ایک لمحے کے لیے جیسے ہر طرف سناٹا چھا گیا۔۔۔کھلے دروازے میں رابعہ کھڑی تھی۔۔ انکی حیرت سے پھٹی آنکھیں مجھ پر جمی تھیں۔۔ میرا اکڑا جھاگ اڑاتا لن ۔۔ پچکاریاں مار رہا تھا اور انکی عزیز سہیلی بلکل ننگی گھوڑی بنی ساکت۔۔ دو چار سیکنڈ تک جیسے سناٹا رہا اور پھر تینوں کو ہوش آیا۔۔۔ سب سے پہلے رابعہ کے منہ سے نکلا ہاے اللہ توبہ اور وہ واپس بھاگیں۔۔ انکے جانے کے بعد میری اور کومل کی نظریں ملیں۔۔ کومل کا رنگ سفید پڑ چکا تھا وہ جلدی سے الٹے سیدھے کپڑے پہنتی باہر کو بھاگیں۔۔ more read
ساری سہاگ رات کی ایسی کی تیسی پھر چکی تھی۔۔ پتہ تو چل چکا تھا اب دوسرےروم میں جانے کا فائدہ نہیں تھا۔۔ میں وہیں رضائی میں گھس گیا۔۔ میں ہلی غنودگی میں تھا جب کچھ آدھ پونے گھنٹے کےبعد کومل واپس آئی۔۔۔ اب اسکا چہرہ نارمل تھا۔۔ انہوں نے مجھے کہا تم دوسرے کمرے جاکر سو جاو۔۔فکر نہیں کرو میں نے سیٹنگ کر لی ہے۔۔ اور میں قسمت کو کوستا ہوا ایک جوان عورت کے کمرے سے بوڑھے خراٹے لیتے انکل کے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔۔۔ اگلی صبح میری آنکھ جب کھلی تو ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔۔ میں نے ادھ کھلی کھڑکی سے باہر جھانکا۔۔سامنے ہی وہ ظالم صحن میں جھاڑو لگا رہی تھی۔۔انکا متناسب جسم ہلکورے لےرہا تھا۔۔ میں نے دن کی روشنی میں انکا جائزہ لیا۔۔۔ انکی رنگت ہلکی سانولی تھی بلکل ماریہ واسطی کی طرح۔۔۔ لیکن عمر کم تھی۔۔۔میں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر کھڑکی کو بجایا۔۔ وہ جھاڑو دیتے اچانک بدکیں ۔۔ اور پھر جھاڑو رکھ کر اندر کی طرف آکر باہر سے ہی پوچھا۔۔۔ جاگ گئے ہو۔۔میں نے کہا جی جاگ گیا ہوں اور ان سے کومل کا پوچھا۔۔ وہ کہنے لگیں وہ نائلہ کو ملنے گئ ہیں۔۔۔اور کہہ گئی جب تم اٹھو تو ادھر آ جانا۔۔وہ باہر سے ہی سب جواب دے رہیں تھیں جیسے اندر آئی تو میں انہیں چود نا دوں۔۔۔ میں نے کہا جی بہتر۔۔ اور کہا مجھے منہ ہاتھ دھونا ہے ۔۔ وہ کچھ دیر چپ رہنے کے بعد بولی باہر آ کر سامنے نل پہ دھو لو۔۔ میں چپل گھسیٹتا باہر نکلا۔۔ وہ دروازے سے تھوڑا ہٹ گئیں۔۔انکا انداز ایسے تھا جیسے وہ سہمی ہرنی اور میں ظالم شکاری۔۔ جانے کومل نے اسے کیا بتایا تھا۔۔۔ منہ ہاتھ دھو کر میں نے اجازت چاہی وہ گویا شکر ادا کیا ۔۔ شادی والے گھر آنا جانا لگا ہوا تھا۔۔ میں نے ایک بچی کے ہاتھ کومل کو پیغام دیا۔۔کچھ دیر بعد جب کومل آئی تو اب اسکا چہرہ نارمل تھا۔۔ وہ مجھے ایکطرف لیجاتے ہوئے بولی ۔۔۔ میں نے آنٹی شازیہ کو بتا دیا کہ رات ادھر محلے میں روک لیا تمہیں بہت سردی تھی اسلیے۔۔۔ اب تم رکو پھر اکھٹے چلتے ہیں واپس۔۔
کچھ دیر بعد ہم واپسی کو نکل پڑے۔۔ راستے میں کومل نے مجھے بتایا کہ تم بس چپ بے فکر رہو۔۔ میری رابعہ سے بات ہو گئی ہے پہلے تو بہت غصہ تھی لیکن پھر میری بات کو سمجھ گئی۔۔ ظاہر ہے وہ خود تین سال سے اکیلی تو میرا دکھ سمجھ گئی۔۔ میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔ میں نے انکی بات سن کر دکھی نظروں سے انکی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر بولیں۔۔ بدھو ۔۔اسےکہا ہے تم بے فکر رہو۔۔ گھر پہنچ کر میں انہیں چھوڑ کر واپس آنٹی گھر آیا اور سلام دعا کے بعد سو گیا۔۔ شام کو ولیمہ تھا۔۔سب لوگ بھاگم بھاگ تیاریاں کر رہے تھے۔۔ ولیمہ میرج ہال میں تھا۔۔۔ہر طرف خوشبو کے لپیٹے اٹھ رہے تھے۔۔۔کھانا وغیرہ کھانے کے بعد جب باہر کے مہمان نکل گئے اور گھریلو یا قریبی احباب بیٹھے تصویریں کھینچ رہے تھے۔ ولیمے کے دوران دو چار بار میری نظر رابعہ سے ٹکرائی۔۔ اس نے آج بھی سفید لباس ہی پہن رکھا تھا۔۔جب جب میری نظر ٹکرائی قدرتی طور وہ بھی میری طرف ہی دیکھ رہیں تھیں۔۔میں ایسے جانے کب تک تاکا جھانکی کرتا رہتا جب مجھے ناصر نے ابرو کے اشارے سے پاس بلایا۔۔ اور ایک طرف لیجاتے ہوئے کہا ۔۔ یار آپ سے ایک کام ہے پلیز مدد کریں نا بھائی کی۔۔ اس نے منت بھرے لہجے میں کہا۔۔اور میری رضامندی پر بولا آپ تھوڑی دیر اوپر والے واش روم تک آئیں بتاتا ہوں آپکو لیکن آنا خاموشی سے ہے۔۔اسکےجانے کےبعد میں سسپنس سے مجبور سائیڈ سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر گیا۔۔اوپر بلکل سناٹا تھا۔۔ ایک طرف واش روم کا راستہ بتایا گیا تھا۔۔ میں ادھر کو گھوما جب مجھے ناصر دکھائی دیا۔۔اور منت بھرےلہجے میں بولا ویرے ایک مدد کرو گے۔۔ وہ لڑکی دکھائی تھی نا میں نے تمہیں ۔۔ جس سےمیرا چکر چل رہاتھا۔۔میں نے کہا ہاں کیا ہوا۔۔ کہتا ویسےتو ہر طرف سکون ماحول ہے لیکن۔۔۔پھر بھی مسلہ ہو سکتا۔۔ بہن کے سسرال سے ہے۔۔ میں نے اسے اوپر بلایا ہے۔۔ ادھر دلہن ریسٹ روم میں۔۔ دو چار منٹ ۔۔۔ یار پلیز تم ایک طرف چھپ کر پہرا دو گے۔۔دو سال سے ذلیل ہو رہا آج وہ پہلی بار دو منٹ الگ ملنے کو مانی۔۔ میرا کیا جاتا تھا ویسے بھی ناصر سے بنا کر رکھنی ضروری تھی۔۔۔ میرے مان جانے پر اس نے خوشی سے میرا ماتھا چوما اور کہا آپ ایک طرف واش روم میں چھپ جاو۔۔ جب میں اسے اوپر لایا اور اندر گیاتو سیٹی ماروں گا آپ باہر نکل کر پہرا دینا بس دو منٹ۔۔۔میں واش روم چلا گیا۔۔ کچھ دیر بعد ہیل کی ٹھک ٹھک کے ساتھ انکی آپسی کھسر پھسر سنائی دی۔۔۔ اور پھر ناصر نے سیٹی ماری۔۔۔
میں واش روم سے باہر نکلا۔۔۔ ہر طرف سناٹا تھا۔۔ اچانک ایک ہلکی سی سسکی کی آواز آئی اور بس نا کی مدہم سرگوشی۔۔۔ بھلا مجھ سے بہتر سسکیوں کو کون جانتا ۔۔ میرے اندر تجسس جاگا۔۔ میں دبے قدموں دلہن ریسٹ روم کے پاس گیا اور کی ہول سے آنکھ لگائی۔۔۔ افففف مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔۔ سامنے صوفے پر وہ دونوں کسنگ کر رہے تھے۔۔ ناصر کے ہونٹ اسکے لبوں کو چوس رہے تھے۔ ناصر کا ہاتھ اسکے گریبان پر پھر رہا تھا اور وہ اسے روک بھی رہی تھی اور شہہ بھی دےرہی تھی ۔۔ اب ناصر نے ہاتھ اسکے گریبان میں گھسا کر اسکے بوبز کو مسل رہاتھا جب اچانک میرج ہال میں اناونسمنٹ ہوئی کہ وقت کافی ہو گیا براہ مہربانی ہال خالی کریں۔۔ یہ اناونسمنٹ انہیں ہوش میں لےآئی۔۔ میں فورا پیچھے ہٹا۔ اور دوبارہ واش روم میں جاکر چھپ گیا۔۔ تھوڑی دیر بعد باہر کسی کے جانے کی آواز آئی اور تھوڑی دیر تک میں بھی باہر نکل آیا۔۔۔ میں ابھی نکلنے لگا تھا کہ دلہن روم کا دروازہ پھر کھلا اور وہ فیشنی حسینہ باہر نکلی ۔۔ مجھے دیکھ کر ٹھٹھکی اور پھر سمائل دیتی نیچے اترنے لگی۔۔ میں سدا کا بدھو ۔۔ اس سے تھوڑا پیچھے چلنے لگا۔۔ سیڑھیوں سے اترتے ہوئے دو اکھٹے واقعےہوئے ۔۔ اس نے اپنی شرٹ کو تھوڑا ایڈجسٹ کیا۔۔ اسکے پیچھے دو سیڑھیاں اوپر میں کھڑا تھا۔۔ جب اچانک سامنے رابعہ خاتون برآمد ہوئیں۔۔ اس نے ہم دونوں کو اور اس فیشنی کو شرٹ ایڈجسٹ کرتے دیکھ لیا تھا۔۔ اسکی چہرے پر ایکبار پھر حیرت آمیز غصہ طاری ہوا۔۔ دیکھنے والا یہی سمجھا ہوگا کہ اوپر ہم دونوں تھے ۔۔ وہ تو ٹھک ٹھک کرتی نکل گئی لیکن جیسے ہی میں رابعہ کے پاس سے گزرنے لگا وہ بولی شکل سےتو معصوم لگتے ہو پر کام سارے آوارہ والے ۔۔۔ حد ہے بھئی۔۔۔ میں کھسیا کر چپ آگے بڑھ گیا
