Ishaq Awara 6

  

عشق آوارہ  6 



 

کچھ دن زندگی کا حاصل ہوتے ہیں ایسا ہی وہ بھی دن تھا۔۔جنوری کی سات تاریخ ۔۔ اتوار کا دن۔۔ رات کا کھانا کھا کر ہم تینوں کچھ دیر باتیں کرتے رہے ۔۔ 

جنوری کی رات ۔۔ گو ابھی آٹھ بجے تھے لیکن ایسا لگتا تھا جانے آدھی رات گزر چکی ہو۔۔ صبح کی تیاری کے متعلقہ چھوٹے موٹے کام نپٹا کر میں نے کپڑے بدلے نیند کا نشان دور دور تک نا تھا۔۔۔میں باہر کھلی چھت پر کھلے آسمان تلے چارپائی چارپائی بچھا کر لیٹ گیا۔۔ اس ایج میں سردی گرمی کی کسے پرواہ ہوتی۔۔اوپر آسمان پر چودھویں کا چاند جگمگا رہا تھا۔ ۔۔ میں زندگی کے بدلتے رنگوں پرغور کر رہا تھا ۔۔ مجھے ابھی لاہور آئے مہینہ بھر ہونے والا تھا۔۔اور میں بہت سے رنگ دیکھ چکا۔۔ جسمانی تعلقات سے آگاہی ۔۔۔ کالج کا ماحول ۔۔۔ بیلا جیسی لڑکی سے دوستی ۔۔ کومل جیسی شوخی کے ساتھ ڈیٹ ۔۔۔اور ان سب سے بڑھ کر عمبرین کا وجود۔۔۔ جیسے ہی عمبرین کا خیال آیا 

میرے اندر جلترنگ سی بج اٹھی میں کچھ دیر سوچا اور پھر اندر کمرے میں جا کر انٹرکام سے سنگل بیل دی۔کچھ سینکنڈز کے بعد انٹرکام بجنے لگا۔۔کال ریسیو کی تو عمبرین پوچھنے لگی جی جناب حکم ۔۔ میں نے کہاحکم کیسا بس سوچا دوست کا احوال لے لوں۔۔ کیا ہو رہا تھا۔۔ کہتیں کیا ہونا ہے بس کیبنٹ کھولا ہوا تھا سوچا تھوڑی سیٹنگ کر لوں اتنا بکھیڑا تھا۔۔میں نے انہیں ستانے والے انداز میں کہا آپ کی کیبنٹ کا کیا بکھیڑا نائلہ کی شادی ہے علاوہ کبھی آپکو تیار دیکھا تو نہیں۔۔ وہ بولیں بس مجھے عادت ہے سادہ رہنے کی کوئی فنکشن ہو تو ہو۔۔۔میں نے ہمت کر کے کہا پتہ ہے پوری شادی پہ وویمن آف دی میرج کون تھی ۔۔۔وہ بولیں نائلہ ۔۔ میں نے ہنستےہوئے کہا نالائق وہ تو دلہن تھی نا۔۔ اسکے علاوہ پورے فنکشن میں کون گریس فل تھی ۔۔ کون سب سے جدا سب سے حسین لگ رہی تھی ۔۔ وہ تجسس سے بولیں کون۔۔ میں نے کہا آپ غصہ کر جانا۔۔ وہ اصرار کر کے بولی اب یہ غلط بات ہے میرا تجسس جگا کر اب بات چھپا رہےہو۔۔ میں نے کہا اچھا نا بتاتا۔۔آپ یہ بتاو آپکو چاند کیسا لگتا ۔۔ وہ بولیں چاند کسے نہیں اچھا لگتا ۔۔ میں چاند بہت دیکھا کرتی تھی۔۔ تم بات مت گھماو ساتھ ہی وہ میری سازش سمجھ گئیں۔۔ میں نے کہا میں بات گھما نہیں رہا آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ آج پورے چاند کی رات ہے ۔۔ آئیں چودھویں کے چاند کے نیچے میں آپکو بتاتا ہوں کون تھی سب سے حسین ۔۔۔ وہ بگڑ کر بولیں جی نہیں۔ تم ابھی بتاو گےاور میں چھت پر بلکل نہیں آوں گی۔۔میں نےاسی طرز پر جواب دیا کہ واہ دوستی کا دعوی بھی اعتماد بھی نہیں ۔۔ وہ بات کاٹ کر بولیں بات اعتماد کی نہیں ۔۔ بات روایات کی مناسب نہیں لگتا نا۔میں نے ضد لگا کر کہا بس۔۔ آپ کو جاننا ہے تو آپ آ کر چاند کے نیچے ہی سنیں گی ۔۔میرا وعدہ ہے میں زیادہ وقت نہیں لوں گا آپکا اور انٹرکام رکھ دیا۔۔ میرا دل جیسے کسی دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔۔ بڑا عجیب سی بات تھی ۔۔ آنٹی اور کومل کے ساتھ ہر حد سے گزرنے کے دوران میں بلکل بھی کنفیوز نہیں ہوا نا میرا دل ایسے دھڑکا ۔۔ جیسے اب حال تھا۔۔ یہ انکا رعب تھا انکی کشش تھی ان سے دوستی تھی یا لگن ۔۔ جیسے وقت تھم گیا ہو جیسے کوئی سب کشتیاں جلا کر بیٹھا ہو ۔۔ میں باہر کھلے صحن میں پہلے والی چارپائی پر بیٹھ گیا۔۔۔ کچھ دیر گزری مجھے ایسے لگا کسی نے سیڑھیوں والے دروازے کو آہستگی سے کھولا ہے ۔۔۔میرا دل پھر سے پھڑکنے لگا انگ انگ منتظر نظریں سیڑھیوں پر جمی ہوئیں اور پھر جیسے اندھیرے سے روشنی کی پہلی کرن۔۔ جیسے صدیوں کے پیاسے کے لبوں پر پہلا قطرہ آب۔۔ جیسے کھوئے ہوئے کو منزل کا اشارہ ملے ۔۔۔ انکا ہیولہ آہستہ آہستہ سے اندھیرے سے نکل کر چاندنی میں نکل آیا۔۔ انہوں نے چپل اتار کر ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تھی اور چہرے پہ ہلکا سا غصہ ۔۔ میں تڑپ کر اٹھا اور انکے پاس گیا ۔۔ اور کہا پاگل ہو گئی ہو اتنی سردی میں ننگے پاوں۔ وہ شکوے سے بولیں پاگل تو تم ہو گئے ہو بھلا ایسے کرتے ہیں ۔۔ میں نے بے ساختگی سے انکے ہاتھوں سے چپل لی اور ان کے پاوں کے پاس رکھ کر کہا پلیز پہن لیں نا۔۔ وہ اسی لہجے میں بولیں۔۔۔ میں اب نیچے جا کر اکھٹے ہی پہنوں گی بتاو جلدی سے ۔۔ میں نے کہا بتاتا ہوں جوتے پہنیں ۔۔ وہ چاند دیکھیں تو۔۔ میں نے ضد سے جوتے پہنوا کر انہیں کہا انہوں نے ایک نظر اٹھا کر چاند کو دیکھا اور کہا اب بتاو نا۔۔۔ میں انکے سامنے زمین پر گھٹنا لگا کر اپنےسینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔ اس کھلے چاند کے نیچے ۔۔میں اس چاند کی گواہی میں یہ سچ کہہ رہا ہوں کہ میں رکا انہوں نے ابرو اچکاکر پوچھا آگے ؟؟ 

 

