۔۔آپ کی خوشبو ہے۔ کاش آپ بھی ہوتیں۔۔ کتنا مزہ آتا نا۔۔ ہاں میرا بھی بہت دل کرتا ہے ادھرجانے کا لیکن وہاں کوئی ہوتا ای نہیں جو میرا انتظار کرے علاوہ خالی دیواروں کے۔۔ان کے لہجے میں اداسی تھی۔۔ اب تو میں ہوں نا آپ آئی تو میں آپ کا آپ کے ہی گھر میں استقبال کرونگا۔۔ وہ پہلی بار ہنسیں اور بولیں شوخا۔۔ اچھا اب سامنے کیبنٹ کو کھولو۔۔ اور وہاں سے بلیکنٹ نکال لو۔۔ تم ویسے ہی پڑے ہوئے ہوگے ہے نا۔۔ ان کو وہاں بھی میرا خیال تھا اور میں جی اچھا کہتا بلینکٹ نکال کر اوڑھ لیا۔۔۔ وقت گزرتا گیا وہ مجھے چھوٹی چھوٹی باتیں سکول کی آیا کی انکل کی ماما کی۔۔ اپنے خوابوں کی۔۔ ایک عجیب سحر طاری تھا۔۔ بلیکنٹ کو اوپر لیے فون سنتے ہوئے آنکھیں بند۔۔ میں نے ایسےہی مستانے لمحے میں کہا رانی آپ کس کروٹ لیٹی ہیں۔۔ بائیں۔۔ اور تم۔۔ میں دائیں ۔۔ میں نےکہا مجھے ایسے لگ رہا آپ میرے بلکل سامنے لیٹی ہیں اور آپکی آواز جیسےسرگوشی۔۔ میری آنکھیں بند اور آپکی۔۔ وہ بولیں اب میری بھی بند۔۔ میں نے کہا پتہ ہے رانی میرا کیا دل کرتا وہ بولیں کیا ۔۔ میں نے کہا کہ وقت رک جائے اور ہم ایسے لیٹے باتیں کرتےرہیں کتنا طلسم ہے نا یہ ۔۔ وہ بولیں لیکن جیسے ہی آنکھ کھلنی طلسم ٹوٹ جانا۔۔ 

میں نےکہا طلسم چلنے تو دیں ۔۔ کیاپتہ طلسم سب بدل دے۔۔نا ایسی باتیں نا کیا کرو۔۔۔ کیوں نا کیا کروں میرے اندر جیسے ایک الاو اٹھ رہا تھا۔۔ یا شائد رات انکی سرگوشی اور انکے گھر کارومان تھا۔ بسسس تمہیں نہیں پتہ اس ساکت جھیل میں بھونچال آ جائے گا۔۔ میں نے کہا اچھا نا۔۔ آج بہت پیاری رات آج افسردہ نا ہوں نا۔۔ میں ان سے انکی پسند ناپسند رنگ چوڑیوں مہندی سے ہوتا ہوا انہیں پھر سے نارمل کر ہی لیا۔۔ میں نے پھر سرگوشی کی رانی وہ بولیں ہممم۔۔ میں نے کہا پتہ ہے آپکے بال بہت خوبصورت ہیں دل کرتا کہ۔۔ میں بات ادھوری چھوڑ دی وہ بے ساختگی سے بولیں کہ ؟؟میں نےکہا دل کرتا کہ انہیں چھو لوں انکی مہک کومحسوس کروں۔۔میں نے بول تو دیا تھا لیکن دل دھک دھک کر رہا تھا۔وہ کچھ دیر چپ ہوئیں اور بولیں تم نا بہت شوخے ہو۔۔ کیا کرنا چھو کر۔۔میں نے کہا چھونے تو دیں نا۔۔ وہ بولیں اچھا چھو لو۔۔ یقین جانیں اس وقت خیالی فیلنگز میں میرا وہ حال تھا جیسے وہ بلکل میرے سامنے۔۔ اور سب جانتے میں کافی سیکس کر چکا تھا لیکن جو مدہوشی جو مزہ جو خمار اس وقت تھا وہ کبھی نا ملا شائد اسلیے کہ وہ سب ایک وقتی جوش تھا اور اب کی بار دل ساتھ تھا جذبوں کے رنگ تھے میرے انگ انگ میں ایک سرمستی طاری تھی۔۔ میں نے کہا میں ہاتھ بڑھایا اور آپکے بالوں کو چھو لیا۔۔ سامنے آتی لٹ کو ہلکا سا کھینچا۔۔ اففف نہیں نا ۔۔ وہ ہلکا سسکیں۔۔ اگر ادھر لفظ دل سے نکل رہے تھے چاہ سے نکل رہے تھے تو کیسے ممکن تھا ادھر اثر نا ہو۔۔انہیں بلکل اصل لگا۔۔ میں نے کہا رانی۔۔ آپکے بالوں کی مہک بہت ہی نشیلی وہ کچھ دیر چپ رہیں اور بولیں اپنا ہاتھ میرے رخسارکے نیچے رکھ لو اور بس کچھ دیر چپ رہو۔۔ جب میں بہت سکون میں ہوتی ہوں تو ایسے ہی جو پاس ہو اسکا ہاتھ چہرے کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتی تھی۔۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا۔۔ اب دونوں طرف خاموشی بھی تھی اور چپ اظہار بھی۔۔کچھ دیر بعد میں نے کہا رانی ۔۔ وہ بولیں ہممم۔۔۔ میں نےکہا آپ کا سر سہلا دوں ۔۔ ہممم سہلا دو لیکن رکو۔۔ میں تمہارے شانےپر سر رکھتی ہوں تم بالوں میں انگلیاں پھیر دو ۔ آج مجھے بہت سکون جیسے واقعی وہاں اس کمرے میں ہوں جہاں سب تھے۔۔بالوں میں انگلیوں کے ساتھ میں سرگوشی کی۔۔ آپ جب بھی تھکو مجھے بتانا میں آپکا سر سہلا دیا کروں گا۔۔ آپ کا ہمزاد دوست ہوں آخر۔۔ آپ کے سب غم مٹا دینے ۔۔ میں آپکا سر سہلاتا ہوں آپ سو جاو۔۔اور تم بھی سو جانا نا۔ نہیں میں کچھ دیر آپکے چہرے کو دیکھوں گا۔۔ اچھا جی ۔۔ وہ چپ ہو چکی تھیں کال چل رہی تھی۔۔ کچھ دیر بعد انکے سانسوں کی آواز مدہم مدہم ریسیور سے آرہیں تھی۔۔ اور میں سامنے تکیے کو یوں دیکھ رہاتھا جیسےوہ واقعی میرے سامنے ہوں ۔۔ میری آنکھوں میں جانے کیوں نمی سی آ گئی شائد اسبار بات دل پر آ گئی تھی۔۔جانے کب فون بند ہوا کس نے کیا یا خود کٹا۔۔ کب میں سویا پتہ نہیں۔۔ اگلی صبح میری آنکھ تیز ڈور بیل سے کھلی۔۔میں جمائیاں لیتا باہر نکلا ۔۔ساڑھے آٹھ ہونے والے تھے باہر بیلا تھی۔۔دروازہ کھولا تو وہ شدید برہم ۔۔ کہاں مرے ہوئےتھے خدا کی پناہ کب سے بیل دےرہی تھی۔۔ بے ہوش انسان وقت دیکھو ۔ اس کی زبان قینچی کی طرح چل رہی تھی۔۔ بڑی مشکل سے دس منٹ لیکر میں جلدی جلدی تیار ہوا۔۔ پوری جلدی کے باجود جب میں واپس آیا تو نو بج چکے تھے ۔۔ اب جائیں گے کیسے کالج شٹل تو نو بجے نکل جاتی اور سٹاپ بھی دس منٹ کی واک پر تھا۔۔ مجھے پتہ تھا کہ ایسے ہی ہونا اسلیے آج تم مابدولت کی ڈرائیونگ دیکھو گے ۔۔ ہمارا لیڈیز ویسپا۔۔ وہ ہر قدم پر مجھے حیران کرتی تھی۔۔ تم چلاو گی۔۔ جی نہیں میں رسک نہیں لے سکتا۔۔ وہ ہنسی اور بولی ڈونٹ وری میں کالونی میں اکثر چلاتی ہوں اور گیمز تک مجھے تمہاری تم سے زیادہ فکر ہےمیرے غنے چل آ ۔۔ راستے میں عجیب ماحول تھا ایک چھٹکو سی لڑکی ویسپا چلا رہی چلو ٹھیک لیکن اسکے پیچھے ہٹا کٹا لڑکا ویسے پر پاوں لٹکائے بہت ہی نکھٹو لگ رہا تھا۔۔اللہ اللہ کر کے ہم کالج پہنچے۔۔ اس دن کل والا شیڈول جاری رہا ۔ کالج پھر بیلا گھر وہاں آج سہی سے میری مت ماری گئی ۔۔ آج صرف وہ اور میں ہی تھے۔۔وہاں سے گھر اور اسکے بعد عمبرین کی آیا اور انکے میاں کی آمد۔۔عمبرین نے انکو بتایا تھا کہ میں اسکی مرحومہ ماما کے کسی کزن کا بیٹا ہوں ۔۔ اسلیے مجھے وہ گھرکا بندہ سمجھ کر اور عمبرین کے پیغام کے بعد بلکل بیٹوں کی طرح لے رہے تھے۔ انکی باتوں سے مجھے کافی کچھ علم ہوا ایک خاکہ سا بنتا گیا جسکا ذکر بعد میں اکھٹا آئیگا۔۔۔انکے جانے کے بعدپھروہی انتظار اور پھر وہی بیل۔۔۔ کیسی نیندآئی پھر میں نے ریسیو کرتے ہی پوچھا۔۔۔ بہت مزے کی بہت گہری بہت پرسکون۔۔واااہ اور تمہیں۔۔ مجھے بھی بہت دیر آپکو تکتارہا ایسے سوچا کہ صبح مجھے تکیےپر آپکا بال ملا۔۔ وہ کھلکھلا کر ہنسیں اور کہا بہت ہی شوخےہو تم۔۔ پھر کیا کیا بال کا۔۔ میں نے کہا سنبھال لوں گا جب بہت یاد آئے گی اسے جلاوں گا سنا ہے ایسے جسکا بال ہو وہ فورا آ جاتا۔۔۔ وہ پھر ہنسیں ۔۔ میں نے کہا آپکی تصویر میں ڈمپل پڑتے آپکے چہرے پر اب نہیں پڑتے۔۔ وہ بولیں نہیں۔۔ میں نے کہا کیوں۔۔ کہتیں بدھو تب میرا چہرہ تھوڑا گولو مولو تھا اب تھوڑا سمارٹ ہو گیا تو کم پڑتے ہیں ۔ ویسے تم بہت نوٹ کرتے ہو ۔۔ میں نے کہا جناب ہمارے نوٹ کی آپ بات ہی نا کریں ۔۔ آپ کو پتہ میں نے سب سے پہلے آپ میں کیا نوٹ کیا تھا۔۔ کیا کیا وہ سسپنس سے بولیں۔۔ نا بتانا نہیں آپ ناراض ہو جاوگی۔۔نہیں ہوتی نا بھلا ایسی کیا بات بتاو۔۔۔ اچھا بتاتا ہوں نا۔۔ پہلے آپ شانے پر آئیں کان میں بتاتا ۔۔چلو جگہ دو آ گئی۔۔ پھروہ ہی خیال سج گیا۔۔ میں بیڈ کی ٹیک کے ساتھ کمر لگا کر وہ میرے بلکل ساتھ۔۔ میرے شانےپر سر لگا کر ۔۔ اب بولو بھی۔۔ میں نے کہا مجھے ڈرلگتا نا ۔۔ آپ ناراض ہو گئی تو۔۔ وعدہ کریں پکی دوستی والا ناراض بھی نہیں ہونا اور بات بھی کرنی۔۔انکا سسپنس عروج پر پہنچ چکاتھا اب بولو بھی وعدہ پکا۔۔۔ جیسے ہی انہوں نے وعدہ کیا مجھے وہ پہلا دن یاد آگیا جب میں نے چھت سے انہیں اور انکے سرخ تک کو دیکھا تھا۔۔ میں نے سرگوشی کی۔ 