اگلےدن سے پھر وہی روٹین شروع ہو گئی۔۔۔ کالج جانا ۔۔ واپسی پر عمبرین کے ساتھ پڑھنا۔۔ آہستہ آہستہ عمبرین کے ساتھ میرا دوستانہ بڑھ رہاتھا۔۔ آنٹی شازیہ اور کومل کو چودنے کے باوجود بھی جانے کیوں عمبرین کے لیے میرے دل میں ہوس کی جگہ الفت ہی جاگتی تھی۔۔۔ ہاں میں انکو چھونا بھی چاہتا تھا لیکن ایسے نہیں۔۔ بلکہ محبت سے ضرورت سے نہیں۔۔۔ایک دن میں کالج گیا تو سامنے ہی بیلا گروپ کھڑا تھا ان سے دو اہم خبروں کا پتہ چلا پہلی کہ کالج میں جشن بہاراں مناے جانے کا شیڈول اناونس ہوا ہے۔۔۔سب طلبا بہت خوش نظر آ رہے تھے۔۔میرے اندر اس وقت دو طرح کی کیفیات ہوا کرتیں تھیں۔۔۔پہلا اپنی ایج کے مطابق پڑھائی کھیل کود مستی۔۔ دوسرا آنٹی شازیہ کی مہربانی سے جسمانی نشہ۔۔۔۔ اور دوسری خبر کے مرحوم ایڈمن کی جگہ نئی ایڈمن آفیسر ٹرانسفر ہوکر آئیں ہیں ۔۔رفعت میڈم ۔۔
بیلا نے مجھ سے پوچھا کہ تم کس گیم میں حصہ لو گے۔۔میں نے اس سےپوچھا کون کون سی گیمز ہو رہی ہیں۔۔اس نے بتایا چاٹی ریس لڑکیوں کی۔۔ دو سو میٹر ریس لڑکوں کی ۔۔ لانگ جمپ ۔۔سوئمنگ وغیرہ۔۔۔ میں نے اس سے پوچھا تم کون سی گیم میں حصہ لے رہی ہو۔۔ وہ بولی ٹینس میں اور تم میں نےکہا میں پینڈو بندہ۔۔نہروں میں کودتا پگڈنڈیوں پر دوڑتا میں کس میں حصہ لوں گا۔۔ وہ مسکرا کر بولیں۔۔ واقعی پینڈو ہو تم سوئمنگ میں حصہ لے سکتے ہو۔۔ رننگ کر سکتے ہو ۔۔ بلکہ دونوں میں حصہ لو
میں نے ایکبار تو بات آئی گئی کر دی لیکن میری اس آئی گئی کا ستیاناس سینڈ پیریڈ میں ہوا۔۔ سیکنڈ پیریڈ میں باہر گیلری میں ہلچل مچی ۔ پہلے پرنسپل صاحب داخل ہوئے ساری کلاس کھڑی ہوئی۔۔ انکے پیچھے ہمارے بلاک کے انچارج اور انکے پیچھے ایک چالیس کے آس پاس کی گریس فل آنٹی داخل ہوئیں۔۔۔انہیں دیکھتے ہی مجھے جھٹکا لگا۔۔ ابے یہ انڈسٹری سے ہمارےکالج کب آئی۔۔ اس خاتون کی شکل پرانی اداکارہ سلمی آغا سے کافی ملتی تھی۔۔ بلکل اسی کی طرح ٹھوڑی میں تل میری آنکھیں جم ہی گئیں لیکن سب کے السلام و علیکم سر کی آواز سے میں چونکا اور جلدی سے نظر بدلی اور سیریس ہوا۔۔سر نے سلام کے جواب کے بعد پہلے مرحوم ایڈمن کا اچھے الفاظ میں ذکر کرنے کے بعد میڈم رفعت کا تعارف کروایا ۔۔ ساتھ ہی اناونس کیا کہ کمنگ سپورٹس کمپیٹیشن کو یہی لیڈ
کریں گی۔۔اسکے بعد میڈم رفعت نے اپنا تعارف کروایا ۔۔
اور سیکنڈ ہاف میں سپورٹس والے سٹوڈنٹس کو ایڈمن آفس طلب کر لیا۔۔۔ پیریڈ کے بعد اسبار میں نے ازخود بیلا کو بلایا اور کہا یار تم سہی کہ رہی تھی۔۔جتنے غوطے میں نے نہروں میں کھائے ہیں کیا بتاوں ۔۔ اور رننگ تو میں سوپر ہوں۔۔ پورا پنڈ جانتا کہ گاوں کی پگڈنڈیوں پر میں کیسے اندھا دھند بھاگا کرتا تھا۔۔ یوں ہم نے ڈن کیا۔۔اور سیکنڈ ہاف انکے دفتر چلے گئے۔۔ ہمارے علاوہ بھی۔مختلف شعبوں کے طلبا و طالبات موجود تھے۔۔ وہاں جا کر مجھے احساس ہوا کہ بیلا عجیب چیونگم سی لڑکی ہے۔۔ ہر ایک کے ساتھ چپک چپک کر اور جب یہی بات میں نے اسے کہی تو وہ بولی اسے مینرز کہتے ہیں ۔۔ تعلقات بڑھانا کہتے ہیں باری باری ہر کلاس کے طلبا جاتے۔ کچھ دیربعد ہماری کلاس یعنی میں اور بیلا کو بھی میڈم رفعت کا بلاوا آ گیا۔۔ جب ہم اندر گئے تو میڈم سامنے کرسی پر بیٹھی کوئی فولڈر دیکھ رہیں تھیں۔۔ ہمیں ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنےکا بولا اور بیلا سے مخاطب ہوئیں میں تمہارا فولڈر دیکھ رہی تھی۔۔ کافی اچھا ٹینس کھیل لیتی ہو تم۔۔صوبائی سطح تک مقابلے کھیلے تم نے۔ جی میری ماما کو شوق تھا تو انکی وجہ سے۔۔ پھرمیری بڑی بہن بھی کھیلتی رہیں ہیں کافی مشہور تھیں۔۔ شکیلہ حمید شائد آپ نے نام سنا ہو۔۔ اوہ تو تم نبیلہ حمید ۔۔شکیلہ حمید کی بہن ہو انہوں نے چونک کر کہا۔۔میں چپ انکی باتیں سن رہاتھا۔۔آپ جانتی ہیں نبیلہ حمید عرف بیلا نے مسرت سےکہا۔۔ ہاں پہلے ایک دو مقابلوں میں ملاقات ہوئی۔۔ پھر ایک سپورٹس ٹرپ پر کافی دن اکھٹے رہے کافی دوستانہ ہو گیا پھر ایجوکیشن کے بعدوہ گم ہی ہو گئی۔۔ اب کیسی ہے وہ کہاں ہوتی ہے۔۔آپی کی شادی ہو گئی سٹڈی کے فورا بعد ہی وہ یو کے ہوتی ہیں۔۔ میں ان سے ذکر کرونگی۔۔۔ اسکےبعد بیلا چیونگم تو جیسے ان سے چپک ہی گئی آپی کی باتاں اور قصے بہت دیر بعد میں نے بیلا کو ہلکے سے کہنی ماری ۔۔ اور اسے یاد آیا کہ ہم کالج ہیں۔۔بیلا نے ہی میرا فارم بھرا اور ہم باہر نکل آئے ۔۔ باہر نکلتے ساتھ ہی میں نے اسے کہا واہ یار تم تو پوری فیملی سپورٹس والے ہو۔۔ وہ اترا کر بولی ہاں تو۔۔۔
گھر آ کر میں نے آنٹی اور عمبرین کو بتایا تو دونوں کا ری ایکشن مختلف تھا۔۔آنٹی نے بولا لو عجیب کالج ہے ۔ چار دن پڑھایا اور اب کھیل شروع ہو گیا۔۔ تم دفع کرو بس پڑھو بکروں کی طرح کیا بھاگو گے۔۔ عمبرین اس وقت تو کچھ نا بولیں لیکن جب شام کو ہم الگ بیٹھے تو وہ بولیں۔۔ پتہ نعیم تم دو جماعتیں مجھ سے زیادہ پڑھے سہی لیکن میں نے زندگی کو زیادہ پڑھا تم سے۔۔پڑھائی ضروری ہے لیکن ساتھ تفریح بھی ضروری ہے۔۔بعد میں زندگی کے ہزار جھمیلے۔۔ انکے چہرے پر بلا اداسی طاری تھی۔۔۔پتہ جب میں اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی نا وہ زندگی تھی ۔۔ مستی کی خوشی کی۔۔ اب وہ بات کہاں۔۔ کبھی کبھی مجھے لگتا جیسے انکے اندر کوئی بڑا راز چھپا ہے ۔۔ اک اداسی جو انکی آنکھوں میں ٹھہر چکی تھی۔۔ میں نے کہا گھر سے یاد آیا۔۔ آپکے اس گھر میں اب کون ہوتا ہے۔۔وہ بولیں کوئی نہیں بند ہے۔۔ کبھی دکھاوں گی تمہیں۔۔۔ میں نے کہاناں بابا ۔۔ بند گھروں میں بھوت ہوتے ہیں وہ چمٹ جاتے۔۔ وہ کھلکھلا کر ہنسیں اور بولیں اصلی بدھو ہو تم۔۔۔ جب وہ ہنستیں تو انکے ماتھے پر ایک رگ ابھر آتی افففف انکا ہرہر انداز جدا اور نرالا تھا۔۔انکی ہنسی کی آواز سن کر آنٹی بولیں شکر ہے تم ہنسی ہو ۔۔ کان ترس گئے تھے تیری ہنسی کو سنے۔۔ عمبرین تھوڑا جھجک کر بولیں وہ یہ نعیم ایک لطیفہ سنایا تو بے ساختہ ہنس پڑی۔۔ ہاے میں قربان جاو تو بچےہنسا کر نا۔۔ شکر ہے کچھ رونق لگی۔۔۔ اسوقت خالہ کے اندر بھانجی کا پیار فل زوروں پر تھا