مزید کہانیاں پڑھنے کے لئیے لنک پر کلک کریں اور وزٹ کریں۔ 

https://sites.google.com/view/desi-stories/home 

میں نے اسی طرح حلفیہ انداز میں ایک ہاتھ سینے پر رکھا اور چہرے کو جھکا کر۔۔۔ دوسرے ہاتھ سے انکی طرف اشارہ کر کے کہا۔۔۔ وہ حسین ترین لڑکی اس وقت بلکل میرے سامنے ہے ۔۔ کسی ملکہ کی طرح شان سے کھڑی اور ہم یہ اظہار کر رہے کہ آپ جیسا کوئی نہیں نا شادی میں نا لہور شہر نا کہیں اور۔۔۔ کچھ دیر جیسے ہر طرف سکوت چھا گیا۔۔ الفاظ زبان سے نکل چکے تھے اب اثر باقی تھا۔۔کچھ دیر بعد میں نے سر اٹھایا وہ بلکل سامنے چپ کھڑی تھیں ۔۔ میں نے کہا برا لگا ۔۔وہ بولیں نہیں ۔۔ میں نے کہا تو ۔ کہتیں بس ویسے ای۔۔ میں نے کہا یہ ویسے ہی کیا ہوتا ہے میں نے کچھ غلط نہیں کہا اور نا ہی یہ بدتمیزی کے زمرے میں وہ بولیں اچھا ٹھیک ہے اور جانے کو مڑیں۔۔ میں فورا اٹھا اور انہیں آواز دی رکیں عمبرین۔۔وہ ٹھٹھکیں میں آہستہ سے چلتا ہوا انکے پیچھے آیا۔۔اور کہا ہر شخص کا اپنا معیار حسن ہوتا ہے ۔۔ میری نظر سے آپ جیسا کوئی نہیں ۔۔ وہ تھوڑا سا ایزی ہو کر بولیں اچھا جی ۔۔ ڈائیلاگ۔۔ میں تڑپ اٹھا اور کہا پلیز مجھے شوخا کہتیں ہیں اب خود بے وقت شوخی نا ماریں ۔آپ کے اندر جو گریس جو رعب جو سادگی سیرت صورت سب یکجا ہے ۔۔ آپ انمول ہیں ۔۔وہ ہلکا اداسی سے مسکرائیں اور کہا میں انمول کہاں ہوں۔۔میرےخاوند نے پورے دو ہزار حق مہرسے میرا بول لگایاہے ۔۔ میں نے کہا وہ بول نہیں ہے نا ہی آپ باندی ۔۔ آپ آزاد عورت ہیں پورے حق گھر اور ذمہ داری کے ساتھ انکی بیوی۔۔ خود کو ارزاں نا کریں پلیز۔۔ میرے الفاظ جیسے بھیگ سے گئے ۔۔ وہ بولیں ارزاں نہیں کر رہی ۔۔ تم نہیں جانتے۔۔ تمہیں نہیں پتہ ۔۔اور آگے کو بڑھنے لگیں میں چپ شاک میں انکے الفاظ انکے اندر چھپے کسی الاو کا پتہ دے رہے تھے۔۔ سیڑھیوں کے پاس جا کر وہ رکیں تھوڑا پلٹ کر آنکھوں میں ہلکی سی چمک تھی شائد کوئی آنسو۔۔ شائد چھبن شائد پلک ٹوٹی ۔۔ وہ بولیں کبھی کبھی کچھ اظہار کچھ تعریفیں کچھ انداز دیرسے ہوتے ہیں ۔۔ تم نے منیر نیازی کی وہ نظم پڑھی ۔۔ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں۔۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہے یہاں سب اتنا جلدی ہوا کہ اب سب دیر ہے یا اندھیر ہے۔۔ لیکن وہ بولتے رکیں ۔۔۔مجھے تمہارا ایسا کہنا اچھا لگا انکے لب مسکرائے ایسا لگ جسے حبس آلود کمرے میں کوئی ذرا بھر کو کھڑکی کھلے اور تازہ جھونکا ہوا کا۔۔ اور ساتھ ہی چپل اتار بھاگتی نیچے کو اتر گئیں۔۔میں جیسے ایک عجیب سے حال میں ۔۔ انکی باتیں انکی حساسیت انکے اندر کا دکھ ۔۔اور جاتے جاتے اک امید کا دیا سا۔۔میں کافی دیر کھلی چھت پر چارپائی پہ لیٹا رہا۔۔ اندر جیسے دھواں سا۔۔ انکی آنکھوں کی وہ چمک ۔۔۔مجھے بنا جانے انکےدکھ نے بہت دیر جگائے رکھا ۔۔ جانےرات کا کونسا پہر تھا جب میری آنکھ کھلی میں ویسے ہی باہر چارپائی پر بنا بستر کے پڑا تھا۔ میں اٹھا اور جا کر اندر لیٹ گیا۔۔صبح جب میری آنکھ کھلی جسم میں ہلکا سا درد اور ہلکا بخار اور آنکھوں میں جلن۔۔ سوموار تھا ۔۔ جانا بھی ضروری تھا۔۔ دل عجیب بجھا بجھا سا تھا۔۔میں بے دلی سے تیار ہوا اور نیچے چلا گیا۔۔ آنٹی ابھی کمرے میں ہی تھیں۔۔وہ آرام سے دس بجے اٹھتیں تھیں۔۔ اسوقت ناشتہ چائے عمبرین ہی مجھے دیا کرتی تھی۔۔میں نیچے آیا تو وہ کچن میں کھڑی چائے پی رہیں تھیں۔۔ انکی آنکھیں بھی سرخ شائد روئی آنکھیں یا نا سوئیں آنکھیں ۔۔ ایک خاموشی سی حائل تھی دونوں کے درمیان۔۔ ظاہری طور پر میں نے صرف انکی تعرف کی تھی لیکن وہ بے شک تئیس کی تھیں لیکن شادی شدہ اور سیانی لڑکی تھیں۔۔وہ اس ایک اظہار سے اس راستے کی منزل تک پہنچ چکیں تھیں۔انہوں نے ناشتہ ٹیبل پر رکھا۔۔ میں خاموشی سے آگے بڑھا اور خالی چائے کا کپ اٹھا کر پینے لگا۔۔۔وہ کچھ نا بولیں۔۔دو چار گھونٹ بھر کر میں چپ باہر نکل کر کالج کو چلا گیا 

سارے راستے مرا موڈ خراب رہا۔۔کالج میں بھی میں سنجیدہ سنجیدہ چپ چپ ۔۔ تین پیریڈز کے بعد چوتھا پیریڈ خالی تھا۔میرا سر شدید درد اور جسم ٹوٹنے کو تھا۔۔ رات جو باہر لیٹ کر لاپرواہی کی اس نے اثر تو کرنا تھا۔۔ میں چپ کالج گراونڈ میں گھاس پر بیٹھا ہوا تھا۔۔وقفے وقفے پر طلبا کی ٹولیاں بیٹھی ہوئی تھیں لیکن آج مجھے کچھ بھا نہیں رہا تھا۔۔ میں نے بیگ کو سر کے نیچے رکھا اور دیہاتی انداز میں بنا کسی نخرے کے گھاس پر لیٹ گیا۔۔ سردی میں دھوپ سب کو ہی بھاتی ہے اور اگر سردی کا بخار ہو تو زیادہ ہی بھاتی ہے ۔۔ میں گم صم پڑا تھا کہ کسی نے میرے کان میں گھاس کا تنا پھیرا۔۔ میں جو پہلے ہی ڈپریسڈ تھا غصے سے اٹھا اور کچھ الٹا سیدھا بولنے ہی لگا تھا کہ چپ ہو گیا سامنے بیلا تھی۔۔ کہتی کیا بات ہے جناب کدھر گم صبح سے چپ چپ خیر تو ہے نا۔۔ میں نے کہا ہاں بس ویسے ہی تھوڑی طبیعت خراب۔۔ 

وہ بے تکلفی سے میرا بازو پکڑ کر بولیں حد ہے یار ۔۔۔ اتنی لاپرواہی تمہیں تو کافی بخار ۔۔دوائی لی ۔۔ میں نے مٹکے جیسا سر ہلایا ۔۔ وہ چڑ کر بولی مجھے امید تھی اٹھو ۔۔میں شائد نا اٹھتا لیکن بیلا چیونگم ک طرزح بس چپک ہی گئی۔۔۔اور مجھے اٹھا کر کالج کینٹین لے گئی کینٹین والے کے پاس سے پیناڈول لی اور مجھ سے پوچھا کچھ کھایا ۔۔ میں چپ تب وہ بولیں بس بس لگ گیا پتہ اور میرے نا نا کرنے کے باوجود بیلا نے مجھے سینڈ وچ کھلا کر پیناڈول کی دو گولیاں اور چائے کا کپ دیکر ہی سانس لیا۔۔ عجیب سی تھی وہ ۔۔ کبھی کبھی مجھے اس سے چڑ ہوجاتی تھی لیکن آج اسکا یوں توجہ کرنا مجھے بھلا لگا۔وہ واقعی اچھی فیلو اچھی دوست تھی۔۔۔چائے کے بعد ہم دوبارہ لان میں آ کر بیٹھ گئے۔۔ اگلی کلاس لگ چکی تھی لیکن میرا دل ابھی دھوپ میں لیٹنے کو ای تھا۔۔ ہم دونوں وہیں بیٹھے رہے مجھے پتہ تھا بیلا ایسے نہیں جائے گی اسلیے بولا ہی نہیں۔۔ ادھر ادھر اور طلبا جنکے پیریڈز فری تھے یا کچھ دیر بعد تھے اپنی اپنی مصروفیات میں گم تھے۔۔ میں آنکھیں موند کر گھاس پر لیٹ گیا بیلا میرے سے کچھ فاصلے پر ۔۔۔میرا دماغ فکر خیال سب عمبرین کی طرف تھا۔۔میری بار بار کی بےخیالی سے بیلا چڑ اٹھی اور غصے سے بولی اب اگر تم دماغی گم ہوئے تو میں ٹھنڈا پانی پھینک دینا۔۔بڑی مشکل سے اسے بہلایا۔۔ وہ بتانے لگی کہ اسکےماما بابا بہت متاثر تھے تمہاری سادگی سے ۔۔ ماما کہتیں کہ لڑکا لگتا بہت معصوم ہے اب وہ کیا جانیں میری معصومیت کا پردہ چاک ہو چکا تھا۔باتوں ہی باتوں میں اس نے مجھے سے پوچھا کہ میرا ٹریک ریکارڈ کیا ہے۔۔ میں ناسمجھی میں اسکی طرف دیکھ کر بولا وہ کیا ہوتا ہے۔ وہ بولی ٹریک ریکارڈ مطلب تم دوڑ اور سوئمنگ میں حصہ لے رہے ہو۔۔ تمہاری سپیڈ تمہارا سٹیمنا ۔۔۔ سانس پر قابو۔۔پانی کے نیچے سانس روکنا۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ میں نے سادگی سے اپنی لاعلمی کا اعتراف کیا۔۔ وہ جھلا کر بولیں تو تم کیا سمجھے یہاں کالج میں بھاگو گے تم ۔۔ یا مغلپورہ والی نہر میں کودو گے۔۔۔ غنہ جی اس نے زبان نکال کر کہا۔۔ تمہیں چھانگا مانگا ٹریک پر ریس مقابلہ میں حصہ لینا ہے اور پنجاب کیمپس کے انڈر سوئمنگ پول میں تیراکی کرنی ہے۔۔ میں جو پہلے ہی ادھ موا تھا میرے اور ہاتھ پاوں پھول گئے۔۔ اور مجھے کیڈٹ کالج کے بیڈمنٹن کورٹ میں اپنے جوہر دکھانے ۔۔ میں نے تپ کر کہا مجھے تھوڑی پتہ ان باتوں کا ۔۔ ہم حصہ ہی نہیں لیتے۔۔ میں نے جیسے فوری حل نکالا۔۔۔اسے تو جیسے کسی نے ہنٹر دے مارا ہو۔۔ وہ خالص کھلاڑی تھی۔۔ مقابلے سے نکل جانا اسکے لیے گویا گالی سے کم نا تھا ۔۔ لڑنا اور جیتنےتک لڑنا اسکا اصول تھا۔۔ یہ وہ خودمجھے بتا چکی تھی کہ وہ نا ہار ماننے کی حد تک مقابلہ کرتی ہے۔۔ وہ شاک سے بولی ۔۔۔کیا بخار سر تو نہیں چڑھ گیا۔۔ اول تو ایسا ممکن ہی نہیں ۔۔۔ لسٹ فائنل ہو چکی ۔۔ میڈم رفعت اس معاملےمیں بہت سخت۔۔ دوسرا وہ مان بھی جائیں مجھے منظور نہیں۔۔ بس ۔۔لیکن مجھے کچھ پتہ نہیں ۔۔ وہ بولی مجھے کچھ نہیں پتہ۔۔ میں نے کہا یقین کرو بیلا مجھے کچھ نہیں پتہ ۔۔ ہاں میری سپیڈ اچھی ہے لیکن چپل اتار کر ۔۔ جوتوں میں تو میں آجتک نہیں بھاگا ۔۔ ہاں سانس میرا مضبوط۔۔ پانی کی تہہ میں ڈبکی لگانے میں سارے گاوں سے آگے تھا میں۔۔ اسکی آنکھیں چمکیں اور بولی مطلب صلاحیت ہے بس اسے تیار کرنا ہے۔۔ کم ود می اس نے اٹھتے ہوے کہا۔۔ میں نے کہا بیلا رکو یار میری طبیعت نہیں ٹھیک ۔۔ وہ بے ساختگی سے بولی بکواس نا کر کونسا تمہیں پیریڈز آئے ہوئے اور فورا ہی بول کے تھوڑا کھسیا گئی اور کہتی چلتا ہے یار۔۔ ایسی ہی تھی وہ ۔۔ بے جھجک بول جانے والی ۔۔مجھے لیکر وہ ایڈمن آفس آ گئی۔۔ تعلقات بنانے کا تو اسے فن آتا تھا اور اب تو میڈم رفعت سے ٹانکا بھی نکل آیا تھا وہ ایسے طریقے سے کام نکالتی کہ حیرانگی ہوتی اوراگرجو کوئی پھیلنے لگے تو ایسی رکھائی سے مٹی پلید کرتی کہ الامان۔۔ لیکن جانے کونسی چیز تھی کہ ہماری بن گئی ۔۔ اور بقول میرے خود ہم نون اور غنہ کی جوڑی بن گئے۔۔ 