آپکے سینے کے سرخ تل کو۔ تل جو چمکتا ہے  

میں نے ہمت کر کے بول دیا۔۔ کچھ لمحے جیسے سناٹا چھا گیا مجھے لگا کہ ابھی فون بند ہوا یا کلاس ہوئی۔۔ میں نے ہمت کر کےکہا رانی ۔۔ ناراض ہیں ۔۔ وہ ہلکا جھجھک کر بولیں نہیں لیکن تم کیسے دیکھا میں تو بہت احتیاط کرتی انکے لہجے میں شرم جھجھک دونوں شامل تھیں۔۔ بس دیکھ لیا آپکا قصور نہیں ہماری نظر کا کمال ہے۔۔ انکی فطری جھجھک جاگ چکی تھی۔۔میں نےکہارانی پتہ ہے ۔۔وہ بولیں نا کچھ نہیں پتہ اور نا پتہ کرنا بس سوجاو۔۔نا میں ایسے جانے نہیں دینا میں یہ بازو بڑھا کر آپکو روک لیا۔۔ نعیم ۔۔ وہ تھوڑا شرما کر بولیں۔۔ ہم میں کچھ طے ہوا تھا ایسی باتیں کیوں۔۔ مجھے جھٹکا لگا ۔۔ میں نےکہا رانی سنیں۔۔ میں آپکو پسند کرتا ہوں بہت زیادہ لیکن ہوس سے نہیں۔۔آپ کو ایسے دیکھتا جیسے چکور چاند کو۔۔۔ پوری شدت سے۔۔ اور رہا تل وہ تو اس چاند کا روشن ستارہ نا۔۔۔میری باتیں میرا لہجہ میرے الفاظ میرے اندر کے عشق کے سفیر تھے۔۔میں انہیں ساتھ لگائے انہیں سمجھاتا رہا وہ سنتی رہیں۔۔میں نے کہا پتہ ہے رانی سرکار ۔۔ میرا دل کرتا میں ساری زندگی کی بصارتوں سے بس آپ کو دیکھوں۔۔نا کرو نعیم وہ جیسے روہانسی ہوئیں۔۔ میں پہلے ہی بہت الجھی مجھےاورنا الجھاو۔۔ کبھی ایسی باتیں یہ شعر یہ چاند چکور تارے مجھے پسند تھے لیکن اب نہیں۔۔ اب وہ عمبرین کہیں کھو چکی۔۔ نا کھوئی نہیں اس نے آنکھیں بند کرلیں بس۔۔ اور مجھے آنکھیں کھولنی آپکو زندہ کرنا۔۔کیاکروگے زندہ کر کے ۔۔ میں زندہ ہوئی توپھرسے اس گھٹن کو سہ نہیں سکوں گی اور اسبار میں خود کو سمیٹ نہیں سکوں گی مر ہی جاونگی۔۔ انکا لہجہ ڈر خوف اندیشوں سےبھرا تھا۔۔نہیں اسبار آپ بکھریں گی نہیں اسبار آپکے گرد میرا حصارہو گا۔۔۔ تممم کیا چاہتے ہو آخر۔۔ وہ ہلکا زچ ہو کر بولیں۔۔میں آپکو چاہتا ہوں میں نے بےدھڑک کہہ دیا۔۔کیاکرو گے مجھے چاہ کر ۔۔تم سراب کے پیچھے وقت ضائع کر رہے ہو جاو کسی گلستان کی طرف ۔۔ایسا لگا جیسے وہ رو رہیں ہوں ۔۔میرا دل کٹنے لگا۔۔ میں نے کہا میرا گلستان میرا چمن اسی سراب میں ہے میں اسی سراب کو تلاش کروں گا ۔۔ وہ بولیں سراب صحرا میں رلا مارتا ہے ۔۔میں نے کہامیں سسی کی طرح رل لوں گا۔۔ مٹی ہو جاونگا۔۔ تم تم تم نا وہ روہانسی ہوکر زچ ہوئیں۔۔ کیوں زندگی برباد کررہے ہو ۔۔ میں کھلا ہوا پھول ہوں ۔۔ جاو کسی کلی کو ڈھونڈو اپنےلیے ۔۔ اس کے ساتھ خواب سجاو۔۔ میں نے کہا آپ کھلی نہیں مسلی گئیں ہیں آپکا اعتماد آپکی شخصیت کو توڑا گیاہے۔۔جھوٹ ہے سب۔۔ نہیں ہے ۔۔ آپ کھل تو گئی مہکی نہیں ۔۔ مجھے آپ کی مہکار واپس لانی۔۔میں جیسے رو پڑا۔۔ مجھے یہی ڈر تھا اسی لیے کہا تھا مرد عورت میں دوستی نہیں ہوتی بس طلب ہوتی ہے۔۔ بسسس میں چیخا۔۔ میرے جذبوں کی توہین نا کریں آپ۔۔ مجھے مار دیں لیکن میری نیت کو طلب سے نا جوڑیں۔۔ تم نہیں سجھو گے میں کیا کہہ رہی بس میں فون رکھ رہی۔۔مجھے تمہاری نیت پر شک نہیں لیکن یہ مناسب نہیں تباہی ہے ۔اور میں فون آج واپس باہر برآمدے میں رکھ دونگی۔۔ تم اپنے مقصد پر دھیان دو جسکے لیے گئے ۔۔ جب آو گے تو بات ہوگی انہوں نے فون کاٹ دیا۔۔ اور میں خالی ہاتھوں میں ریسور لٹکائے۔۔ میرا دل جیسے بند ہونے کو تھا۔۔ سناٹا۔۔ میری آنکھیں برسنے لگیں۔۔ بہت دیر تک میں جاگتارہا۔۔ سو تسلیاں سو وہم ۔۔امید نا امیدی ۔۔کہیں فجر کے قریب میری آنکھ لگی۔۔ سوتے میں کبھی عمبرین کو مجھے مناتے دیکھتا کبھی دور جاتے۔۔ایسی کچی پک نیند میں ہی احتیاطا لگایا الارم بول گیا۔۔۔میرا موڈ عجیب سناٹا ہو جیسے ۔۔ جیسے روبورٹ کوئی۔۔ مجھے لگا جیسے میری عزت کا سودا ہو گیا ۔۔ مجھے لگا جیسے میں واقعی بہت برا ہوس پرست۔۔ عجیب اضطراب تھا۔۔۔ کالج کیا پڑھایا گیا ککھ پتہ نہیں۔۔میرے اندر وحشت سی تھی جیسے دنیا کو آگ لگا دوں۔۔ بیلا کو میرا اندازہ تھا اس نے ایکبار پوچھا لیکن پھر چپ ہو گئی کہ ابھی میں تپا ہوا۔۔ اس شام جب ہم رننگ مشین پر تھے میری وحشت مجھے اندھا دھند بھگا رہی تھی جیسے میں پوری شدت سے جاتی ہوئی عمبرین کا پیچھا کر رہا ۔۔ انکا ہیولہ آگے آگے اور میں سپیڈو سپیڈ پیچھے۔۔آج میرا رنگ ہی اورتھا بیلا نے حیرت سے ٹائم اور کلومیٹر دیکھے اور عجیب نظروں سے مجھے دیکھا۔۔لیکن بولی کچھ نہیں۔۔۔ اسکے بعد جب میں وہاں سے نکلنے لگا تو اس نے کہا رکو۔۔ میں تمہارےساتھ جانا کام ہے۔۔میں کچھ نا بولا۔۔ہم باہر آئےتو اس نےکہا میرےساتھ چلو چپ کر کے۔۔میں نے کہا کدھر۔۔اس نےکہا تمہیں تو ہوش نہیں آج صبح سے۔۔ آج پنجاب یونیورسٹی والے مغلپورہ کینال کو لائٹنگ سے سجا رہے۔۔چل تمہیں لاہور کی بتیاں دکھاوں ۔۔ پانی میں بلب ۔۔ اسکے آگے کسکی چلی۔۔ میں چپ اسکے ساتھ۔۔