جیسے دریااپنا رخ بدلتا ہے ایسے ہی دو لوگ میری زندگی میں شامل ہورہے تھے۔۔ عمبرین ۔۔ جن کو سمجھیں میں دن بھر کی رپورٹ دیتا تھا۔۔ ان کو ہنساتا سنتا اور بس دل کرتا وہ یونہی مسکراتی رہیں۔۔ دوسری بیلا۔۔۔ بیلا میری صرف دوست تھی ۔۔ ایک ایسی دوست جو آپکا ہر کام منٹوں میں کروا سکتی تھی۔۔ اسکی سلام دعا تقریبا سب ٹیچرز سے تھی ۔ہم کلاس میٹ بھی تھے آہستہ آہستہ ہماری اچھی بے تکلفی ہوتی گئی۔۔اکثر وہ مجھے پینڈو پروڈکشن دیسی ککڑ کہتی اورمیں اسے کڑی منڈا۔۔ اسکا حلیہ ہی ایسا ہوتا تھا جیسا پہلے بتا چکا انڈین مووی کچھ کچھ ہوتا ہے کی کاجول جیسا۔۔۔ لڑکوں والا سٹائل ۔۔
اسکا تعلق ایک انتہائی ایک پڑھی لکھی سپورٹس فیملی سےتھا۔اسکے والد سپورٹس میں صوبائی سطح کے مینجر تھے۔۔ سکولز کالجز کی ساری ٹیمیں صوبائی سطح پر وہی دیکھتے تھے۔۔ اقبال ٹاون میں انکا گھر تھا۔۔ یہ جمعے کی بات ہے کالج میں ہاف ڈے تھا۔۔۔ میں اور بیلا کلاس سے نکل کر گھروں کو جانے کی تیاریوں میں تھے۔۔ جب سامنے سے میڈم رفعت آتی نظر آئیں۔۔ اور ہمارےپاس رک گئیں۔۔ اور بیلا سے مخاطب ہو کر بولیں تم جاتے وقت مجھ سے ملتے جانا۔۔۔ہم تو بس جا رہے تھے میں کھسکنے لگا جب بیلا نے مجھے گھسیٹا اور کہا ساتھ مرو میرے۔۔ اور میں مجبورا اسکےساتھ ایڈمن بلاک کی طرف چل دیا۔۔۔میڈم نے جب مجھے بھی اسکے ساتھ دیکھا تو سوالیہ نظروں سے بیلا کی طرف دیکھا۔۔ بیلا کے بولنے سے پہلے ہی میں بےساختگی اور سادگی سے بولا جی میں نبیلہ کی نون کے ساتھ نون غنہ ہوں۔۔ جدھر بیلا ادھر ہم ۔۔ وہ میری مثال اور سادگی سے کھلکھلا کر ہنسیں اور میرے بارے پوچھنے لگیں اور بیلا انہیں بتانے لگی کہ یہ نعیم ہے میرا کلاس میٹ اور بیسٹ دوست۔۔۔ بھی۔۔ گاوں سے ہے سادہ ہے لیکن مخلص ہے ۔۔ میڈم نے مجھے سمائل دی۔۔ اور کہا واہ ۔۔ اور پھر سپورٹس شیڈول سے آگاہ کرنے لگیں۔۔۔ کالج سے جب میں واپس آیا تو آنٹی شائد ابھی ابھی نہا کر نکلیں تھیں۔۔ اور سردی سے کانپ رہی تھیں ۔۔ میں نے ہنس کر کہا اتنی سردی لگتی تو نہائی کیوں ۔۔ وہ ادھر ادھر دیکھ کر بولیں ۔۔ آج ساتواں دن تھا نا پیریڈز کا اور کل کلاس بھی لینی تو صاف نہائی میں بلکل چکنی ۔۔ اور میرا دل جیسے دھڑک اٹھا۔
انہوں نےمیری طرف مسکراتی نظروں سے دیکھا اور انکی اگلی حرکت نے جیسے میرے اندر ابھی سےآگ لگا دی۔۔انہوں نے اپنی شلوار کو تھوڑا سا اوپر سرکایا۔۔ اففف انکی گوری چٹی ٹانگ جیسے چمک رہی انہوں نے اپنے ہاتھ کو اپنی ٹانگ پر پھیرتے ہوئے کہا دیکھو کیسے چکنی ہو رہی نا۔۔۔ تمہارے لیے سپیشل باڈی لوشن لگایا ہے میں نے۔۔۔ بلکل صابن کی طرح پھسلتے جاو گے جب آو گے ۔۔۔ اور میرا موڈ تو ابھی ہی بن چکا تھا۔۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر ٹانگ کو چھونا چاہا تو انہوں نے جلدی سے شلوار کو نیچے کیا اور ٹانگوں کو سمیٹ لیا اور بولیں نو نو۔۔۔کلاس کل ہی لگنی ویری سپیشل کلاس۔۔سمجھو امتحان سے پہلے کی سوپر کلاس۔۔ اکھاڑے میں اتارنے سےپہلے کےآخری داو سکھانے تمہیں۔۔اور میرا دل جیسے ابھی سے فل وحشی ہو رہا تھا۔۔۔اس سے پہلے کہ معاملات اور خراب ہوتے آنٹی کے موبائل کی بیل بجی اور وہ ادھر بزی ہوئیں۔۔ میں کچھ دیر بیٹھا رہا۔۔ انکی ہنسی اور باتوں سے لگتا تھا کہ دوسری طرف کوئی انکی گہری دوست۔میں وہاں سے اٹھ کر اوپر اپنے کمرے میں آگیا۔۔ لیکن جسم میں ہلکا سرور ابھی سے لہریں لینے لگا۔
اس شام میرے اندر عجیب سی ترنگ تھی۔۔ جیسے اس ایج کے لڑکوں میں ممکنہ سیکس کا سوچ کر ہوتی ہے۔۔میں گنگناتا ہوا نیچے اترا۔۔ سامنے عمبرین خلاف توقع کتابوں کی بجاے کوئی کھانا پکانے والا میگزین دیکھ رہیں تھیں اور آنٹی سے کچھ ذکر کر رہیں تھیں۔۔ میں نے مصنوعی گھرک سے کہا۔۔ یہ سٹڈی کا وقت ہے اور آپ کیا کر رہی۔۔ انہوں نے شرارتی انداز میں جواب دیا تو پڑھ ہی رہی ہوں آپ بے شک سبق سن لینا استاد جی ۔۔ میں کھکلا کر ہنسا اور کہا مجھے بدھو کہتی ہو اور خود جواب بدھ والا دیا۔۔ کچن کا سبق سنا نہیں چکھا جاتا۔۔۔ ہوم اکنامکس کا ٹسٹ لیا جاتا ہے۔۔
وہ منہ بنا کر بولیں جی نہیں۔۔ آنٹی شازیہ نےلقمہ دیا کہ بات تو نعیم صحیح کر رہا ہے ۔۔ میں نے کہا یس۔۔ اور کل آپ مچھلی یا پائے بنا کر کھلائیں بہت سردی
یہ کہتے ہوئے کچھ دیر میں باہر مٹر گشت کرتا رہا۔۔ واپسی پر مونگ پھلی لی آج موڈ تھوڑا مستانہ سا تھا۔۔ رات کے کھانے کے بعد۔۔ ہم تینوں آنٹی کے روم میں ہی بیٹھے مونگ پھلیاں کھاتے رہے۔۔ اگلی صبح ۔۔ جب میں کالج گیا تو ویک اینڈ تھا۔۔ویک اینڈ اور ویک اینڈ نائٹ ۔۔ جسکا مجھے انتظار تھا۔۔ بریک ٹائم میں بیلا نے مجھے بلایا اور کہا سنو تم آج سیکنڈ ٹائم کچھ وقت نکال سکو تو آج میڈم رفعت کو چائے پر بلایا ہے میں نے۔۔ تم بھی چاہو تو آ سکتے ہو۔۔ مری دوست تھی چاہو کا مطلب سمجھ سکتا تھا کہ تمہیں لازمی آنا ہے ۔۔ سمجھا کرو ایڈمن انچارج ہیں۔۔سو کام پڑ سکتے ساتھ ہی انہوں نے وجہ بتائی۔۔ اسی بہانے تمہیں میں اپنا سپورٹس ایریا بھی دکھاونگی۔۔ جہاں ٹینس کورٹ بھی ہے ایکسرسائز ہال بھی۔اسی سےپتہ چلا کہ وہ اور میں میڈم رفعت کےساتھ ہی انکے گھر جائیں گے میں نے کہا نا بھئی بہت بے مروت خاتون ہیں مجھ سے ایسے نہیں جایا جاتا ۔۔ تم جاو میں باہر کھڑا ہوں گا پلیز۔۔ اوکے اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔۔میڈم کا گھر کالج کی بیک سائیڈ پر کالج ایریامیں ہی تھا۔۔۔جیسے عموما کالج کے اندر سٹاف کی کالونی ہوتی ویسے۔۔وہ مخصوص ماحول درختوں میں گھرا ایک چھوٹا سا کاٹیج جسکے باہر بیل کی باڑ تھی ۔۔ میں اس باڑ کے پاس نکڑ پر کھڑا ہو گیا اور بیلا چیونگم چباتی آگے بڑھ گئی۔۔ سامنے کالج کی عمارت نظر آ رہی تھی۔۔ ایک طرف ہاسٹل ایریا تھا وہ ہاسٹل جہاں مجھے رہنے کی اجازت اماں کی وجہ سے نا ملی ۔۔ اور مجھے بہت شدت سے اماں یاد آنے لگ گئیں۔۔۔ کتنا آوارہ اور فضول ہوگیا تھا میں ۔۔ جب سے اماں گئیں میں نے فون تک نہیں کیا۔۔ بس کل چھٹی ہے آرام سے بات کرونگا میں انہیں خیالوں میں گم تھا کہ اچانک مجھے آواز آئی مسٹر غنے ۔۔ آج ن کے ساتھ آئے نہیں ۔میں نے پلٹ کر دیکھا تو جیسے جم کر رہ گیا ۔۔ سامنے ہی میڈم مونگیا کلرکے سادہ لیکن معیاری سوٹ پہنے اس حال میں باہر نکلیں کہ وہ بال بناتے ہوئے نکلیں ہو جیسے ۔۔بےساختگی میں آ گئیں ہوں۔۔ میں چپ کر کے اندر گیا تو بیلا سامنے صوفے پر آلتی پالتی مارے بیٹھی پاپ کارن کھا رہی تھی۔۔ میں ابھی تک گم صم تھا۔۔ کہیں پڑھا تھا ساحرہ ہوتیں بنگال کی عورتیں۔۔ سانولے چہرے سیاہ بالوں اور بڑی بڑی آنکھوں والی ۔۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ انکی شکل اداکارہ و گلوکارہ سلمی آغا سے بہت ملتی تھی۔اور عمر چاہے انکی جو بھی تھی وہ سلمی آغا کی طرح ہر ایج میں طرحدار تھیں ۔۔۔۔ اف وہ کچھ سینکڈز۔۔ کمال گریس تھی انکی۔۔چھوٹا سا کاٹیج ۔۔ دروازے کے فورا بعد ایک ہال سا جہاں ایک سادہ صوفہ سیٹ۔ ایک سائیڈ پر بکس ریک۔ آگے دو کمرے ایک طرف کچن وغیرہ۔۔ تھوڑی دیر بعد میڈم باہر نکلیں اور کہا سوری میں تھوڑا چینج کرنے میں وقت لگا دیا۔۔اور نعیم آپ ۔۔ آپکو شائد برا لگا۔۔ آپ میرے شاگردہیں ۔۔ استادوں کے ایسے الفاظ کو دل پر نہیں لیتے ۔۔ ویسے تمہیں میں غنہ بولا برا تو نہیں لگا وہ انتہائی مہذب انداز میں بات کر رہی تھیں۔۔ میں کچھ بولنے ای لگا تھا کہ بیلہ بیچ میں بولی ارے نہیں میڈم یہ تو نرا بدھو ہے ویسے آپ نے اسے سہی نام سے بلایا غنہ ۔۔ نعیم غنہ واہ کی نام بن گیا بیلا نے مجھے چڑاتے ہوئے کہا۔۔۔پھروہاں سے ہم میڈم کے ساتھ نکل پڑے ۔۔ کار میں بیلا اور میڈم اگلی سیٹوں پر بیٹھ گئیں اور میں پچھلی سیٹ پر ۔۔ وہ دونوں آپسی باتیں کرتی اور میں باہر لہور کی رونق دیکھتا رہا۔۔بیلا کا گھر گلبرگ میں تھا ۔۔ گلبرگ تھری فردوس مارکیٹ کے ساتھ گر میں بیلا اسکی ماما پاپا چھوٹے بھائی سب سے ملاقات ہوئی۔۔ وہیں مجھے پتہ چلا کہ میڈم رفعت کاتعلق چکوال سے تھا۔۔اچھی فیملی سے تعلق تھا زمیندار گھرانہ تھا۔۔ انکی شادی فیملی میں ہی کزن سے ہوئی ۔۔ انکی شروع سے ہی اتنی بنی نہیں آپس میں ۔۔ وہ زیادہ تر کالج میں ہی رہتیں ۔۔ دو چارمہینوں بعد کبھی آبائی گاوں کا چکر لگا لیتیں۔ بیلا کی بڑی بہن سے فون پر بات ہوئی۔۔ چائے کافی پرتکلف تھی۔۔ چائے کیا تھی پوری پارٹی تھی۔۔۔ سچی بات میں تو بس چپ ہی رہا۔۔ اندر سے پینڈو تھا نا۔۔سادہ ۔۔ اتنے پڑھے لکھے لوگوں اور ماحول میں مجھ سے بات ہی نا ہوئی۔۔ آنٹی شازیہ کومل عمبرین لوگ ہمارے جیسے تھے جنکی بنیاد گاوں سے تھی میرے ہاں تو یہ بھی عجیب تھا کہ بیلا کے والدین میری اور اسکی دوستی کو نارمل انداز میں لیے۔۔بے شک ہم صرف دوست ہی تھے لیکن پھر بھی۔۔ سب ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔۔چائے کے بعد بیلا نے ہمیں اپنا گھر دکھایا۔سارا گھر ہی شہری انداز میں بہترین انداز سے بنا اور سجا تھا۔۔ لیکن گھر کی بیسمنٹ میں سپورٹس روم دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔ بیسمنٹ پورے گھر کے نیچے تھی۔۔ایک طرف بیڈ منٹن کورٹ بنا تھا۔۔سامنے بڑی الماری میں مختلف شیلڈز اور ٹرافیاں پڑی تھیں۔۔ایک کارنر میں چھوٹا سا ایکسرسائز کارنر تھا۔۔ جہاں کچھ ایکسرسائز مشینز اور رننگ مشین پڑی تھی۔۔بیڈ منٹن کورٹ کو دیکھ کر میڈم بولیں میری اور شکیلہ کی دوستی اسی کریز کی وجہ سے ہی ہوئی مجھے بھی بہت شوق تھا کبھی بیڈمنٹن کھیلنے کا۔۔ یہ سن کر بیلا بولی ہو جائے پھر ایک گیم ۔۔ ارے نہیں اس وقت نہیں پھر سہی ابھی میں کافی دیر سے نہیں کھیلی ۔۔ لیکن بیلا اور اسکی ماما کے پر زور اصرار پر میڈم مان گئیں ۔۔ اب ان سب سپورٹس کی کریزی لوگوں میں ۔۔ واحد میں تھا جو بس وقت گزاری کے لیے کھیلتے تھے لیکن یہ سب پروفیشنل اور فکری لحاظ سے سپورٹس والے تھے۔۔ تھوڑی دیر بعد میدان سج گیا۔۔ بیلا تو خیر ہر وقت رہتی ہی عجیب حلیہ میں تھی اس نے وہیں سے پی کیپ کے نیچے شولڈر کٹ بالوں کو سمیٹا اور ریکٹ گھماتی کورٹ میں۔۔ وہیں بیلا کے پاپا اپنی بیٹی کے اور ماما میڈم کی سپورٹر بن کر انہیں جوش دلانے لگے۔۔ میں ہونق کھڑا۔۔ میں نے سادگی سے کہامیں کیا کروں ۔۔ بیلا نے زبان نکالتے ہوے کہا تم شٹل کے ساتھ گردن گھماتے اسے آتے جاتے دیکھو ۔۔ سب ہنس پڑے ۔میرا دل کیا جا کر اک لگاوں اسے لیکن یہ اسوقت ناممکن تھا۔۔۔میڈم تو عام ڈریس میں تھیں دوپٹہ لیے ہلکے بال کھولے ۔۔ انہیں ادھر ادھر موومنٹ کے لیے مسلہ تھا۔۔
میں شٹل کی طرف کیا دیکھتا ۔۔ مجھے دو چیزوں نے متوجہ کیا۔۔گیم کھیلتے بیلا کے اچھلنے سے کہ اسکے چھوٹے سہی لیکن بوبز ہیں سہی ورنہ پہلے بوائے ڈریسنگ اور سردیوں میں جرسی جیکٹ سے خاک پتہ چلا آج تک۔۔۔ چھوٹے سنگترے جتنے ۔۔ کچھ بتیس کے آس پاس شائد۔۔ ادھر سے نظر گھما کر جو میں میڈم کی طرف دیکھا تو مجھے زور سے لگا جھٹکا۔۔ بھاگ دوڑ سے انکے بال کھل چکے تھے اوردوپٹہ عذاب بنا ہوا تھا۔۔ میچ جوبن پر پہنچ چکا تھا۔۔ بیلا بہت آگے کجا رہی تھی اور میڈم چادر کپڑے سبھالتی بہت پیچھے جیسے آپ نے اکثر باراتوں میں لہنگا سنبھالتی عورتیں ہمیشہ اینڈ میں دیکھی ہونگی۔۔پہلا ہاف بیلا جیت گئی۔۔دوسرے ہاف میں میڈم مکمل انتقامی کاروائی کے ارادے میں نظر آئیں۔۔ انہوں نے باقی سب کے لیے عام طریقہ لیکن میرے لیے قاتلانہ انداز اپنا لیا۔۔ انہوں نے اسبار دوپٹے کو کمر کے گرد باندھ لیا تھا اور بالوں کو گھما کر سر پر اور اسے سارف سے کور کر لیا تھا۔۔ باقی سب تو انکی گیم میں گم تھے اورمیں جیسے میڈم رفعت کے بدن کے لوچ میں ۔۔ کیا کمال ہی فگر تھا انکا۔ ایج بھی پینتیس سے اوپر تھی اور میریڈ بھی انکا سینہ کمال تھا ۔۔اور اس پر انکی اچھل کود۔۔ انکی ہر ہر اچھل پر میرے لن نے سر اٹھایا اور میں اسے ٹانگوں میں دبائے منتیں کرتا رہا۔۔ کون کیساکھیلا پتہ نہیں لیکن ہوش شور سے آیا جس سے پتہ چلا سیکنڈ ہاف میذم اچھا کھیلیں لیکن پہلے ہاف کی لاپرواہی سے بیا جیت گئی۔۔ ہم سب واپس آئے تو شام کاپھیلتا اندھیرا میرا منہ چڑھا رہا تھا۔۔ بیسمنٹ میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا ۔۔ اوہ بہت دیر ہو گئی۔مجھے جانا بھی کافی دور ہے ۔۔ میں نے اجازت چاہی تو بیلا بولی ہاں واقعی یہ غلطی ہو گئی۔۔ ٹھیک ہے تم جاو ۔۔ کیسے جاو گے میں بولا ظاہر ہے رکشہ سے۔۔ یہ سن کر میڈم بولیں میں بھی نکلتی ہوں میرے ساتھ چلو تمہیں سٹاپ تک آسانی ہوگی ۔۔ بیلا اور اسکے والدین نے بہت کہاکہ ڈنر کر لیں لیکن میڈم بولیں نہیں ۔۔ شام کے بعد فی میل سٹاف کو واپس کالونی لازمی جانا ہوتا ہے ۔۔ اور ہم باہر نکل آئے ۔۔میڈم نےگاڑی سٹارٹ کی اور میں اس سوچ میں کہ کہاں بیٹھوں۔آگے انکے ساتھ بیٹھنا مناسب نہیں تھا۔۔میں پچھلی سیٹ پر جاکر انکی سیٹ کے بلکل عقب میں بیٹھ گیا۔۔ وہاں سے تھوڑا آگے نکل کر میڈم بولیں تم نے س طرف جانا ہے اور جب میں نے بتایا تو وہ بولیں تو ایسا کرتے ہیں تم میرے ساتھ کالج تک چلو ۔ کالج چوک تک راستہ ایک ہی وہاں سے آگے چلے جانا۔۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا۔۔ مین سڑک پر میڈم بولیں تم لاہور کے تو نہیں لگتے میں نے کہا جی میں لاہورسے باہر سےہوں اور انہیں بتایا کہ میرا کونسا گاوں۔۔وہ بولے تبھی اتنے سادہ ہو پینڈو ہو نا۔۔ مجھے تھوڑا برا لگا اور بولا پینڈو ہونا گناہ تو نہیں نا میڈم بس سادہ ہوتے ہیں۔۔ میڈم فورا بولیں ارے نہیں نعیم تم برا مان گئے ۔ تمہاری سادگی ہی تمہارا کمال ہے۔۔ تم بولتے بہت کم ہو شرمیلے بھی ہو۔۔اب جب باتیں شروع ہوئیں تو میں تھوڑا آگے ہو گیا اور آہستہ آہستہ فرنٹ کی دو سیٹوں کے دمیانی گیپ کے سامنے پچھلی سیٹ کے درمیان میں ۔۔ سردیوں کا مہینہ تھا کار کے شیشے مکمل بند تھے ۔۔ اور میڈم بیڈمنٹن گیم لگا کر فورا واپسی نکل آئیں۔۔ انکے لگائے پرفیوم اور انکے پسینے کی اور اس بالوں کی مہک افففف میں جو ان سے فٹ بھر کے فاصلے پر تھا پاگل ہو رہا تھا۔۔ باہر شام کے اندھیرے پھیل چکے تھے اندر رات کی رانی ۔۔ بنگالی ساحرہ کی خوشبو کار میں پھیل چکی تھی ۔۔ وہ جانے کیا پوچھتی کیا بولتی رہیں میں تو بس اس خوشبو اس باہر سے آتی جھلمل روشنیوں سے آتی ہلکی روشنی ہلکے اندھیرے میں مکمل مدہوش سا تھا۔۔۔مانا کہ میرا اس سے پہلے دو لیڈیز سے سیکس ریلیشن رہا تھا لیکن ایسی خوشبو میں ادھر محسوس نہیں کی ۔۔مجھے ہوش تب آئی جب میڈم نے اچانک بریک لگائی اور میں جو جانے کہاں مست تھا ایک جھونک میں درمیانی گیپ سے آگے کو انکے شولڈر تک گیا۔۔ جیسے ہی میرا چہرہ انکے شولڈر سے ٹکرایا اور انکے بالوں کا لمس اور خوشبو میرے چہرے سے ٹکرائی مجھے ہزار واٹ کا جھٹکا لگا۔۔ اوہو کدھر گم تھے بیوقوف شکر کرو بچ گئے اس موسم میں سیٹ سے ناک ٹکراتا تو لگ سمجھ جاتی۔۔ انہیں کیا خبر تھی ادھر کیا سوچ تھی۔۔ کالج چوک آ چکا تھا میں کھویا کھویا اترا اور وہ باے کرتی آگے نکل گئیں۔۔۔وہاں سے رکشہ میں گھر جانےتک میں اسی خوشبو اسی ہلکے اندھیرے میں گم رہا۔۔اسی گم حالت میں جب میں گھر پہنچا توآگے آنٹی میرا ہی انتظار کر رہی تھیں۔۔ انہوں نے سہی سے مجھے لتاڑا کہ وقت دیکھو لفنٹر ۔۔ میں نے فوری بہانہ گھڑا کہ سپورٹس کی ٹرائی تھی لیٹ ہوگیا۔۔ میرے اندر جو مستی چھائی ہوئی تھی آنٹی کو دیکھ کر اور بھڑک اٹھی ۔۔۔ میں اوپر جانے لگا تو آنٹی نے مجھے کہا اب کدھر جا رہے ۔۔ عمبرین کا نہیں پوچھا ۔۔ میں نے کہا ہوںگی یہیں کیوں کیا ہوا۔۔تب وہ تپ کر بولیں واہ بھئی واہ۔۔ کل مچھلی کا بولا تھا وہ بےچاری شام کے چائے کے ساتھ بنا کر اتنا انتظار کیا ۔۔ تب مجھے یاد آیا اور میں شرمندگی سے بولا تو اب۔۔ وہ بولیں کمرے میں ہے جا کر منا لو اسے جلدی سے۔۔اور وقت سے ہی آ جانا کلاس کےلیے۔۔ مجھے پیریڈز کے بعد خوب گرمی چڑھی ہوئی۔۔ میں ان کی بات پہ انہیں آنکھ مارتا عمبرین کے کمرے کےدروازے پر گیا اور ناک کر کے اندر گیا۔۔وہ سامنے ہی منہ سجائے بیٹھی تھیں۔۔انکا حق بنتا تھا۔۔ اور اس حلیے میں وہ بہت سادہ اور بہت معصوم سی لگ رہیں تھیں۔۔ انہیں دیکھ کر ایسے لگتا جیسے کوئی تیز دھوپ سے گھنے شجر تلے آ گیا ہو۔۔کافی منت سماجت کے بعد وہ راضی ہوئیں۔۔ واقعی مچھلی بہت کمال کی تھی۔۔ میری بہت ساری تعریفوں پر وہ بہت بلش اور بہت خوش ہوئیں۔۔ آپستہ آہستہ ہمارے درمیان ایک خاموش سا تعلق پروان چڑھ رہا تھا جسکا اس وقت تک کوئی نام نا تھا۔۔۔ جیسے لگاو سا۔۔۔مچھلی کھانےکے بعد آنٹی شازیہ جب باہر گئیں تو عمبرین بولی کہ تعریف تو ہوئی مچھلی کی اور جو دیر کی اسکی سزا۔۔میں نے بولاہر سزا منظور ۔۔ وہ بولیں آج نائلہ آئی ہوئی ہے میرا جانےکو بہت دل ہے لیکن خالہ کا مسلہ ۔۔
پھر جانے وہ کب آئے تم بھی خالہ کو کہنا۔۔ میں نے وعدہ کر لیا اور پھر آنٹی کو الگ بلا کر ان سے اس طرح کہا کہ آج کمال موسم موڈ اور ڈھیر ساری مچھلی کا اثر۔۔۔ عمبرین کو اجازت دیں ۔۔ اکیلے گھر میں مزہ کرتے۔۔ اور یوں آنٹی نے ناصرف اسے جانے کی اجازت بلکہ رات رکنے کی اجازت بھی دے دی۔۔کچھ دیر بعد میں عمبرین کو چھوڑنے جا رہا تھا۔۔گھر سے نکلتے ہی انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا۔اعر میں نے کہا جناب آپ کا جب جو دل ہو دوست کو آزما لینا۔۔نائلہ گھر میں دو منٹ رکا بس اور آنٹی اکیلی ہیں کا بہانہ بنا کر واپسی کو نکل آیا۔۔ دروازے کے پاس کومل کھڑی تھی۔۔ اس نے جلدی سے مجھے ایک کاغذ کا ٹکڑا پکڑایا اور تیزی سے پلٹ گئی۔۔۔ میں نےفورا جیب میں ڈالا اور سپیڈو سپیڈ گھر پہنچا۔۔ سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا صرف آنٹی کےکمرے میں روشنی تھی میں آرام سے گنگناتا اندر داخل ہوا۔۔سامنے آنٹی گاون لپیٹے بیڈ پر لیٹی میرا ہی انتظار کر رہی تھیں گاون میں کھ کچھ جھلکتا انکا جلوہ۔۔۔انکی شکل کی ایک تصویر اینڈ پر میں لگا رہا ہوں۔۔انکا انگ انگ اور سارا چہرہ بتا رہا تھا وہ فل گرم۔۔۔میں اندرآیا اور دروازے کو لاک کرتاہوا۔۔ بیڈ کے پاس کھڑا ہوا۔۔ اور کہا ۔۔ اب اجازت ہے دیکھ لوں ٹانگوں کو کل جو روکا تھا وہ تڑپ کر اٹھیں اور بولیں ہاے چندہ ناراض ہو۔۔ میں نے کہا نا ۔۔ بس بے صبرا ہوں۔۔ وہ زور سے ہنسیں اور کہا ہاے بےصبرے تو آو نا آج دیکھ لو سارا بدن یہ۔۔ فل لوشن کے ساتھ۔اور ایک اکساتی انگڑائی لی۔۔ انکے بازو ابھی اوپر تھے کہ میں ان پر جھپٹا۔۔۔کل کے انکے جلوے کا اثر۔۔ میڈم رفعت کی مہک کا اثر اور شام کو مچھلی ۔۔۔ میں ڈبل نہیں ٹرپل موج میں تھا۔۔ میں انکے اوپرگرتا لیٹتا چلاگیا۔۔ بے تابی سے اور وہ مجھے خود میں چھپاتی سنبھالتی ساتھ اور ساتھ لگتی گئیں۔۔ یوں ہی گلے لگے ایک دوسرے کے اوپر نیچے پورے بیڈ پر ادھر ادھر رول ہو رہے تھے۔۔حدت بڑھ رہی تھی وہ پندرہ دنوں سے پیاسی تھیں ۔۔ میرے ہونٹ انکی پیاس کو اور بڑھا رہے تھے۔۔ میں نے لبوں سے گاون کی فرنٹ گانٹھ کو کھولا اور سامنے سے سارا حجاب چاک کر دیا۔۔۔ افففف سامنے انکا چمکتا بدن ۔۔بڑے نپلز والے بوبز گداز موٹی ٹانگیں۔۔ میں نے انہیں ایسےہی بیڈ پرگرایا اور انکے پیٹ سے گردن تک چاٹنے لگا۔۔ میری زبان کی نوک انہیں تڑپا رہی تھی۔۔ انہوں نے بے تابی سے میرے لن کو خود ہی پکڑا۔۔۔اففففف لن ٹرپل نشےسے فل ٹن تھا۔۔۔ جھٹکے کھاتا۔۔آنہوں نے ایسے ہی لیٹے آنکھیں موندے میرے ٹراوزر کے اندر ہاتھ کر کے لن کو سہلانا شروع کیا۔۔ میری آنکھیں بند ہونے لگیں اور جانے کیوں یکدم مجھے اسی خوشبو اسی اندھیرے کی یاد آ گئیی افففف میڈم رفعت کی یاد آنی تھی کہ لن اور اکڑا اور جسم اور گرم ہوا۔۔۔میں نےانہیں بیڈکےکارنرپر کھینچا اور کھڑےہو کر انکےننگے گورے شفاف جسم پر لنکو پھیرنےلگا۔۔ لن سے پورے جسم پر گرم جذبوں کو لکھنے لگا۔۔ اور جیسے جیسے میرے لن کی حرکت ہو رہی تھی وہ سسک رہیں تھیں۔۔ میں لن کو رول کرتے ٹانگوں رانوں پیٹ سینے سے گردن تک لایا ۔۔ اور واپس گھمانے ہی لگا تھا کہ انہوں نے اوپر لاو نا اسکو جیسی بہکتی سرگوشی کی اور میں لن کو انکی گردن سے ٹھوڑی سے چہرےپر پھیرتا ماتھے تک گیا انہوں نے بے ساختگی سے میرے لن کو پکڑا ۔۔ اپنےدونوں لپس کو ہلکا سا کھولا اور لن کو لپس پر رکھ کر نیچے سے نچلی رگ پر زبان کو پھیرنے لگیں۔۔ افففف میں تو مرنےوالا ہو گیا۔۔ میر سانسیں جیسے تیز طوفان۔۔ میں اب ہلکا ہلکا آگے پیچھے ہو رہا تھا اور میرا لن انکے لپس پر سرمہ سلائی کی طرح آگے پیچھے پھر رہا تھا اور انکی زبان انکی گہری سانسوں کا احساس۔۔
مزید کہانیاں پڑھنے کے لئیے لنک پر کلک کریں اور وزٹ کریں۔
https://sites.google.com/view/desi-stories/home