میڈم کو ساری سچوئیشن بتائی۔۔ پہلے تو وہ سخت ناراض ہوئیں ۔۔ انکے بقول مجھے میدان میں اترنے سے پہلے تیارہونا چاہیے تھا اور ادھر ہے کہ ہمیں پتہ ہی کچھ نہیں۔۔ان دونوں کے درمیان ایک منطقی بحث چھڑ چکی تھی کچھ باتوں کی سمجھ آتی کچھ سپورٹس کے الفاظ سر کے اوپر سے گزر جاتے اور میں انہیں چپ دیکھے جا رہا تھا۔۔ کچھ دس منٹ کے بعد دونوں کسی ایک نکتے پر متفق ہوئیں۔۔ طے پایا تھا کہ چونکہ بیلا ہی اس بات کی حامی کہ مجھے لازمی حصہ لینا چاہیے تو وہی مجھے تیار کرے اسکے لیے سب سے پہلے ضروری تھا کہ کل میں کالج کے بعد اسکے گھر جاوں ۔۔ شام تک وہاں رننگ مشین پر رننگ کا ٹسٹ دوں ۔۔اور اسکے بعد رننگ کروں۔۔ تھوڑا وارم اپ ہوں۔۔۔میں کیا بولتا اور کون سنتا۔۔۔بیلا نے سب کچھ فائنل کر لیا اور میں مجبورا چپ ۔۔ 

میں جب گھر پہنچا تو واپسی پر پھر رکشے اور ویگنوں پر ہوا کھاتے میری طبیعت تھوڑی بگڑ گئی۔۔ پینا ڈول سے اتنا ہی اثر ہو سکتا تھا۔ گھر پہنچا تو آنٹی برآمدے میں چاول صاف کر رہیں تھیں ۔۔ میں انکے پاس گیا ۔۔سلام دعا کی۔۔انہوں نے میرے چہرے سے اندازہ لگایا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔۔ وہ ہاتھ بڑھا کر ماتھے کو چھو کر بولیں ارے تمہیں تو اتنا بخار ہے۔۔۔میں نےکہا بس بے احتیاطی ہو گئی۔۔ یہ بات کر رہے تھے کہ آنٹی کے موبائل کی بیل ہوئی۔۔ آنٹی نے کال ریسیو کیا حال احوال کے بعد جی اچھا کب اوہو سہی ہے چلو خیر جیسے الفاظ وقفے وقفے سے بولتی رہیں ۔۔کال سننے کے بعدوہ سرگوشی سے بولیں۔۔۔ تمہارا بخار تو اتار دیتی لیکن افسوس ابھی تمہارے انکل کا فون آیا ہے۔۔۔ وہ ایک ضروری کام سے واپس آرہے ہیں۔۔ اڈے کا کچھ مسلہ ہے۔۔ دلاور پشاور ہے ۔۔ یہ اسے وہاں سامان اور گاڑیوں کے پاس چھوڑ کر آ رہے ہیں۔۔ اسلیے مجبوری ہے۔۔ میں پھیکی سی ہنسی ہنسا اور کہا تو جناب آپ ان سے انجوائے کر لینا ۔۔ مجھے سخت تھکن ہو رہی میں ویسے بھی اس پوزیشن میں نہیں۔۔ وہ لاڈ سے بولیں ۔۔ ان سے انجوائے بہت کیا اب تمہاری باری ہے۔۔ خیر تم جاو جا کر ریسٹ کر لو۔۔ میں بھی اب کچھ اور پکانے کا سوچوں وہ چاول نہیں کھاتے ۔۔ بھابھی کدھر ہیں میں نے سرسری پوچھا۔۔ وہ بولیں ارے کہاں جانا ہے وہ موئی نائلہ ۔۔ شادی کے بعد بھی جان نا چھوٹی ۔۔بس آتی ہوگی یہ بازار تک گئیں۔۔۔میں اوپر جا کر رضائی اوڑھ کر جب لیٹا تو دوبارہ سے عمبرین کا خیال سامنے آنے لگا۔۔ بخار میں باہر سے آنے کے بعد رضائی کا پرسکون ماحول۔۔ میں جانے کب سویا علم نہیں۔۔میری آنکھ انٹرکام کی بیل سے کھلی میں نے ادھ سوئے لہجے سے کہا ہیلو کون۔۔ آگے سے عمبرین ہی تھی۔۔ کہتی کھانا کھا لو۔۔ میں نے کہا مجھے بھوک نہیں ۔۔ اور بخار بھی ہے میں نہیں کھانا۔۔ انہوں نے کہا کھانا نا کھانا لیکن کم از کم انکل کو سلام کر جاو ۔۔اور انٹرکام رکھ دیا۔۔ تب مجھے یاد آیا انکل نے آنا تھا۔۔میں اسی حلیہ میں اوپر گرم چادر لی اور شیشے کے سامنے آ کر ایک نظر خود پر ڈالی ۔۔ اففف میری آنکھیں سرخ اور چہرہ پھنک رہا تھا جانے یہ سردی کا اثر تھا یا عمبرین کی سرد مہری کا مجھ میں عجیب سی کیفیت تھی بخار اکتاہٹ ۔۔ بہرطور جانا مجبوری تھی میں ہمت کر کے نیچے گیا ۔۔بھابھی کچن میں ہی تھیں حسب معمول۔۔ انکل سے ملا ۔۔ جیسا پہلے بتایا تھا وہ بہت ہی ہنس مکھ سے بندے تھے۔۔اور آنٹی کے بتائے علم کے مطابق وہ کافی رنگین بھی تھے۔۔ آنٹی انکے سامنے بلکل میرے ساتھ سیریس خالہ بنی رہیں۔۔ ہم باتیں کر رہے تھے کہ بھابھی کھانے کا سامان لیے ادھر ہی آ گئیں۔ جب انکی نظر میرے چہرے اور میرے حال پر پڑی تو ایک تکلیف دہ رنگ انکے چہرے پر گزرا۔۔ پھر فورا وہ نارمل ہوئیں ۔۔ کھانے کے دوران انکل آنٹی سے باتیں ہوتی رہیں۔۔ کھانے کے بعد انکل نے فوری چائے کا مطالبہ کیا۔۔ آخر کو ڈرائیور تھے لانگ روٹ کے ۔۔ فوری چائے انکے لیے واجب تھی۔۔ چائے کے بعد میں طبیعت کا بہانہ کر کے اٹھ آیا۔۔۔ انکل کی رنگین مزاجی کا علم تھا مجھے ۔۔ وہ بھی س مروتا ہی روکے۔۔ میں جاتا تو وہ کمرے میں جاتے نا۔۔ میں اوپر آ کر بستر میں لیٹ گیا۔۔۔ لیٹے لیٹے سو سوچیں۔۔ عمبرین کے خیال نے مجھے مار ڈالا تھا۔۔ انکی ان کہے دکھ نے ۔۔ رات دس کا وقت ہوگا جب انٹرکام کی بیل ہوئی۔۔ میں نے ریسو کیا۔۔ اور چپ رہا۔۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد میں بولا جی بولیں ۔۔ تب کہتیں تمہاری طبیعت پوچھنی تھی۔۔ میں نے کہا جی ٹھیک ہوں بس بخار ہے سر درد ہے اور جی کر رہا میں رووں بہت سا۔۔ جانے کیوں میں روہانسا ہو گیا۔۔ وہ چپ رہیں ۔۔ اور میں نے انٹرکام رکھ دیا۔۔۔میری آنکھیں بھر چکی تھیں ایک نمی سی ۔۔ جو پھیل رہی تھی ۔۔ بخار تھا یا غبار ۔۔ میں ایسے ہی نمناک چپ لیٹا تھا ۔۔دل کی اداسی رات ۔۔ اور بخار و سر درد ۔۔ میں نیم مدہوش سا تھا۔۔ جب مجھے لگا کوئی سایہ سا میرے چہرے پر لہرایا۔۔ابھی میں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایک سرگوشی ابھری۔۔ بخار اترا ؟ دوائی لی۔۔ بہت غلط بات ہے۔ میں چپ رہا ۔۔ وہ سایہ آگے بڑھا میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔۔ اففففف انکا وہ لمس میرے ماتھے پر۔۔ دنیا جیسے رک گئی سکون پھیل گیا جیسے کسی نے اچانک دم سے ساکت کر دی ہر شئے ۔۔ اور انکی سرگوشی بلند ہوئی ہاے میں صدقے ۔۔ تمہیں تو سخت بخار ہے۔۔ سائے کا ہاتھ ماتھے اور چہرے پر پھرا۔۔ ہاتھ نے جب میرے گالوں پر کچھ دیر پہلے کی نمی کو محسوس کیا تو انکی آہ نکلی اورکہا کیوں کررہےہو ایسا۔۔اپنے ساتھ میرے ساتھ  میں نے کیا کر دیا میں نے کھوئی کھوئی آواز میں جواب دیا۔۔ میری آواز جب گونجی ایسا لگ رہا تھا جیسے جانے کہیں دور سے آ رہی ہو ۔۔ بوجھل آواز۔۔ وہ ایسے ہی میرے بیڈ کے ساتھ زمین پر بیٹھی سرگوشی کرتے ہوئے بولیں ۔۔ تم نے کیا کچھ نہیں لیکن مجھے پتہ ہے نا بہت ۔کچھ ہو جائے گا۔۔ یہ جو تم میری تعریف کی نا۔۔ تم کیا سجھتے ہو مجھے اندازہ نہیں تھا تم مجھے چوری چھپے دیکھتے ہو۔۔ میں نے شکوہ کیا تو کیا ہوا ۔۔ وہ بولیں ششش چپ ۔۔ بس سنو۔۔ تم یہاں ایک مقصد کے لیے آئے ہو ۔۔ تمہارا سفر ابھی شروع ہوا ہے تمہارے راستے اور ہیں۔۔ تمہاری منزل روشن ہے ۔۔ تم ایسے میری طرف بڑھو گے تو ضائع کر دو گے سب کچھ۔۔میں سراب ہوں۔۔ میں نے آہستگی سے کروٹ لی ۔۔ انکا ہاتھ میرے رخسار کے نیچے آیا ۔۔ انہوں نے ہاتھ کھینچنا چاہا لیکن میں نے رخسار سے دبا کر منع کیا وہ رک گئیں۔۔ انکے ہاتھ کا جادوئی لمس۔۔ پرانی مہندی کی خوشبو۔۔ ہلکے اندھیرے میں بہت قریب بہت دور سا احساس۔۔ انکا چہرہ ہلکے اندھیرے میں چھب دکھا رہا تھا۔میں نے کہا مجھے سراب کو منزل بنانا ہے۔۔۔ میں جان کر نہیں کرتا نا دیکھتا۔۔ میرے بس میں نہیں جیسے آپ مقناطیس کا بڑا سا سیارہ اور میں لوہے کا چھوٹا سا سا ٹکڑا جو چاہ کر بھی الگ نہیں ہو سکتا۔۔ میری نظریں میرے بس میں نہیں رانی بی بی ۔آپ نہیں جانتی آپ نہیں جانتی ۔۔ میری آنکھوں سے ایک اور قطرہ گالوں پر ڈھلکا۔۔ وہ تڑپ کر بولیں۔۔ تمہیں سمجھ نہیں آتی۔۔ میں سراب ہوں ۔۔ میرے تک آنا نا ممکن ہے ۔۔ میرے اور تمہارے درمیان بہت سی مشکلات مسائل۔۔ میرا خاوند تم نہیں جانتے اسے ۔۔ وہ بہت ہی عجیب ۔۔ میں تو اس حق میں نہیں تھی کہ تم یہاں رہتے مجھے دلاور کے مزاج کا اندازہ 