ہم پنجاب کیمپس سے نہر و نہر مغلپورہ تک بتیاں دیکھتے رہے۔۔اوروہاں سے آگے برکی کی طرف مڑ گئے اب کچھ کچھ میرا مزاج بہترہو رہا تھا لیکن اندروحشت بدستور تھی۔ اور میرا دل کر رہا تھا کوئی مجھے مارے میرا سر پھاڑ دے کسی طریقہ یہ وحشت یہ سناٹا مٹے۔۔بیلا مڑ مڑکر مجھ سے باتیں کررہی تھی جب اچانک اس سے ویسپا مس بیلنس ہوا اور جب تک وہ سنبھلتی میرے بے ہنگم ڈولنے نے معاملہ خراب کر دیا۔۔ہم دونوں ویسے سے لڑھک چکے تھے۔۔ وہ ویسپا چلا رہی تھی اور اسکی ٹانگیں آزاد تھیں لیکن بد قسمتی سے میری ایک ٹانگ بھاری ویسپے کے نیچےآ چکی تھی درد کی ایک لہر۔۔میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ بیلا بچی یا کدھر گئی۔۔ بیلا ایک طرف کھڑی پھٹی پھٹی نظروں سے میری پھنسی ٹانگ کو دیکھ رہی تھی۔۔ اسکا کھلاڑی قبل از گیم ہی انجرڈ ہو چکاتھا۔۔لوگوں کی مدد سے ویسپا سیدھا کیا اور مجھے سہارا دیکر کھڑاکیا گیا بیلا بےتابی سے میری متاثرہ ٹانگ کو دیکھنےلگ گئی۔ اس نے بے تابی سےکہا چل کر دیکھو ۔۔ بلڈ تو نکلا نہیں۔۔۔ میں نے سہارے سے قدم بڑھائے درد تھی لیکن لگتا بچت ہو گئی ہڈی کی۔۔ بیلا شدید پریشان ہو چکی تھی۔۔۔ اس نے فورا ایک ٹیکسی کو روکا اور اس میں مجھے لٹا کر ٹیکسی والے سے پوچھا نزدیکی اسپتال کہاں ۔۔ ہم اس وقت لال پل کے پاس تھے ۔۔ ڈرائیور بولا جی ویسے تو شالامار اسپتال قریب لیکن اسکے لیے گھوم کے جانا پڑنا قریب ایک پرائیویٹ اسپتال ہے 

ادھر چیک کر لیں۔۔۔بیلا ویسپا پر پیچھے اور ہم آگے۔۔ لال پل کراس کر کے تھوڑا آگے ایک پرائیویٹ اسپتال تھا۔۔۔ بیلا اور ٹیکسی ڈرائیور مجھے سہارا دیے اندر لائے عجیب سناٹے والا اسپتال تھا وہی عام اسپتالوں والا ماحول زرد روشنی۔۔ رات کا وقت ۔۔ ایک آدھ مریض۔۔ بیلا مجھے بٹھا کر خود کاونٹر تک گئی۔۔ کیا ڈاکٹر نہیں ہے بس سینئر نرس ہے۔۔ ایکسرے ہو جاے گا نا۔۔ چلو اسے ہی بلاو۔۔ بیلا کی باتیں مجھے سنائی دے رہیں تھیں۔۔ جیسے جیسے چوٹ ٹھنڈی ہو رہی تھی ویسے درد بڑھ رہی تھی۔۔ بیلا میرے تکلیف دہ چہرے کو دیکھتی بس رونے والی تھی۔۔ اسپتال کے عملے کی مدد سے میں چلتا ہوا لمبےکوریڈور کے آخری کمرے میں بیڈ پر آگیا۔۔ بیلا مجھے لٹاکر اسی سینئر نرس کا پتہ کرنے بھاگی۔ اور کچھ دیر بعد جب وہ لوٹی تو ۔۔۔میں سب دردبھول کر اس نرس کو دیکھ رہا تھا۔۔ وہ رابعہ تھی وہی رابعہ کومل کی سہیلی 

 

 

Post a Comment

0 Comments