پھر جانے وہ کب آئے تم بھی خالہ کو کہنا۔۔ میں نے وعدہ کر لیا اور پھر آنٹی کو الگ بلا کر ان سے اس طرح کہا کہ آج کمال موسم موڈ اور ڈھیر ساری مچھلی کا اثر۔۔۔ عمبرین کو اجازت دیں ۔۔ اکیلے گھر میں مزہ کرتے۔۔ اور یوں آنٹی نے ناصرف اسے جانے کی اجازت بلکہ رات رکنے کی اجازت بھی دے دی۔۔کچھ دیر بعد میں عمبرین کو چھوڑنے جا رہا تھا۔۔گھر سے نکلتے ہی انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا۔اعر میں نے کہا جناب آپ کا جب جو دل ہو دوست کو آزما لینا۔۔نائلہ گھر میں دو منٹ رکا بس اور آنٹی اکیلی ہیں کا بہانہ بنا کر واپسی کو نکل آیا۔۔ دروازے کے پاس کومل کھڑی تھی۔۔ اس نے جلدی سے مجھے ایک کاغذ کا ٹکڑا پکڑایا اور تیزی سے پلٹ گئی۔۔۔ میں نےفورا جیب میں ڈالا اور سپیڈو سپیڈ گھر پہنچا۔۔ سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا صرف آنٹی کےکمرے میں روشنی تھی میں آرام سے گنگناتا اندر داخل ہوا۔۔سامنے آنٹی گاون لپیٹے بیڈ پر لیٹی میرا ہی انتظار کر رہی تھیں گاون میں کھ کچھ جھلکتا انکا جلوہ۔۔۔انکی شکل کی ایک تصویر اینڈ پر میں لگا رہا ہوں۔۔انکا انگ انگ اور سارا چہرہ بتا رہا تھا وہ فل گرم۔۔۔میں اندرآیا اور دروازے کو لاک کرتاہوا۔۔ بیڈ کے پاس کھڑا ہوا۔۔ اور کہا ۔۔ اب اجازت ہے دیکھ لوں ٹانگوں کو کل جو روکا تھا وہ تڑپ کر اٹھیں اور بولیں ہاے چندہ ناراض ہو۔۔ میں نے کہا نا ۔۔ بس بے صبرا ہوں۔۔ وہ زور سے ہنسیں اور کہا ہاے بےصبرے تو آو نا آج دیکھ لو سارا بدن یہ۔۔ فل لوشن کے ساتھ۔اور ایک اکساتی انگڑائی لی۔۔ انکے بازو ابھی اوپر تھے کہ میں ان پر جھپٹا۔۔۔کل کے انکے جلوے کا اثر۔۔ میڈم رفعت کی مہک کا اثر اور شام کو مچھلی ۔۔۔ میں ڈبل نہیں ٹرپل موج میں تھا۔۔ میں انکے اوپرگرتا لیٹتا چلاگیا۔۔ بے تابی سے اور وہ مجھے خود میں چھپاتی سنبھالتی ساتھ اور ساتھ لگتی گئیں۔۔ یوں ہی گلے لگے ایک دوسرے کے اوپر نیچے پورے بیڈ پر ادھر ادھر رول ہو رہے تھے۔۔حدت بڑھ رہی تھی وہ پندرہ دنوں سے پیاسی تھیں ۔۔ میرے ہونٹ انکی پیاس کو اور بڑھا رہے تھے۔۔ میں نے لبوں سے گاون کی فرنٹ گانٹھ کو کھولا اور سامنے سے سارا حجاب چاک کر دیا۔۔۔ افففف سامنے انکا چمکتا بدن ۔۔بڑے نپلز والے بوبز گداز موٹی ٹانگیں۔۔ میں نے انہیں ایسےہی بیڈ پرگرایا اور انکے پیٹ سے گردن تک چاٹنے لگا۔۔ میری زبان کی نوک انہیں تڑپا رہی تھی۔۔ انہوں نے بے تابی سے میرے لن کو خود ہی پکڑا۔۔۔اففففف لن ٹرپل نشےسے فل ٹن تھا۔۔۔ جھٹکے کھاتا۔۔آنہوں نے ایسے ہی لیٹے آنکھیں موندے میرے ٹراوزر کے اندر ہاتھ کر کے لن کو سہلانا شروع کیا۔۔ میری آنکھیں بند ہونے لگیں اور جانے کیوں یکدم مجھے اسی خوشبو اسی اندھیرے کی یاد آ گئیی افففف میڈم رفعت کی یاد آنی تھی کہ لن اور اکڑا اور جسم اور گرم ہوا۔۔۔میں نےانہیں بیڈکےکارنرپر کھینچا اور کھڑےہو کر انکےننگے گورے شفاف جسم پر لنکو پھیرنےلگا۔۔ لن سے پورے جسم پر گرم جذبوں کو لکھنے لگا۔۔ اور جیسے جیسے میرے لن کی حرکت ہو رہی تھی وہ سسک رہیں تھیں۔۔ میں لن کو رول کرتے ٹانگوں رانوں پیٹ سینے سے گردن تک لایا ۔۔ اور واپس گھمانے ہی لگا تھا کہ انہوں نے اوپر لاو نا اسکو جیسی بہکتی سرگوشی کی اور میں لن کو انکی گردن سے ٹھوڑی سے چہرےپر پھیرتا ماتھے تک گیا انہوں نے بے ساختگی سے میرے لن کو پکڑا ۔۔ اپنےدونوں لپس کو ہلکا سا کھولا اور لن کو لپس پر رکھ کر نیچے سے نچلی رگ پر زبان کو پھیرنے لگیں۔۔ افففف میں تو مرنےوالا ہو گیا۔۔ میر سانسیں جیسے تیز طوفان۔۔ میں اب ہلکا ہلکا آگے پیچھے ہو رہا تھا اور میرا لن انکے لپس پر سرمہ سلائی کی طرح آگے پیچھے پھر رہا تھا اور انکی زبان انکی گہری سانسوں کا احساس۔۔
میرا لن پھٹنے والا ہو چکا تھا۔۔ میں پیچھےہٹا۔ انہوں نے لال آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے کہا ۔۔ اچھے ہو لیکن ابھی بھی کچےہو۔۔اور مجھے کہا سب اتاردو۔۔ میں نے آدھا اترا ٹراوزر فل اتارا اورشرٹ بھی وہ پھینک۔۔ انہوں نےکہا آج تمہیں ماسٹر ڈگری سکھاتی ۔۔انہوں نے سرہانہ بیڈ کے درمیان رکھا اور اس پر ایسے لیٹیں کہ انکی ٹانگیں زمین پر ۔۔ گانڈ اورکمر بیڈ پر۔ وہ بولیں ایسے اوپر لیٹو میرے ۔۔ میں انکے اوپر لیٹا۔۔ انہوں نے ہاتھ سے لن کو پھدی پر رکھا اور کہا اب آہستہ آہستہ نیچےآو۔۔سخت اکڑا لن اوپر سے نیچے کو پھدی کےدانےکو رگڑتے اندر جا رہا تھا آہستہ آہستہ آدھے تک۔انہوں نے گہرا سانس لیا اورکہا اب آرام سے اندرکرو۔۔ میں بلکل آرام سے ٹیکے کی طرح اندر کرتا گیا۔۔ جب فل اندر گیا تو انہوں نے عجیب کام کیا۔۔ گاون کو میرے اوپر سے لاتے ہوے ڈوری باندھ دی۔۔ اب انکے لانگ گاون میں میرے جیسا سمارٹ بندہ فل پھنس گیا۔۔ ہم اس ڈوری اورگاون میں بلکل ساتھ جڑ چکےتھے انکے بوبز میرے سینے کے نیچے مکمل پچکےہوے
انہوں نےکہا اب ایسے ہی اس گاون کی تنگی میں ہلکا ہلکا موو کرو۔۔ جیسے چٹنی بناتے ہوئے کونڈی میں ڈنڈاگھماتے۔۔۔اففففف جب میں نے ایسے کیا ۔۔ فل جسم کی رگڑ اور لن جیسے اندر فل جم کے گھوما۔۔ انکی سسکیاں ۔۔ آہستہ سے گھومتا تھوڑا سا زور لگا کر گاون کی لچک جتنا اوپر جاتا اور واپس آتا۔ لن آدھے سے زیادہ اندر ۔ تھوڑا سا باہر جاتا اور فل زور سے اندر جیسے میخ ٹھونکتے اب انہوں نے گاون کے بازوں سے اپنے ہاتھوں کو نکال کر میری ہپ کو زور سے جکڑ لیا اور مجھے اوپر کھینچتیں ۔۔ جب وہ مجھے اوپر کھینچتیزں لن تھوڑا سا موڑا جاتا اور ایسے لگتا جیسے کچومر نکل جانا۔۔ ہم دونوں مکمل پاگل ہو چکے تھے۔۔اوپرنیچےآدھا اندر آدھا باہر۔۔گھماتے گھماتے ۔۔ ہااااے میری پھدی سہی کھل گئی اااففففف اور زور سے گھما نا چندا۔۔ انکی بہکتی سسکیاں۔۔ دونوں کا وقت قریب تھا۔۔ میں نے انہیں کہا اب تھوڑی گاون کی ڈوری ڈھیلی کریں اور تھوڑا اوپر جا کر آدھا لن نکال کر جو جھٹکے مارنے شروع کیے وہ مست چیخنے لگیں۔۔ میری سسکیاں بھی اب تیز تھیں۔۔ اور ایک تیز چیخ کےساتھ انہوں نے ڈسچارج ہونا شروع کیا۔۔ انکا گرم پانی میرے لن سے ٹکرا رہا تھا۔۔ پھدی کی دیواریں کھل بند ہو رہیں تھیں۔۔ میری ٹانگوں سے تیز نشہ لن تک آیا اور ایک طوفانی جھٹکے سےمیں ڈسچارج ہوتا انکے اوپر جا گرا
مزید کہانیاں پڑھنے کے لئیے لنک پر کلک کریں اور وزٹ کریں۔