تو کیوں چنا آپ نے اسے۔ میری زبان سے نکل ہی گیا۔۔ وہ بولیں کبھی کبھی چننے کا اختیار ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوتا۔۔ میں نے بڑی مشکل سے زندگی کے سناٹے کے ساتھ سمجھوتہ کیا تھا۔۔ تم مہربانی کرو اس سناٹے کو آواز نا دو۔۔ میں چپ کی عادی ہو چکیں ہوں۔۔ میں نے کہا لیکن رانی بی بی۔۔ وہ بولیں یہ جو تمہاری رانی بی بی ہے نا۔۔۔ اسکا نام ہی بس رانی ہے ۔۔ ورنہ باندی ہے۔۔ انکا باندی کہنا تھا جیسے مجھے کسی نے کوڑا دے مارا۔۔ میں نے تڑپ کر بنا سوچے ہاتھ انکے ہونٹوں سے لگایا اور کہا بس چپ۔۔اففف جیسے ہی میرا ہاتھ انکے ملائم لبوں سے ٹکرایا ایسے لگا جیسے سکون سا چھا گیا۔۔ ہوس کی جگہ احساس ۔۔ خیال ۔۔ سا جاگا۔۔ میں نے غور کیا انکی آنکھیں بھی چھلک رہی تھیں۔۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر انکے آنسوووں کو صاف کرنا چاہا تو وہ میرا ہاتھ آرام سے ایک طرف کر کے بولیں۔۔ مجھے آنسو صاف کرنے اور پینے کی عادت ہو چکی۔۔ میری عادت نا بگاڑو اور پلو سے چہرہ صاف کیا۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔رانی بی بی 

اب میری سنیں۔۔ آپ سہی کہہ رہی مجھے نہیں پتہ کچھ بھی لیکن مجھے جاننا ہے اپنے دوست کے دکھوں کو ۔۔دنیا کی سب سے گریس فل لڑکی کے چہرے پر اداسی نہیں اچھی لگتی ۔۔وہ تھوڑا مجبور انداز سے بولیں۔۔ کیا چاہتے ہو تم آخر۔۔ میں نے کہا بس اپنے دکھ مجھے دے دو۔۔ وہ سسک اٹھیں اور بولیں کیا کرو گے۔۔ دکھ کون لیتا بدھو۔۔ سب سکھ کے ساتھی سب باتیں ہیں وقتی ہمدردی اور بعد میں وہ ہی مطلب پرستی۔۔ میں نے رخسار کے نیچے والے ہاتھ کو نکال کر ہاتھ میں لیا اور کہا ۔۔ میں لوں گا نا۔۔ دکھ سکھ سب بنا کسی لالچ بنا کسی تقاضے کے۔۔ یہ وعدہ رہا آپ سے۔۔ بس آپ مجھے اجازت دے دیں آپکو دیکھ سکوں سوچ سکوں۔۔وہ چپ سنتی رہیں۔۔ میں جذب سے بولتا رہا۔۔ الفاظ دل سے نکل کر دل تک اتر رہے تھے۔وہ بولیں میرا دکھ یہ نہیں کہ میرے ماں باپ اچانک اور اکھٹے جدا ہو گئے۔۔ میرا دکھ بے قدری ہے ایسی بے قدری کہ جیسے کوئی آپ کو رکھ کر بھول جاے ۔۔ کبھی بھی نا پوچھے۔۔ وہ جذباتی انداز میں ہولے سے بولیں۔۔ میں نے کہا کیا مطلب۔۔ وہ بولیں بس ہے کچھ مطلب۔۔ بس اب اور کچھ نا پوچھنا۔۔ دو چار بار آنکھوں کی برسات نے دل کا بوجھ کچھ ہلکا کر دیا تھا۔۔ بادلوں کے بعد جیسے دھوپ چمکے ایسے وہ مسکرائیں اور بولیں تم بہت اچھے ہو۔۔ میرامان نا توڑنا ۔۔ میں تم پہ پہلی اور آخری بار اعتماد کر رہی ہوں۔ مرد اور عورت کی دوستی بہت ہی خطرناک ہوتی ہے۔۔ جیسے پل صراط۔۔ جیسے اندھیری برسات کی رات میں کچی پگڈنڈی پہ سفر۔۔ کر لو گے ؟ ،،اس پگڈنڈی پر بنا گرے بنا بہکے سفر۔۔ میں نے کہا اگر میں نے کر لیا تو۔۔ وہ بولیں اگر تم نے میرا مان رکھا تو میں تمہیں اپنا ہمراز ہمزاد سپیشل دوست سمجھتی رہوں گی۔۔ جہاں مجھے لگا تم ہمزاد سے مرد بنے میرے اندر کی عورت جاگ جاے گی وہ عورت جو مشرقی ہے اورپھر بس گریز ہو گا۔۔ اسلیے بولو۔۔ میں نے ہاتھ بڑھایا اور کہا۔۔ آپ کے لیے میں ہر امتحان سے گزر سکتا ہوں۔۔ میں ثابت کروں گا آپ کو کبھی شرمندگی نہیں ہوگی 

انہوں نے کچھ دیر سوچا اور ہاتھ بڑھا کر میرے ہاتھ کو تھام لیا۔۔ انکا ہاتھ میرے ہاتھ میں آنا تھا ایسے لگا جیسے دنیا جہان کا سکون مل گیا۔۔ انکے نازک گرم ہاتھوں کا لمس ۔۔ کبوتر کی طرح کانپتے ہوے ۔۔ میں نے کہاہر فکر سے آزاد ہو جاو آپ۔۔ بس آج سے میں آپکے ساتھ آپکے چاروں طرف۔۔ ہر دکھ پریشانی میں روک لوں گا۔ وہ ویسے ہی نیچے بیٹھے بیٹھے میرے سر کے ساتھ سر رکھ دیا۔۔ انکے بالوں کی مہک ۔۔ انکا ایسے قرب سپردگی۔۔۔ خلاف توقع میرے اندر کسی قسم کا نفسانی مطالبہ نا جاگا۔۔ نا ہی انکے لمس سے ہوس جاگی۔۔ بس سکون پھیلتا گیا۔۔ وہ سکون جو پوری محبت سے ملتا ہے وہ سکون جو سپردگی سے ملتا ہے۔۔میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے انکو چھونے کی چاہ نہیں تھی۔۔ بہت زیادہ تھی لیکن ہوس سے نہیں چاہ سے۔۔ روح دل کےبعد جسم کی چاہ۔۔ ایسا ملن جس سے مکمل ہو جاوں میں۔۔ جیسے بپھرتا دریا سمندر میں گم ہو جائے اپنی ذات کو مٹا کر فنا فی یار ہو جاوں۔۔ کتنی دیر وہ ایسے چپ بیٹھی رہیں۔۔ میں انکے بالوں کو سہلاتا رہا۔۔ کچھ دیر بعد وہ بولیں اب میں جاتی ہوں ۔۔ میں نے کہا اتنی جلدی ۔۔ یہ لمحے روک لو نا۔۔ وہ مسکرائیں۔۔ انکے ناک کا لونگ چمکا۔۔ اور بولیں بدھو ہو تم۔۔ ہمارے تعلق میں پاکیزگی ہو لیکن مانے گا کون۔۔خالہ میرے بارے میں بہت اچھے خیالات رکھتیں میں نہیں چاہتی کہ انہیں کچھ نا مناسب لگے۔۔ میں دیکھ لوں گا انکو بھی۔۔ میں نے دل میں سوچا آنٹی بھلا کیاکہے گی جب خود میرےساتھ لیٹ جاتی۔۔ تب وہ بولیں نہیں۔۔ تم کسی سے کچھ بات نہیں کرو گے کبھی بھی نا آنٹی سے نا دلاور سے۔۔جب تک میں نے نا کہا۔۔۔ ہماری بات بس ہم تک یا شائد کچھ نائلہ کو بتاوں لیکن تم کسی سے کچھ نہیں کہنا بولو وعدہ کرو۔۔ اور میں نے وعدہ کر لیا۔۔ پھر وہ اٹھیں۔۔ میرے ماتھےپر جھک کر شفقت والا بوسہ کیا۔۔ سہارے والا ساتھ والا بوسہ اور کہا ۔۔ اب سو جاو ۔۔ پھر بات ہوگی۔۔۔ اور وہ دبے پاوں چلی گئیں۔۔ انکے جانے کے بعد بھی کمرے سے انکی مہک آتی رہی انکی سرگوشیاں۔۔ انکی سانسوں کی مہک انکے بالوں کا لمس۔۔ جہاں سر رکھا تھا وہاں سے پھوٹتی انکی خوشبو۔۔ اور میں جیسے جی اٹھا۔۔ میرا دل کیا کہ ابھی باہر نکل کر ناچوں ۔۔ دنیا کو بتاوں کہ مجھے جو اچھا لگتا تھا اس نے مجھے اپنا مان لیا۔۔ اپنی ذمہ داری دے دی۔۔۔اسی سرشاری میں جانے کب میری آنکھ لگی اور انہی کے سپنوں میں گم سوتا رہا 

اگلی صبح میری آنکھ کھلی تو میں بہت حد تک تازہ دم تھا۔۔ جیسے پرانے جسم میں نئی روح۔ ہر چیز ہر نظارہ اچھا لگ رہا تھا شائد یہ میری قلبی کیفیت تھی۔۔ اتر کرنیچے آیا تو انکل سامنے بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔۔انہی کے پاس بیٹھ کرناشتہ کیا ۔۔ خلاف توقع وہ سپورٹس میں حصہ لینے کا سن کر خوش ہوئی۔۔۔ 

وہ مجھے بتانےلگے کہ سپورٹس میں اچھا ہو بندہ تو آگے جا سکتا۔۔ قد کاٹھ اچھا تمہارا۔ اتنی دیر میں عمبرین بھابھی ناشتہ لیکر آ گئیں اور مجھے کہا ناشتہ کر کے مجھے نائلہ گھر چھوڑتے جانا ۔۔ آج اس نے واپس چلےجانا۔۔ ناشتے کےبعد ہم دونوں روانہ ہوئے ۔۔ میں بہت کھل رہا تھا۔وہ ساتھ چلتے چلتے آہستگی سے بولیں۔۔ بڑا خوش نظر آ رہے ہو۔۔ میں بولا ہاں رات کو ایک پری آئی تھی اور اس نے جادو کی چھڑی سے ساری اداسی سارا بخار اتار لیا۔۔۔ انکی آنکھیں جگمگائیں نائلہ کے گھر پہنچ کر کچھ دیر رکا نائلہ سے ہیلو ہاے ہوئی۔۔ نائلہ واقعی عمبرین کی پکی دوست اور مزاج شناس تھی اس نے دیکھتے ہی کہا۔۔ میری بنو کیا ہوا لگتا کوئی بڑی خبر ۔۔ تمہارا چہرہ انوکھے رنگ بتا رہا۔ عمبرین نے جھینپ کر کہا دفع ہر وقت بکواس بتاتی تمہیں اور میں انہیں ہنس کر دیکھتا ہوا کالج کو نکل گیا۔۔کالج پہنچا تو بیلا بے تابی سے باہر کوریڈور میں ہی میرا انتظار کر رہی تھی ۔مجھے دیکھ کر فورا حال پوچھنے لگی اور بولی تمہارے لیے سپیشل یخنی بنوا کر لائی ہوں ماما سے۔۔ شی از بیسٹ کک۔۔ آف پیریڈمیں وہیں کالج کے لان میں فلاسک سے یخنی نکال کر مجھے دی اور کہا پھر تم نے کیا سوچا ہے ۔۔ میں جو دماغی طور پر عمبرین کے ساتھ تھا چونک اٹھا اور پوچھا کس بارے میں۔۔ وہ بولیں نالائق ایکسرسائز کے بارے میں۔۔ میں بولا کل سے پکا۔۔۔ 

کل کبھی نہیں آتی بدھو اس نےالٹا منطق پیش کی۔۔ چلو اٹھو ایڈمن آفس سنا ہے آج پتہ چلنا شیڈول کا پھر فیصلہ کرتے۔۔ہم وہاں سے اٹھ کر ایڈمن آفس پہنچے۔۔میڈم رفعت کہیں ادھر ادھر تھیں بیلا عجیب اعتماد سے وہیں انکے آفس میں بیٹھ گئی اورکلرک سے شیڈول لیکر مجھے دکھانےلگی۔۔ گیمز اگلے ماہ یعنی دو فروری سے شروع ہو رہیں تھیں اور آج چھ جنوری تھی۔یعنی صرف چوبیس پچیس دن باقی تھے۔ میں پریشان تھا کہ اتنی جلدی کیسے سیکھوں گا۔۔انہی باتوں میں اوپر سے میڈم آ گئیں اور میری پریشانی دیکھ کر بولیں پریشان نا ہو اصل چیز ہوتی ہے صلاحیت جو تمہارے اندر ہے اب بس اسے پالش کرنا ہے اور اسکے لیے دو ہفتے بہت ہیں۔۔ 

کافی دیر اسی موضوع پر سر کھپائی ہوتی رہی۔۔اسکے بعد ہم دونوں وہاں سے اٹھے اور گھرکو نکلنے لگے۔ مجھے گھر جانے کی جلدی تھی۔۔گھر جہاں عمبرین تھیں انکا قرب تھا۔۔ اور وہ مجھےآج ہی پریکٹس کے لیے لیجانا چاہتی تھی۔۔بخار کے بعد کمزوری کا بہانہ بنا کر بڑی مشکل سے اسے ٹالا وہ بھی اس شرط پر کہ کم ازکم میں کالج گراونڈ کے دو چکر لازمی لگاوں تاکہ اسے اندازہ ہو سکے۔۔ اور میری ہزارمنتوں کے باوجود وہ مجھے دھکیلتی ہوئی کالج کی بیک سائڈ کے گراونڈ لے آئی۔۔عجیب تھی وہ ۔۔ مردانہ جینز جیکٹ پہنے مفلر ٹائپ سکارف اوڑھے ۔۔ باب کٹ بالوں والی بیلا جسکا قد اور انداز انڈین مووی چک دے انڈیا کی چھوٹی پلئیر جیسا تھا تصویر ساتھ لگائی ہے تاکہ آپکو اندازہ ہوسکے وہ کیسی تھی گراونڈ پہنچ کر میں جوتے اتارنے لگا تو وہ حیران ہو کر بولی ننگے پاوں کون دوڑتا گیمز میں۔۔میں نے کہا میں ننگے پاوں ہی دوڑ سکتا ہوں۔۔ وہ شائد بحث کرتی لیکن میں نے اسے یہ کہہ کر چپ کرایا کہ یار ایکبار تم میری سپیڈ اور انداز دیکھ لو پھر ساری تعلیم دینا۔۔ اور وہ کندھے اچکا کر رہ گئی۔۔میں نے جوتے اتار کر پینٹ کے پائنچے فولڈ کیے اور دیسی سٹائل میں ایک دو تین کہہ کر بھاگنا شروع کیا۔۔ جیسے گاوں میں پتنگ کے پیچھے یا کتوں کےآگے بھاگا کرتے تھے۔۔ کالج کا گراونڈ لگتا چھوٹا تھا لیکن جب میں نے بھاگنا شروع کیا تو لگ سمجھ گئی۔۔ الٹا پاوں میں کوئی کانٹا چھب گیا کانٹا چھبنا تھا کہ مجھے لگ سمجھ گئی لیکن میں رکا نہیں۔۔ رکتا تو پھر بھاگا مشکل تھا ۔۔ بڑی مشکل سے میں واپس اس تک پہنچا اور پہنچتے ساتھ ہی نیچے بیٹھ کر دیکھنے لگا۔۔ دیسی کیکر کا کانٹا تھا شائد جو اندر ٹوٹ چکا تھا۔۔۔ بیلا میرے پاس آئی اور کہنی لگی بدھو اسلیے کہا تھا ننگےپاوں نہیں بھاگتے اور میرا پاوں دیکھنے لگ گئی ۔۔ کچھ دیر کے معائنہ کےبعد اس نے اپنالیڈیز پرس عرف زنبیل کھولی۔۔ 

اسکا بیگ بھی عجیب چیز تھی جیسےہم بچپن میں کپڑے کا بستہ سکول لیجایا کرتے تھے ویسا ہاں کپڑا اچھا تھا اور بقول اسکے برانڈڈ سپورٹس سمال لیڈیز بیگ تھا وہ۔۔ اس بیگ میں بوقت ضرورت چاکلیٹ چیونگم ۔۔ سنی پلاسٹ ۔۔ سوئی دھاگہ ۔۔ بیڈ۔منٹن والی شٹلز ٹشو اور جانے کیا کچھ بھرا رہتا تھا۔۔ اور وہ اسے کندھے سے لٹکائے لا پرواہ گھومتی رہتی۔۔ اسی زنبیل سے سوئی نکال کر اس نے کانٹا نکالا اور اچھے سے پاوں کو صاف کیا۔۔ پاوں میں ہلکی چھبن تھی ابھی بھی۔۔نرسنگ کے بعد وہ بولی۔۔ تمہارا سٹارٹ اچھا تھا۔۔ سٹارٹ اچھا ہو تو شروع میں ہی برتری حاصل کر کے نفسیاتی مار مارتے لیکن درمیان میں تم سلو ہوگئے۔۔ وہ کانٹا میں بہانہ بنانے لگا تھا تو وہ بولیں۔۔ میں دیکھ رہی تھی کانٹا بعد میں لگا تب تم دو سیکنڈ کو رکے تھے اس سے پہلے تمہارا مومینٹم ٹوٹ گیا تھا۔۔ یہ غلط ہے اسپر توجہ دینی باقی تمہارا انداز فطرتی ہے اسلیے چھوٹے موٹے اصول پاوں ہاتھ کا پھیلاو ان پر بات کا فائدہ نہیں کونسا ایشین گیم کالج لیول پر چلتا ہے سب۔۔ وہ کبھی مجھے حوصلہ افزائی دیتی کبھی غلطی بتاتی۔۔ آخر میری جان چھوٹ گئی۔۔۔اورمیں گھر کو روانہ ہوا 