ایسےہی انکے اوپر انکے شانےپرسر رکھ کر میں مدہوش گر گیا۔۔ ہم دونوں کی گہری سانسیں جیسے سی گہرے طوفان سے ساحل تک پہنچ کر تیراک لے۔۔ ہم بھی جذبوں کے گہرے طوفان میں سے نکلے تھے۔۔ اس سارے طوفان کے درمیان ۔۔ مجھے میڈم رفعت کا چہرہ انکی خوشبو ہی محسوس ہوتی رہی۔۔ جیسے میں چود شازیہ آنٹی کو رہا ہوں اور ذہن میں وہ ہوں۔۔ انکا لچکیلا بدن انکے بالوں کا وہ لمس ابتک گالوں پر تھا۔۔ آنٹی نے گاون کی ڈوری کھولی اور میں ہلکا سا اوپرسے کھسکا ۔ ۔۔لن ابھی تک پھدی میں ہی تھا میرے ہٹنے سے وہ جیسے ہی باہرنکلا جیسے سیلاب آ گیا ہو۔۔ آنٹی کی پھدی میں ہم دونوں کا پانی جو لن کی رکاوٹ سے رکا تھا وہ باہر آنے لگا۔۔ افففف بہت مزےکا ڈسچارج ہوئے تھے ہم۔۔۔ آنٹی بیڈ سے اٹھیں ۔۔۔اور رہا سہا گاون بھی اتار کر بیڈ کے نیچے لڑھکا دیا۔۔اور ایسے ہی ننگے چلتے ہوئے سامنے فریج سے خود بھی پانی پیا اور میرے لیے بوتل پانی کی بوتل پکڑے واپس آئیں ۔۔ انکا گورا بدن چمک رہا تھا۔۔ جاتے ہوئے انکی موٹی گانڈ مٹک رہی تھی اور آتے ہوئے بڑے بڑےبوبز اتھل پتھل ہو رہے تھے ۔۔میرے پاس آ کر مجھے ہلکا اٹھا کر ۔۔ انہوں نے بوتل سے ہی پانی دیا اور کہا یہ جو آج کیا نا ۔۔ اسے ناٹ سیکس کہتے۔۔ بلکل جڑ جاتا بندہ ۔تم نےاچھی کارکردگی دکھائی وہ مجھ سے لگتے ہوئے بولیں۔۔ کچھ دیر ایسےہی ہم لیٹے ایکدوسرے کو سہلاتے رہے ۔ پھر وہ اٹھیں اور ایک بڑی سی چادر لیکر باہر نکل گئیں۔ انکے آنے تک میں بھی فریش ہوا۔۔ واپسی پر انکے ہاتھ میں دیسی گھی کی پنجیری تھی ۔۔۔کچھ دیر پنجیری کھاتے ساتھ ساتھ ہم ہلکی پھلکی باتیں کرتے رہے۔۔
ہمیں ڈسچارج ہوتے ہوئے گھنٹہ بھر ہو چکا تھا۔۔ ہم کمبل کے اندر ایک دوسرے کےساتھ ننگے جڑے۔بلکل فریش سے۔۔۔ دن بھر کی بھاگ دوڑسے میں بھی تھک چکاتھا۔۔ اب سیکس کے بعد ہلکی مستی نما غنودگی گھیر رہی تھی۔۔۔ ایسے ہی ساتھ لپٹے ہم سو گئے ۔۔سوتے سوتے مجھے احساس ہوا کہ کوئی میرے لن کو سہلا رہا ہے۔۔میں دیکھا تو صبح ہو چکی تھی۔۔ آنٹی میرے پاس۔۔ سب کی طرح صبح کے وقت میرا بھی کھڑاتھا تو آنٹی نےسہلا کر جگا دیا۔۔ میں تھوڑی بہت مستی کی۔۔ آج اتوار تھا آف تھا۔۔گیارہ بج چکے تھے آنٹی نے کہا جبتک میں ناشتہ بناتی تم جا کر عمبرین کو لے آو۔۔میں اسی خماری میں باہر کو نکلا۔۔ دروازہ بجایا تو کومل نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھتے ہی بولے شکر ہے تم نظر آئے ۔۔ بھول ہی گئے۔۔ میں نے گڑبڑا کر کہا ارے نہیں جانم ۔۔ آپکو کون کافر بھول سکتا۔۔بس بزی رہا۔۔ میں اندر گیاتو ہر طرف سناٹا تھا۔۔پوچھنے پر پتہ چلا ناصر ابھی تک سو رہا ہے نائلہ اور عمبرین تھوڑا اتوار بازار تک گئیں ہیں۔۔ باقی ساس سسر اندر کمرے میں بیٹھے۔۔یہ سنتے ہی میں جو صبح جاگتے ہی خماری میں تھا انکے ساتھ لگ کر کہا۔۔ موقع بھی ہے تو ایک بارگلے ہی مل لیں۔۔ وہ پہلے تو تھوڑا سا گڑبڑائیں اور پھر کہنے لگیں تم ایسا کرو اوپر چھت پر چلے جاو۔۔ میں ساس سسر کو دیکھ کر آتی۔۔ خوشی سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا۔۔ سامنے وہی سٹور تھا جہاں پہلی بار کومل کا جلوہ دیکھا تھا۔۔ جنوری کی ٹھنڈی ہوا چھت پر تیز تھی ویسےبھی دن چڑھا تھا اوپن چھت سے چھت ملی ہوئی تھی۔۔ میں سٹورکا دروازہ کھولا اور اندر چلا گیا۔۔۔ اندر ایک طرف وہی پرانا بیڈ تھا اور کچھ دیگر سامان۔۔۔ تھوڑی دیر بعد کومل بھی اندر آئیں اور آتے ساتھ ہی کہا سب سکون ہے ۔۔اوربولیں جلدی سے گلے مل لو ۔۔ میں انکے پاس گیا انہیں بازو سے تھام کر بیڈ پر لا بٹھایا۔۔ پاس بیٹھ کر انکا ہاتھ پکڑ کر کہا۔۔آپ جیسی باکمال حسن کی لڑکی کےساتھ جلدی کرنا اچھا نہیں کفران نعمت ہے آپکو آرام سے انگ انگ سے چھو کر چاہنا حق ہے۔۔ وہ میری بات پر بلش ہوئیں اور بولیں باتیں بہت کرتے ہو تم۔۔ میں ہنستے ہوئے ان پر گرا اور کہا صرف باتیں ہی ۔۔اور پیار یہ کہتے میں انکوبازووں میں لیااور ہلکا سا دبا کر کہا۔۔۔ اس رات بہہہت مزہ آیا۔۔۔ کاش وہ نا ہوا ہوتا تو میں آپکو بتاتا مجھے باتوں کےعلاوہ اور کیا کیا آتا
وہ میری ٹھوڑی کو چومتے ہوئے بولیں۔۔ مجھے دانہ چکھ کر ہی پوری دیگ کا اندازہ لگا لیاتھا۔۔ آخر ہر وقت کچن ہوتی ہوں۔۔تو پھر کیا اندازہ لگایا۔۔تم بہت سوادی ہو انہوں نے سرگوشی کی۔۔ میں جو صبح سے خمار میں تھا کومل کےقرب نے اسے دو آتشہ کیا۔۔ نہار منہ ایسی عورت پاس ہو اور کیا چاہیے۔۔وقت کم تھا اور میرا موڈ بہکنےکو ہو رہا تھا۔۔ میں اپنے رخساروں کو انکے رخساروں سے سہلایا تو وہ سسک اٹھیں اور بولیں نا کر نا۔۔۔ وہ ہلکا ساڈریں تھیں۔۔ میں نے کہا بس تھوڑا سا نا۔۔اور انکے گالوں پر لبوں کو پھیرا وہ تھوڑا سسکیں اور کہا پھر صبر نہیں ہوتا نا۔۔۔پورا چکھنے کو دل کرتا میں نے انکی گردن سے ناک رگڑتے ہوے کہا اور ساتھ ہاتھوں کو انکی کمر پر پھیرنے لگا۔۔اب تھوڑا سا ماحول ادھر بھی گرم ہو رہا تھا۔۔ میں نے انکے دوپٹہ کو ایک سائیڈ کیا۔۔ اور لبؤں کو انکے سینےپر پھیرا۔۔ وہ جیسے مدہوش ہونےلگیں لیکن اندر سے ڈر بھی تھا۔۔ میں اٹھا اور اس سے پہلے انہیں سمجھ آتی سیڑھیوں کے گیٹ کی چھت والی طرف سے کنڈی اٹکا دی اور بھاگم بھاگ واپس آیا۔۔وہ اتنی دیر تک تھوڑا اٹھ کر بیٹھ چکیں تھیں۔۔ میں انکے سامنے کھڑا ہوا۔۔ انکے شانوں پر ہاتھ رکھا اور سرگوشی کی کومل۔۔ انہوں نے سر اٹھایا اور بولا جی کراں۔۔میں نے انکے ماتھے کو چوما اور کہا سارا پیار کرنے کو دل کر پڑا بہہت اداس ۔۔۔وہ بولیں اداس تو میں بھی ہوں لیکن یہاں کیسے کوئی آ سکتا وہ شائد اس دن کی وجہ سے ڈری ہوئی تھیں۔۔ اور یہاں تو تھا بھی سسرال۔۔میں نے انکے گالوں کو چومتے ہوئے کہا کہ بس دو منٹ میں ۔۔ کبھی کبھی جلدی والی ڈیٹ مزہ دیتی نا۔۔ وہ مسکرائیں اور بولیں تم جلدی نہیں کرتے نا ۔۔ میں نے انکے بوبز کو سافٹ سے مسلتے ہوے کہا آپ جلدی کروا دینا نا۔۔۔ انکے بوبز ک ہاتھ لگانا تھا کہ وہ جیسے تڑپ اٹھیں۔۔اور میرےساتھ لگیں ۔۔ انکا سینہ میرے لن کے ساتھ رگڑ کھائی اور میں کھڑا ایسے ہی اوپرسے انکے لبوں ماتھے کو چوما۔۔ انکے گداز سینے کے لمس نے لن کو ٹنا ٹن کر دیا۔۔ اور میں انکو نیچے لٹاتا اوپر گر گیا۔۔ انکی شرٹ کو تھوڑا اوپرکرنے لگا تو وہ گھبرا کر بولیں نہیں نا ۔۔۔ اتارنا کچھ نہیں بس اوپر کرلو۔۔ میں نے ضد کی بجاےاس بار بات مان لی اور انکی شرٹ کو کندھوں تک کرکے ۔۔اپنی قمیض کو اوپر کر کے انکے اوپر لیٹ گیا۔۔ افففف ننگے پیٹ اور سینے پر میرا ننگا پیٹ اور سینہ ۔۔ ہلکی سی رگڑائی۔۔۔ لن فل راڈ ہو چکا تھا۔۔ انکی ٹانگوں میں پھنسا اوپر نیچے ہو رہا تھا۔۔ ایسے ایک تو لن فل راڈ ہو گیا دوسرا وہ بھی کافی گرم ۔۔ دیرکرنا مناسب نا تھا وقت کم تھا۔۔ میں نے ہاتھ کو پیٹ سے نیچے کو کیا اور انکی شلوار کے اندر پھدی کے اوپر۔۔۔ پھدی ہلکی ہلکی ویٹ ہو چکی تھی ۔۔ میں نے اپنی ہتھیلی کو انکی پھدی پر ہلکا ہلکا آگے پیچھےکرنا شروع کیا۔۔۔ ہتھیلی کو پھدی کےلبوں اور دانے پر گھمانا شروع کیا ۔۔ اس رگڑائی کا اثر نکلنا شروع ہوگیا تھا۔۔ اب کومل جوپہلے ٹانگیں جوڑ رہی تھیںاس نے ٹانگیں کھول دیں تھیں۔۔ میرا ہاتھ پھدی سے رانوں تک مالش کر رہا تھا۔۔ میں نے بڑی انگلی کو انکی پھدی کے اوپر ہلکا دبایا ۔۔ انگلی اندر گھستی گئی وہ سسیکیں ہاااائے مر گئی۔۔ اب پھدی تیار تھی اس سے پہلے کہ کوئی بلنڈر ہوتا کام ڈالنا چاہیے تھا۔۔ میں اوپر ہوا اپنی شلوار کا نالا کھولا۔شلوار سرک کرپاوں تک گئی۔۔ لن فل کھڑا سلامی دے رہا تھا۔۔ میں نے کومل کی ٹانگیں اوپر کیں اور انکی شلوار کو گھٹنوں تک اتار کر لن کو پھدی کے۔لپس کے اوپر پھیرنے لگا۔۔ افففف جیسے ہی میں نے ایسا کیا۔۔ کومل سسک کر بولی۔جلدی کر نا چندا۔۔ میں نے ٹوپی کو جمایا اور انکی ادھ ننگی ٹانگوں کو اورمولڈ کیا اب پھدی بلکل اوپر کو میرے لن کی رینج میں تھی۔۔ میں نے ٹوپے کو ہلکا سا جمایا اور دھکا مارا۔۔۔ لن سیدھا آدھا اندر گھسا وہ ہااااے کر کے سسکیں ۔۔ میں رکا اور تھوڑا باہر نکال کر پھر دھکا مارا۔۔ اس بار لن آدھے سے تھوڑا زیادہ اندر گیا۔۔ وہ نیچے سےہلیں۔۔ اور میری ٹانگوں پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔۔ میں جھکا اور لبوں کو لبوں میں لیکر آخری چھکا مارا۔۔ لن فل اندر۔۔ انہوں نے ایک مزے والی ہاے کی۔۔میں نے باہر نکالا اور پھر سے جھٹکا مارا ۔۔کچھ دن کا وقت اوپر سے ڈر۔۔ چار پانچ جھٹکوں کے بعد وہ کراہنے لگیں ۔۔ میں باہر نکال کر پھر سے اندر کیا اور انکے اوپر لیٹ کر رات کا ہی سیکھا انداز آزمانے لگا۔۔ گاون کی ناٹ نہ سہی سٹائل وہی تھا۔۔ لن فل اندر اور میں ہلکا سا ڈرل کیا۔۔ دو چار بار گھما کر جو مارا تو وہ تیز جھٹکوں کے ساتھ فارغ ہوتی گئیں ۔۔ انکے یہ جھٹکے مجھے بھی پاگل کر گئے اور میں دو چار جھٹکوں کے ساتھ انکے اندر ہی چھوٹتا گیا۔۔وہ مست نیچے پڑی۔۔ میں جلدی سے اٹھا اور شلوار کو اوپر کرکے سٹور سے باہر کا جائزہ لیا یہ سب دس بارہ منٹ میں ہوا تھا۔۔ باہر ویسا ہی سکون تھا۔۔ اب کومل بھی اٹھیں اور زمین پر اکڑو بیٹھ کر سارا پانی نکالنےلگیں اور غصے سے بولی ۔۔ اندر چھوٹ گئے تم ۔۔ اب کچھ ہو گیا تو۔۔ میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا ۔۔ ہوا تو آپکی سہیلی نرس رابعہ ہے نا۔۔ وہ گھوریں اور مجھے کمر پر مکہ مار کر بولی بہت تیز ہو تم اووور۔۔ میں نے کہا اوور۔۔۔ کہتی بہت سوادی۔۔ کم وقت تھا لیکن فریش کر دیا تم نے۔۔۔ کسی دن تمہارے ساتھ سکون سے اپنے کمرے میں رات گزارنی وہ مجھے آنکھ مار کر بولیں اور کہتیں میں جا کر نیچےکا ماحول دیکھ لوں اور یہ جا وہ جا۔۔
تھوڑی دیر بعد میں نیچےآیا اور اسبارناصر کے کمرے میں گیا وہ گھوڑے بیچےسو رہاتھا۔۔ اسےجگا کر میں اس سے باتیں کرنے لگا۔۔ اتنی دیرمیں عمبرین بھی آ گئیں۔۔ نائلہ سے ہیلو ہاے ہوئی انکے آنے کے بعد ناصر فریش ہونے واش روم چلا گیا۔۔۔ اور ہم تینوں اکیلے رہ گئے ۔تھوڑی دیر بعد نائلہ نے مجھے کہا ۔۔و دیکھو اب میں جا چکی ہوں یہا سے۔۔ رات عمبرین سے باتوں میں پتہ چلا تم دونوں اچھے دوست بن چکے ہو۔۔ میں نے گھور کر عمبرین کو دیکھا کہ سٹوڈنٹ سیکرٹ کیوں آوٹ کیا۔۔ عمبرین نے شوخی سے سہم کر کانوں کو ہاتھ لگائے نائلہ ہنس کر بولی ہم دونوں ایک روح دو جسم ہیں ہماری ایک ہی بات اور پھر کہنے لگیں تمہارے ذمہ ہے عمبرین کا خیال رکھنا اب یاد رکھنا۔۔ میں نے کہا جی وعدہ۔۔ وہ بولیں پکا وعدہ۔۔ یہ بولتی کچھ نہیں بس سہتی رہتی ہے بہت حساس ہے یہ مجھے اسکی ہر بات کا پتہ۔۔ تم خود پوچھ لینا اس سے کہ کیوں منہ سوجایا ہوا ۔۔ اور تینوں ہنس پڑے۔۔ نائلہ نے ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا اب چونکہ عمبرین تمہاری دوست ہے تو سمجھو میں بھی تمہاری دوست ہوں۔۔ ڈیل ڈن تینوں کی۔۔ اور ہم تینوں نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔ کچھ دیر بعد ہم واپس آگئے ۔۔ آنٹی ٹھنڈا ناشتہ لیے فل غصے میں تھیں انہیں کیا خبر تھی میں جو خوراک لیکر آیا مجھے ناشتےکی کیا ضرورت
ناشتے کے بعد کچھ دیر بات ہوئی اور پھر آنٹی کمرے میں جا کر لیٹ گئیں۔۔ اوپر جا کر میں کافی بور ہونے لگا ۔۔ آجکا دن جیسا سہانا تھا اب اتنا ہی بور ہو رہا تھا۔۔ میں نے انٹرکام اٹھایا اور کال کی ۔۔ دوسری طرف عمبرین تھی۔۔ شوخی سے بولیں جی اب کیا ہے۔۔ میں نے معصومیت سے کہا جی آپ نے کہاتھا کہ کچھ چاہیے ہوتو انٹرکام کرنا۔۔ وہ اسی انداز سے کہنے لگیں وہ مہمان سے کہا تھا ۔۔۔دوست سے نہیں۔۔ میں تنک کر بولا واہ ۔۔ جی ۔۔ مجھے نہیں پتہ نا۔۔ آپ اوپر آو یا میں آپکے کمرے آتا۔۔ وہ گھبرا کر بولیں نا تم وہیں رہو۔۔ آنٹی سو رہیں ایسے اچھا نہیں لگتا نا۔۔ انکے اندر مشرقی لڑکی کا خوف تھا۔۔ میں نے شکوہ کیا۔۔ لو دوست بھی کہا اور اعتماد بھی نہیں۔۔ وہ تھوڑا چپ ہوئیں اور بولیں۔۔۔بات اعتماد کی نہیں ۔۔بس اچھا نہیں لگتا نا۔۔ میں مایوس سا ہو کر بولا۔۔ میں بہت خوش تھا ۔۔ آج آپکی ذمہ داری ملی مجھے۔اور آپ نو لفٹ۔۔ وہ حیرت سے بولیں ہیں میری ذمہ داری کون دیا تمہیں۔۔اور روانی سے بول دیا کہ جسکی ذمہ داری ہوں اسکے لیے تو بوجھ ہوں ۔۔ اور یکدم احساس ہونے پر چپ ہو گئیں۔۔ میں نے کہا مجھے یہ ذمہ داری نائلہ نے دی تھی۔۔وہ ہنسیں اور کہا وہ تو چوول ہے۔۔ میں سنجیدگی سے بولا۔۔ بات سنیں۔۔میری۔۔۔ ہماری ڈیل ہو چکی اور دنیا کا مجھے نہیں پتہ مرے لیے آپ بوجھ نہیں بہتتت ہی پیارا فرض ہیں۔۔دوستی کا فرض۔۔ لیکن دوستی نباہنا بہت مشکل ۔۔انہوں نے نکتہ اٹھایا۔۔
انکی بات مجھے کاٹ گئ۔۔ میں تڑپ کر بولا ۔۔ بس عمبرین ۔۔ آپ نا کریں معاہدہ لیکن ایسے نا کہیں۔ میں پورے دل ایمان سے آپکو دوست مانا۔۔ میرے الفاظ میرے جذبوں کی تصویر تھے دل سے نکلی بات کا اپنا اثر ہوتا۔۔۔ میں نے کہا ۔۔ آپ میرےلیے بہت محترم۔۔ مری سچی دوست سچی سہیلی۔۔ہیں نا۔۔ اور وعدہ رہا دوستی نباہوں گا۔۔ آزما لینا ۔۔ وہ کچھ دیر چپ رہیں اور بولیں میں کیا آزمانا۔۔ ہمیشہ عورت ہی آزمائی جاتی ہے دشمنی میں نفرت میں۔۔ دوستی اور محبت میں تقاضوں کی شکل میں۔۔ میں نے انکی بات کاٹی اور کہا میرا کوئی تقاضا نہیں سوائے اسکے کہ۔۔ اپنے غم مجھے دے دو اپنے دکھ درد۔۔ بسسسس اسکے علاوہ کچھ نہیں کہوں گا۔۔ میرا لہجہ بھیگ چکا تھا۔۔ ان پر میرے سچے لفظوں کا اثر ہوا اور وہ بولیں۔۔ دیکھ لینا۔۔ میں نے کہا آپ دیکھ لینا۔۔ تب وہ بولیں ٹھیک ہے۔۔ میں نائلہ کے بعد تم پر بھروسہ کر رہی ہوں۔۔۔نائلہ لڑکی تھی ۔۔تم لڑکے اور تم ہی میرے پہلے اور آخری دوست ہو گے۔۔ ہم دونوں مسکرا دیے ۔۔ اور جانے کتنی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے ۔۔ زندگی کی رنگوں کی خوابوں کی عام دوستانہ باتیں
https://sites.google.com/view/desi-stories/home
اس شام جب میں نیچے آیا تو جیسے ہی ہماری نظریں ملی ۔۔ پہلی بار انکی آنکھوں میں ہلکی امید کی روشنی تھی۔۔انکی چمکتی آنکھیں مجھے نہال کر گئیں میری روح تک تازہ ہو گئی ۔۔ دل ترنگ سے جھوما اور ہم دونوں مسکرا دیے
جاری ہے
0 Comments