گھرپہنچ کر فریش ہو کر میں سب کےدرمیان آ گیا۔۔ آنٹی تو جیسے مجھے بھول چکیں تھیں وہ انکل کے ساتھ ہی ادھر ادھر محلے کی باتوں میں گم۔۔ البتہ بھابھی نے شائد میرے چال میں ہلکی لنگڑاہٹ دیکھ لی تھی۔۔۔ میں اٹھنے لگا تو آنٹی نے کہا ۔۔ تم اپنےکپڑے وغیرہ دے دو۔۔ تمہارےانکل کےلانڈری جارہے تو تمہارے بھی بھجوا دیتی میں کچھ بولنےلگا تھا لیکن انکی گھرکی پر چپ ہو گیا۔۔ اوپر آکر کپڑے کھونٹی سے اتارے اور احتیاطا جیبیں چیک کرنے لگا جب ایک قمیض میں مجھے کوئی کاغذ محسوس آیا۔۔۔ افففف یہ تو کومل نے دیا تھا۔۔ میں نے جلدی سے کاغذ نکالا۔۔ تیز تیز لکھائی میں دو سطریں تھیں۔۔۔ میں نے اپنے میکے جانے کا پروگرام بنایا ہے۔۔۔ ناصر سو بہانے کرے گا میں کوشش کروں گی کہ بہانےسے تمہیں ساتھ لیجا سکوں۔۔ تم مان جانا بہانہ نا کرنا۔۔ تمہیں بڑا انعام ملے گا۔۔ اور میں بڑےانعام کے بارے سوچنے لگا۔۔ اگر بڑا انعام انکی چودائی تھا تو وہ میں کب کا لے چکا۔۔ اور بڑا انعام کیا ہو سکتا تھا۔۔ 

خیر دیکھا جاے گا میں نے کندھے اچکائے اورکپڑے لیے نیچے چلا گیا۔۔اور انکل سارے کپڑے لیکر نکلنے لگے تو مجھے شرم محسوس ہوئی اور میں نے آگے بڑھ کر ان سے کپڑے پکڑے اور کہا میں بھی آپکے ساتھ چلتا ہوں وہ میری تہذیب سے خوش ہوئے۔۔راستے میں وہ اپنے قصے کہانیاں سناتے رہے کافی دلچسپ اور ملنسار بندے تھے۔۔واپس آتے تک ہمارے درمیان کافی بے تکلفی ہو چکی تھی۔۔وہ لڈو کے بڑے شوقین تھے اور مجھے بھی کچھ کچھ شوق تھا ہی ۔۔۔ واپسی پر انہوں نے راستے سے نکلی ہوئی مونگ پھلی کے پیکٹس لیے اورکہا چلو گیم لگاتے۔۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ سب لوگ اندرونی طور تنہا تھے۔۔ الگ الگ بھی ساتھ ساتھ بھی۔۔ میری صورت میں انہیں ایک ایسا بندہ مل گیا جس نے اس خاموشی کو توڑا 

گھر جا کر جو گیم سجنے لگی تو آنٹی بھی تیار ہو گئیں۔۔ یہاں سارے ہی لڈو کی حد تک بیلا مزاج تھے۔۔انکل نے عمبرین کو بھی آواز دے دی۔۔ آنٹی نےمشورہ دیاکہ وہ اور عمبرین ایک طرف اور ہم دونوں ایک طرف۔۔ انکل تنک کر بولے واہ تاکہ تم خالہ بھانجی ملکر ہمیں بدھو بنا سکو ۔بدھو پر میری اور عمبرین کی نظریں ملیں 

طویل بحث کے ساتھ میں اور عمبرین ۔۔ انکل اور آنٹی پارٹنر بنیں گے۔۔ یوتھ بمقابلہ اولڈ اور مقابلہ شروع ہوا ۔۔۔ عمبرین کے ہزار رنگ تھے اور ہر رنگ میں وہ رانی تھیں اس وقت وہ بلکل ٹین ایجر لڑکی کنواری لڑکی کی طرح ۔۔چلارہی تھی شور کر رہی تھی۔۔ ہنس رہی تھی اور میں اسکی ہر ہر ادا پر واری جا رہا تھا۔۔اس نے اپنے لمبے ناخن سے ایسے ایسے گوٹیوں کو ادھر سے ادھر کھسکایاکہ میں حیران رہ گیا۔۔میں تو بس اسے دیکھتا رہا اور وہ ہی سہی سے کھیلی۔۔وہ لڈو میں میری استاد بھی تھی۔۔ کیسے گھما کر چھ کو لایا جا سکتا اسی سے سیکھا۔۔ 

تین گیمز کا مقابلہ دو ایک سے جیتنے کے بعد جب انکل اٹھے تو میں نے آنٹی کو بتایا کہ عمبرین نے دو گوٹوں کو طریقے سے گھر کی طرف کھسکا دیا تھا ۔۔ خالہ کتی کمینی ہی بولیں تھیں کہ وہ ہنس کر بولی اور انکی دو پکی گوٹیوں کو وہیں سے واپس پہلی لائن بھی میں نے ہی کھسکایا تھا۔۔ بس جو آنٹی شروع ہوئیں شوخی میں۔ایسے ہی وقت گزرتا گیا۔۔ رات کو اوپرجا کر کچھ دیر بعد میں نے ہلکی سی بپ جتنی انٹرکام بیل دی ۔۔ کافی دیر بعد بیل بجی دوسری بیل پر میں نے ریسیو کیا۔۔اور انکی مدھم ہیلو پر بولا۔۔ چیٹر ۔۔ وہ مدہم سی ہنسیں ۔۔ میں نے انہیں ویٹ کا بولا اور اٹھ کر دروازےکو بند کیا بس لاک نہیں کیا۔۔رضائی اوڑھی اور باتوں میں گم۔۔ انہوں نے بتایا کہ نائلہ نے سب پوچھ لیا اس سے اور بہت خوش ہوئی میں نے اسے بتایا کہ ہمارے درمیاں غلط کچھ نہیں لیکن خاص دوستانہ ہے سہیلی کی طرح۔۔ میں ہنسا اور کہا ماں کے اکلوتے پتر کو لڑکی نا بناو۔۔ ہم بس سہیلی بیلی ہیں۔۔ آپکا بیلی اور وہ ہنس کربولیں چلو جی بیلی سہی۔۔ میں نے شوخی سے کہا ویسے بھی ہمارے جیسا دوستانہ ہو تو بندہ بیلی ہوتا ہے یار ہوتا ہے ۔۔ وہ بولیں نا یار نہیں مجھے بہت برا لگتا یہ لفظ۔۔۔ بیلی بسسس اپنائیت اس میں۔۔ ایکدوسرے سے چھوٹی چھوٹی باتیں ۔۔ ایکدوسرے کو جاننے کی طرف دم بہ قدم۔۔بہت دیرگزر گئی ہم ایسے ہی مست باتوں میں گم۔۔ تب میں نے کہا پتہ میری آنکھیں بند۔۔ اور آپکی سرگوشیاں ایسا لگ رہا جیسے آپ بلکل پاس۔۔ آمنے سامنے لیٹے ہوئے۔۔ وہ چپ سی ہوگئیں ۔ میں نے کہا بس یہی آمنے سامنے دیکھ کر آنکھیں بند کر کے سرگوشیاں باتیں۔۔ وہ ہمممم کیا۔۔آپکے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہوں۔۔ آپ کا ہاتھ پکڑ کر بولتا جاوں۔۔ بس اتنا ہی ۔۔ وہ بولیں ہاں یہاں تک بسسس۔۔۔ میں نے انہیں بتایا کہ انکے بال بہت خوبصورت ہلکے گھنگریالے ۔۔ وہ مسکرا کر بولیں ہاں سب لیڈیز کہتیں جب کبھی بال کھولوں۔۔ مجھے ایسے بال کھولنا پسند نہیں تم کیسے دیکھے۔۔ تب میں نے انہیں بتایا جب آیا تھا اس سے اگلی صبح انکی کمر پر چوٹی کا لہرنا۔۔ وہ ہنسیں اور بولیں تب سے تاک رہےہو۔۔ میں انہیں کیا بتاتا میں تو سرخ تل تک دیکھ چکا تھاایسے ہی باتیں کرتے کرتے کب ہم سوئے ۔۔ یہ نہیں جانتا لیکن ایسی خماری تھی کہ پہلے نا تھی کبھی 

اگلی صبح میں اسی خماری میں جاگا۔۔ ابھی میں کالج نکلنے ہی لگا تھا کہ ڈور بیل ہوئی۔۔۔آنے والا ناصر تھا۔۔ آنٹی نے تشویش سے پوچھا ناصر خیرتوہےنا۔۔ وہ جیسے بھرا بیٹھا تھا بولا کیا بتاوں آنٹی بندہ کتا ہو چھوٹا بھائی نا ہو۔۔ بڑی مشکل سے کب کا ٹور پر جانے کا پروگرام بن رہا تھا۔۔پہلے اچانک نائلہ کی شادی آ گئی اور آج نکلنا تھا کہ بھابھی نے پٹ سیاپا ڈالا ہوا۔ہاے ہاے کیا ہوا کومل کو ۔آنٹی کی عزیز از جان تھی وہ۔۔ ہونا کیا ہے آنٹی ۔۔اسکی بھابھی کے سسرال میں کوئی مرگ ہو گئی۔۔ اور گھر میں بھابھی کے ابا اکیلے ہیں۔۔ اب بھابھی کہتی ہیں انہیں گجرات اتار دوں راستے میں لیکن آگے رستہ ایسا اکیلے کیسے جانے دوں اور ہمیں آج ہی نکلنا ہے۔۔اسکے ساتھ ہی وہ مسخروں کی طرح میرے قدموں کی طرف گیا اورکہااگر آپ میری مددکر دیں تو آپکو گرو مانوں گا ۔۔ آپ کا نکا ویر بن کر رہوں گا۔۔ اسکے ایسے کہنے پر میں ہڑ بڑا اٹھا۔۔ میرے بولنے سے پہلے ہی آنٹی بولیں کیا کر رہے ہو پتر ناصر۔۔ تم بولو کیا کرے نعیم۔۔ اس نے کہا ۔۔بس یہ کرنا ہے کہ ہمارے ساتھ سپیشل وین میں جائے۔۔ ہم انہیں گجرات اتار کر آگے مری کو نکل جائیں گے ۔۔یہ انہیں وہاں سے آگے جلال پور جٹاں کےپاس انکے گاوں چھوڑکر آسانی سے شام تک واپس آ سکتا۔۔ میرےذہن میں جیسے پھلجڑی چھوٹی کہ ہو نا ہو اس کام کا تعلق اسی پرچی سے ہے۔۔میں نے کہاکیوں نہیں بھائی ۔۔ تب وہ بولا شکریہ بس آپ تیار ہو اور ہم آتے گھنٹہ تک۔۔ اسکے جانےکے بعد آنٹی بتانے لگیں کومل کے والد کافی بیمار رہتے بزرگ ہیں کافی یہ انکی سب سے چھوٹی بیٹی۔۔ چلو اچھا مل آئیگی ابے سے۔۔ جا تو بھی اچھے سے کپڑے پہن لو پہلی بار جا رہے سو بندہ مل سکتا اور میں سر ہلاتا اٹھ گیا اوپر جا کر کپڑے بدلے اور اچھے سے تیارہو کر واپس آ گیا۔۔ وہ گھنٹے کی بجائے دو گھنٹے سے بھی بعد آئے۔۔ناصر نے بگڑے لہجے سے کہا سارا دن ضائع کرا دیا بھابھی نے تیاری ہی نہیں ختم ہوتی انکی۔شام ہو جانی گجرات ہی اس نے روانی سے کہا۔۔ تب انکل بولے اچھا پتر اگر زیادہ دیر ہو جائے تو رک جانا وہیں۔۔ بس آنٹی یامیرے نمبر پر کال کر دینا۔۔ انکل نے تو جیسے سارا منظر ہی سیٹ کر دیا تھا۔۔۔جلدی جلدی نکلے ۔۔یہ سات سیٹوں والی اے پی وی تھی۔۔ پچھلی سیٹ پر کومل اور ناصر بیٹھے ساتھ اسی کی ایج کے محلے دار تھے جنکے لیے وہ سب کومل بھابھی تھیں۔۔ میں ڈرائیور کے ساتھ خود ہی مرضی سے بیٹھا ۔۔ کومل بھی سارےراستے جیسے مجھے بھول ہی گئیں۔۔ 

مزید کہانیاں پڑھنے کے لئیے لنک پر کلک کریں اور وزٹ کریں۔ 

https://sites.google.com/view/desi-stories/home 

 

کچھ بارہ ساڑھے بارہ کا وقت ہو گا جب ہم گجرات پہنچے ۔۔ انہوں نے ہمیں جی ٹی روڈپر ہی سروس چوک کے قریب اتارا اور آگے نکل گئے۔۔ جب گاڑی تیزی سے آگے نکل گئی تب کومل پہلی بار بولی۔۔ شکریہ جناب کا میری بات ماننے کا۔۔تب تک میری آوارگی والا بٹن آن ہو چکا تھا۔۔ میں نے انکی طرف دیکھ کر کہا۔۔آپ بلائیں اور ہم نا آئیں ایسا ہو سکتا کیا انہوں نےقاتلانہ مسکراہٹ دی۔ میں نے کہا آج آپ کے میکے جا رہے ۔۔ پھر کیا خدمتیں کریں گی۔۔وہ بولی بس تم دیکھتے جاو۔۔ سروس موڑسے رکشہ لیکر ہم جلال پور جٹاں سے آگے جب متعلقہ گاوں پہنچے دو بجنے والے تھے۔ وہاں پہنچ کر حسب ہدایت میں سیریس بیٹھا رہا۔۔ کومل نے ابا سے تعارف کروایا ۔اسکے ابا کے پاس وقتی طور ایک آنٹی تھیں جسکے بارےپتہ چلا وہ رابعہ کی والدہ ہیں۔۔ اچانک مجھے رابعہ بھی یاد آ گئی کیا سوچتی ہو گی میرے بارے میں۔۔کچھ دیر بعد رابعہ کی اماں چلی گئیں۔۔۔ شام کا کھانا جلدی کھا لیا گیا۔۔ دیہاتی گھرتھا۔۔ اسکےابا بزرگ آدمی تھے میرےہوتے بھی بس اونگھتے ہی رہے یا کچھ کچھ دیر بعد جاگ کر کومل سے بات کر لیتے۔۔ ایسی ہی ایک غنودگی میں کومل نے مجھے کہا کہ تم ایساکرو اسی برآمدے کے اینڈ والے کمرے میں تم ریسٹ کرو۔۔ اورسرگوشی میں بولیں وہ میرا کمرہ تھا پہلے ۔۔۔ میں ابا کو سلانے کے بعد آجاوں گی۔۔ میں وہاں سے اٹھ آیا۔۔ لمبے برآمدے کے اینڈ پر یہ کمرہ تھا۔۔ اندر ایک پلنگ پر بستر سجا تھا۔۔کچھ دیر بعد وہ کمرےمیں آئیں اور ایک ٹرے میں دودھ کا گلاس اورساتھ پنجیری تھی۔ کہتیں تم یہ کھاو پیو اور تھوڑا ریسٹ کر لو میں آ جاتی ۔۔یہ کمرہ کسی کے زیر استعمال تھا کچھ کچھ۔۔ سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر ایک آدھ پرفیوم پاوڈر لوشن بھی تھا۔۔ میرے اندر کا وحشی جاگنے کو تھا۔۔۔وقت گزرتا گیا۔نو بجے کے بعد کومل اندر آئیں اور میرے ساتھ بیٹھ کر بولیں ۔۔ابا کو سلا آئی ہوں ۔۔ نیند کی گولی دیکر۔۔کہا تھا نا پوری رات گزارنی تیرےساتھ ۔۔ آج تو کسی رابعہ کا ڈر نہیں۔۔میں ہنس پڑا۔۔ میں انکی طرف شوخی سے دیکھا اور کہا پھرآج بتاوں کہ باتوں کے علاوہ کیا کیا آتا۔۔ وہ ہنس کر بولیں ہاں بتا لو نا۔۔ آج کی رات سب بتا دو لیکن پلیز اندر نہیں چھوٹنا ۔۔تھوڑا سا پیچھے کر لینا۔۔ آج وہ الگ ہی ترنگ میں تھیں۔۔ میں اٹھا اور کہا گلےتو ملیں نا پہلے۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولیں ملوں گی لیکن بس ابھی آ کر ۔۔ میں پھر سے چپ بیٹھ گیا۔۔ دس منٹ تک وہ واپس آئی ۔۔ اسبار انہوں نے اپنے بالوں کو ہلکا ڈھیلا کھول رکھا تھا۔۔پیلے کلر کی سلیو لیس شرٹ جسکے گرد لیس سے ڈیزائننگ تھی۔۔ گلا کافی کھلا جو انکے حسن کو اور نمایاں کر رہا تھا۔۔ نیچے اسی کلر کا چوڑی دار پاجامہ ۔۔آج وہ فل تیاری سے بجلی گرانے کو تیار تھیں۔۔ لبوں پر ہلکی سی لپسٹک میرا لن تو جیسے انہیں دیکھ کر سلامی دینے لگا ۔۔وہ اٹھلاتی ہوئی میرے پاس آئیں اور گلے سے لگ گئیں ۔۔ افففف انکے پاس سے اٹھتی پرفیوم کی خوشبو ۔۔۔ میں نے زور سے بازووں میں لیا۔۔۔ سلامی دیتا لن جیسے ہی انہیں چھبا وہ شوخی سے بولیں بہت ہی تیز ہے یہ اکڑو۔۔ میں نے کہا کیوں اسکی اکڑ پسند نہیں کیا تو وہ ہوسانہ لاڈ سے بولیں ہاااے اسکی اکڑ ہی تو پسند ۔۔ انکی آنکھوں میں لالی ابھی سے چھا چکی تھی۔۔ انہوں نے کسی ہوئی جھپی کو اور سخت کیا۔۔ میں انکے بالوں میں چہرہ گھماتا رہا۔۔ وہ بولیں ایسی رات گزارنی تھی تیرے ساتھ اسلیے بلایا۔۔ تب مجھے یاد آیا اور میں نے پوچھا انعام کیا تھا۔۔ وہ بولیں انعام بھی مل جاے گا لیکن ابھی نہیں نا۔۔ انہوں نے میرے لن کو ٹانگوں میں دباتے ہوئے کہا۔۔۔ سہی سے چدکڑزنانی تھی وہ۔۔میں نے انہیں گھمایا اورانکی سلیو لیس شرٹ سے نکلے گورے بازووں پر ہتھیلی پھیری۔۔۔۔ افففف انکے بازووں پر میرے ہاتھوں کا پھرنا اور انکا گہرا سانس لیکر تھوڑا اوپر ہو کر نیچےہونا ۔۔ ایسے میں انکی گانڈ اور رانوں کا میرے لن پر لمس۔۔جیسے بھوکے شیر کو کسی نے ٹھڈا دے مارا ہو۔۔ میں نے انکے ہلکے کھلے بالوں کو ہٹایا ۔۔ انکے گلے کی طرح بیک سے بھی شرٹ کافی کھلی تھی۔میں نے اپنے بہکتے ہونٹوں سے انکے کان کی لو کو چوسا ۔۔ میرے اندر کا بھوکا وحشی جاگ چکا تھا۔۔۔ کان کی لو کو چوستے ہوئے لبوں کو بیک پر پھیرا ۔۔ جہاں جہاں بیک گلا کھلا تھا۔۔ افففف وہ جیسے تڑپ اٹھیں ۔۔فل سناٹا۔۔ اپنا گھر ۔۔ اور انکی مستانی جوانی اور میری وحشت۔۔ آج وہ فل مستی میں تھیں۔۔ وہ ہلکا گانڈ کو میرے لن پر رگڑ رہیں تھیں۔۔ میں انکی کمر کو چومت دوسرے کان کی لو تک گیا۔۔ وہ کھڑے کھڑے کانپ ہی گئیں اور مدہوش سسکیاں ہااااے ۔۔ افففف ایسےہی۔۔۔ ہاااے کرتی رہیں۔۔ میں ایسے ہی انہیں چلاتا ڈریسنگ ٹیبل تک لایا اورانہیں ڈریسنگ ٹیبل پر بٹھا دیا خود انکی ٹانگوں کے درمیاں۔۔ اور انکے چہرےکو پیچھے کر کے شیشے سے لگا کر اٹھی ٹھوڑی کے نیچے سے کلویج تک زبان پھیری ۔۔۔ افففف وہ ایسے تڑپیں اور ایسے سسکیں کہ جیسے چھری پھیر دی ہو۔وہ مکمل مست۔۔ ہاتھ بڑھا کر لن کو کھینچ رہی تھیں۔۔مدہوشی میں وہ اٹھیں اور مجھے پیچھے ہٹاتی پلنگ تک لائیں اور مجھے ہلکا پش کر دیا۔۔۔میں سیدھا پلنگ پر اور لن سیدھا کھڑا اوپر کو۔۔ وہ سامنے ۔۔انہوں نے ایک ادا سے بازو اوپر کیے اور شرٹ اتار دی۔۔ اور دوسرے ہلے میں برا بھی اتار دی۔۔افففف انکا چمکتا جسم ۔۔ انکے بوبز اور نپلز۔۔تنے ہوئے بوبز۔۔ اور مجھے اشارہ کیا۔۔ میں نے شرٹ کے بٹن کھول دیے ۔۔ وہ جھکیں اور اپنے بوبز کو میرے چہرے سینے پر پھیرنے لگیں۔۔۔ افففف بوبز کا لمس ۔۔ نپلز کا لمس ۔۔ میرا انگ انگ ترنگ میں تھا۔۔ بوبز کو میرے چہرے کے اوپر لاتیں ۔۔ میں نیچےسے اوپر کو ہوتا اور لپس میں انکے نپلز کو لیکر چوس کر رس نچوڑتا۔۔وہ مدہوشی سے سسکتیں انکے بال کھل چکے تھے ۔۔ گال سرخ۔۔ وہ ایک ادا سے میرے اوپر گرتی گئیں۔۔ میں نے ہاتھ انکی کمرپر رکھا اور برش کی طرح پھیرتا انکی گانڈ تک لایا۔۔ افففف اور جھٹکے سے پاجامہ اتار دیا۔۔ چوڑی دار پاجامہ رانوں تک اتر کر پھنس گیا۔۔ میں انہیں بازووں میں لیے اوپر سے ساتھ اور اپنی شلوار اتار دی۔۔ تنا ہوا لن تڑپ کر باہر نکلا۔۔انکو سیدھا کیا پلنگ پر اور 

اور انکے پاوں کی طرف لیٹ کر انکی ادھ ننگی ٹانگیں پیٹ کے اوپر سے گزار کر پلنگ پر۔۔ اب تھوڑا اوپر کو کھسکا ۔۔ انکو تھوڑا جھکا کر لبوں میں لب لیے اور انکی ٹانگوں کے نیچے سے ہاتھ بڑھا کر لن کو انکی پھدی پر رگڑا۔۔۔ افففف وہ تو جیسے تر بتر تھیں۔۔ پھدی کی گرماہٹ اسکے لمس نے لن کو اور اکسایا۔۔ میں نے وحشت سے رگڑکر لن کو پھدی کے اوپر اوپر رگڑا افففف وہ فل مدہوش مست۔۔میں نے لن کو جمایا۔۔ انکے نپلز کو مسلا اور لپس کو لپس میں لیکر جھٹکا مارا۔۔ لن بلکل سیدھے پھدی کے لبوں کو ہٹاتا اندر کو گھسا۔۔۔ اندر جیسے بھٹی تھی۔پورے جوش سے پھدی نے لن کو ویل کم کیا۔۔ لن آدھا جا چکا تھا۔۔ کومل مزے سے میرے لبوں کو چوس رہی تھی ۔۔ میں رکا۔۔ جب کومل نے میرے کمر پر ہاتھ رکھ کر آگے کو کیا۔۔ انکے ایسے اکسانے نے آگ لگائی۔۔ میں نے وحشت سے اگلا جھٹکا مارا۔۔ لن راستے بناتا سیدھا اندر تک۔۔ افففف وہ تڑپیں ۔۔اور ساتھ لگیں۔۔ میں نے نکالا اور پھر مارا۔۔ وہ بے تابی سے میرے منہ میں اپنی زبان گھما رہیں تھیں۔۔ پورے موڈ سے جب عورت ملے اسکا سواد ہی الگ ہوتا۔۔ اور آج وہ فل تیاری سے چدنے آئیں تھیں۔۔ دو چار دھکوں کے بعد میں اٹھ اور انکی ٹانگوں کو اوپر کیا۔۔ گوری ٹانگیں ۔۔مجھے تڑپا رہیں تھیں میں نے ہتھیلی سے مساج کیا اور پھنسے پاجامے کو وحشت سے کھینچا۔۔ ریشمی کپڑا چر کر پھٹا۔۔ وہ ہاے اللہ وحشی آرام سے نا۔۔ لیکن اب نہیں اب میرے اندر کا آوارہ جاگ چکا تھا ۔۔ اٹھی ٹانگوں میں انکی پھدی کے تڑپتے چمکتے لب۔۔ میں نے ایڑیوں کے پاس پھنسے پاجامے کو گھما کر انکی ٹانگوں کو ایک دوسرے کے اوپر قینچی مروا کر دونوں پاوں اپنے شانے پر رکھے۔۔۔ ایسے ٹانگیں ساتھ ملانے سے انکی پھدی کافی تنگ ہو چکی تھی۔۔میں نے پلنگ کی چادر سے لن کو ہلکا سا صاف کیا۔۔ وہ مست لال ادھ کھلی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہیں تھیں۔۔ میں نے لن کو پھدی پر جمایا اور دھکا مارا۔۔ خشک لن اور تنگ ہوئی پھدی۔۔ لن پہلے جہاں آدھا جاتا تھا اسبار تھوڑا کم گھسا۔۔ پھدی کی دیواروں سے خشک لن کی رگڑ وہ سسکیں۔۔ میں رک کر تیز دھکا مارا۔۔ پلنگ نے چوں کی اور انہوں نے ہاے مر گئی۔۔ لن آدھے سے تھوڑا اوپر گھس چکا تھا۔۔ میں سیکنڈ رکا اور اگلا جھٹکا مار کر پورا لن اندر اتار دیا۔۔انکی تیز سسکی۔۔ ہاے میری پاٹ گئی۔۔ میں نے باہر نکال کر پھر دھکا مارا۔۔ دوسرے تیسرے دھکے پر انکی پھدی نے میرے لن کوپھر سے فل گیلا کر دیا تھا۔۔ انکی پھدی کی لرزش ۔۔ شائد وہ صبح سے سوچ سوچ کر ہی آدھی گیلی ہو چکیں تھیں۔۔میں پیچھے ہٹا ۔۔ اور انکی ٹانگوں کو اتارکر اٹھایا۔۔خود پلنگ پر بیٹھا اور انہیں گود میں بٹھا لیا۔۔ افففف لن سلپ ہوتا اندر تک گیا۔۔ پھدی بس آخر آخر پر تھی۔۔ انکی سسکیاں۔۔ میری بھی بس ہونےوالی تھی۔۔ ابھی بہت وقت تھا۔۔ دوسرا پھیرا آرام سے لگایا جا سکتا تھا۔۔ میں انہیں بازووں میں لیکر لبوں کو چوستا اوپر نیچے کرتا گیا ۔۔ وہ میرے کندھے سے لگیں جھول رہیں تھیں۔۔ اوپر نیچے ہونے سے انکے بوبز اور نپلز میرے سینے پر لائنز لگا رہے تھے۔۔ پلنگ کی چراہٹ انکی سسکیاں اور میری دیوانگی۔۔ انکی آنکھیں بند تھیں۔۔ میں انہیں ایسے لیتا لاسٹ پر گھوڑی بنایا۔۔ انکی موٹی گانڈ پر دو سافٹ سے تھھپڑ مارے۔۔ وہ۔مدہوش کھلے لٹکتے بال۔۔ انکی ٹانگوں کے ساتھ لگ کر انکی کمر کو چاٹ کر کندھوں پر لپس سے کاٹ کر ۔۔ لٹکتے بوبز کو انگلیوں میں مسلتےہوئے میں نے سیدھا جھٹکا مارا۔۔ رکا اور مارا۔۔ لن پھسلاہٹ سے سیدھا جڑ تک اندر گیا انکی ٹانگیں کانپیں۔۔ انکے منہ سے عجیب آوازیں نکل رہیں تھیں۔۔ آاااہ ااففف اخ اوہ آہ ۔۔تھپ تھپ سے جسم کا ٹکرانا۔۔ اور وہ لرزتی ہوئی چیخیں ہاااااے یسسس فل تیز کر ۔۔ ہاں نکال کر سٹ مار اففف آہ یسسسس میں گئی بس ۔۔ اوروہ گانڈ کو میرے ساتھ پیچھے ہیس کرتی چھوٹتی گئیں۔۔ لیکن میں رکا نہیں۔۔ انکے چھؤٹنے سے پھدی کے بند ہونے کھلنے اور لن کو بھنچنے سے میں بھی ہونے والا تھا اور ایک تیز جھٹکا مارا وہ نیچے پلنگ پر بچھ گئیں اور میں انکے اوپر گرتا چھوٹتا گیا ۔۔۔۔


Next 

 

Post a Comment

0 Comments